Tark E Taluq Ka Bhaid - Article No. 1915

Tark E Taluq Ka Bhaid

ترک تعلق کا بھید - تحریر نمبر 1915

اس کی ایک تباہ کن اور خود شکن خرابی یہ ہے کہ وہ بہت اونچی آواز میں محبت کرتا ہے۔ پھولوں کے رخساروں پر دمکتے قطرے اسے اچھے لگتے تھے

آصف مسعود ہفتہ 16 فروری 2019

وہ ایک سادہ، مخلص اور گرم جوش انسان تھا۔ اُسے منافقت کے آداب سے واقفیت نہ تھی۔ پانچ سال تک وہ ان کے گھر جا کر ان کے بچوں کو اس محبت، جان توڑ کوشش اور خلوص نیت سے پڑھاتا رہا کہ جس کی مثال عصر حاضر میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ بہت سے والدین بھی اپنے ہی بچوں کیلئے ایسی قربانی اور کوشش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے کتابوں میں ایسے قصے ضرور پڑھے تھے لیکن اپنی آنکھوں سے ایسا ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
اس کی ایک تباہ کن اور خود شکن خرابی یہ ہے کہ وہ بہت اونچی آواز میں محبت کرتا ہے۔ پھولوں کے رخساروں پر دمکتے قطرے اسے اچھے لگتے تھے۔ وہ لوگ شاید زیادہ قدر شناس ثابت نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ وہ اس گھرانے کے لئے اور اس کے بچوں کے لئے دعا کرتا رہے گا اور خداوند کریم سے چاہے گا کہ وہ اس کی دعائیں قبول کرے اور اس گھرانے کو خیر کثیر کی سر بلند فصلیں عطا کرے۔

(جاری ہے)

اُسے کسی کی رسی پکڑنے، کسی کو دست نگر بنانے یا کسی کو اپنے سے ہلکا ثابت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ نہ وہ کسی کے راز معلوم کرتا نہ کسی کے راز اگلوا کر اسے خوشی ہوتی۔ کوئی اس کے سامنے بیٹھ کر روتا رہے وہ بغیر وجہ دریافت کئے ہمدردی کئے جاتا ہے۔ وہ کسی کے دل میں سیڑھی اتار کر اترنا ہی نہیں چاہتا۔ کیونکہ اترنے کے بعد قیام بھی ایک شرط ہے۔ وہ یہ شرط اس لئے پوری نہیں کر سکتا کہ اسے اپنی آزادی بہت عزیز ہے۔
وہ کیا سوچتا ہے؟ کیا چاہتا ہے؟ اس کی نیت کیا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے۔ کسی کو زیر بار کرنے کا بھی اسے کوئی شوق نہیں کہ اللہ تعالی کا لطف بے پایاں اور خیر کثیر اسے ہمیشہ انھی لوگوں کی وجہ سے حاصل رہا کہ وہ کہتا ہے بنی نوع انسان میرا کنبہ ہے جو اس کا خیال رکھے گا، میں اس کا خیال رکھوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ غم نہ کرو جو تم کھو رہے ہو وہ کسی اور شکل میں تمہارے پاس آئے گا۔
وہ فرماتا ہے ہم دل کی کدورت جتنی دور کرتے جائیں گے ہمارا دل محبت کے نور سے اتنا ہی روشن ہوتا جائے گا۔ وہ بد بخت ترین لوگوں کے عیبوں پر بھی پردہ ڈالے رکھتا ہے۔ ابن عربی کے پاس دمشق کا ظالم ترین شخص آیا۔ ابن عربی نے اسے محبت کے ساتھ اپنے پہلو میں بٹھایا۔ عارف کا دل انسانیت کی محبت سے آباد ہوتا ہے۔ وہ کھو جانے اور چھن جانے پر غم زدہ نہیں ہوتا۔
یہ خود کو ڈھونڈ لیتے ہیں، یہ خود کو پا لیتے ہیں۔ یہ آواز کو پست اور دلائل کو بلند کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو قابل قدر سمجھتا ہے کہ اللہ نے جب بھی اسے خوش کرنا چاہا تو انہی لوگوں سے تالی بجوائی۔ دلکش مسکراہٹیں اور جلترنگ آوازیں انہیں لوگوں سے عطا کروائیں۔ جب بھی اسے محبت عطا کرنا چاہی تو کسی بندے سے جپھی ڈلوائی۔ نوکیلی باتوں اور چاقو سے گدگدیاں کرنے والوں سے اسے ہمیشہ امان بخشی۔
وہ انعام بر اور فضل بردار نہیں ہے۔ خود انعام اور خود فضل ہے۔ بے شک اس کا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔ وہ لوگوں کو معاف کرنے پر قدرت چاہتا ہے بالکل ایسے جیسے ماں ہر چیز کو معاف کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ جیسے اللہ ہماری پرورش کرتا ہے۔ ہمیں معاف کرتا ہے صبح، شام، دن، رات۔ ایسے ہی ماں کو ہونا چاہئے، ایسے ہی دوست کو ہونا چاہئے، ایسے ہی بیوی کو ہونا چاہیے اور بالکل ایسے ہی استاد کو ہونا چاہئے۔
عیب جوئی محبت کی قینچی ہے۔ زندگی میں مسکراہٹ زیادہ ہونی چاہئے، کڑواہٹ ذرہ کم۔آوٴ اپنے آپ کو صرف اور صرف اچھائی سے بھر لیں اور صرف محبتیں بانٹیں۔آئیے ہم خوش ذوق، خوش خصال اور خوش اطوار ہو جائیں۔آئیے جرات و بے باکی اور روحانی فیضان سے سیر ہو جائیں۔عظمت، طاقت اور پارسائی کو اپنی کہانیوں میں مرکزی کردار دیں۔آئیے ہمدم دیرینہ کو امید اور ہمت بخشیں۔
آئیے حسن کارکردگی میں، حْسن لبان احمریں کی بجائے حسن اخلاق کے نمبر شامل کریں۔اور اس طرح چنگیز سے تاریک تر اندرون کو چہرے کی طرح روشن کر لیں۔پھر وہ وقت آیا کہ اس گھرانے کے بچوں کو وقت سے کچھ پہلے اور ضرورت سے کچھ زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے اور انہوں وہ فیصلے خود کرنا شروع کر دئے جو کبھی والدین اور اساتذہ کا اختیار تھے۔ جب حالات نے یوں کروٹ لی تو اس سادہ لوح پیکر خلوص نے اس شعر کا روپ دھار لیا۔
۔۔۔۔ کسی پہ ترک تعلق کا بھید کھل نہ سکا تیری نگاہ سے ہم یوں اتر گئے چپ چاپ لیکن دنیا میں خدا کے ان سفیروں کو اس کی کیا پرواہ، ان کی نگاہ سے تو نہ جانے کتنے چپ چاپ اْتر گئے۔ ان کی نظر تو آنے والوں پر جمی ہوتی ہے، جانے والوں پر نہیں۔ پلٹ کے دیکھنا ان کی عادت نہیں۔ فراز نے ایسی ہی کسی صورت حال کی کچھ یوں تصویر کھینچی ہے۔۔۔۔۔ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

Browse More Urdu Literature Articles