Yameen Ki Maut ! - Article No. 2340

Yameen Ki Maut !

یامین کی موت! - تحریر نمبر 2340

یامین کے گرد کھڑے انبوہ کی آنکھوں کی انگلیاں‘ اسکے چھریرے بدن اوربازوں سے ابھرے ‘پٹھوں میں پیوست ہورہی تھیں،مگرآج پہلا موقع تھاکہ یہ آنکھوں کی انگلیاں اسے چُب نہیں رہیں تھیں۔سولہ سالہ یامین جوانی گزارے بغیر مرچکا تھا ،”مالکان “کے اس فلسفے کو جانے بغیر کہ اسکی مشقت آمیز اورجان لیوا مزدوری ’حرام تھی کہ حلال‘

Qamar Uz Zaman Khan قمر الزماں خان ہفتہ 16 مئی 2020

نیشنل ہائے وے سے شہر کی طرف دوسری بائی پاس کوجمالدین والی نامی قصبے کی طرف جانے کی نسبت سے جے ڈی ڈبلیو روڈ کہا جاتا ہے۔ اسی سڑک پر شہر کی طرف آتے کھوکھر ٹاؤن ہے۔یہیں پر یامین کاگھر ہے۔ یامین کی والدہ کچھ ماہ پہلے وفات پاگئی تھیں ۔ اسکی دوبہنیں اور اس سمیت چاربھائیوں پر مشتمل گھرانا اپنے باپ کے ساتھ زندگی گزاررہا تھا۔یامین تعمیراتی شعبے کا مزدورتھا۔
وہ اپنے باپ اور ایک بھائی کے ساتھ مل کرمزدوری کرتا تھا۔ 14مئی کی صبح بھی یامین گھر سے روزی کمانے نکلا تھا، وہ گھر سے نکلا تو گھر والوں سے سرسری سی بات چیت ہوئی۔ نا تواسے ہی معلوم تھا کہ آج گھر سے مزدوری کیلئے رخصتی غیر معمولی ہے اور ناہی گھر والوں نے اسکو گلے سے لگا کر رخصت کیا۔ ماں تو اسکی تھی نہیں جو اپنے بچوں کو کام پر رخصت کرتے انکا ماتھاچومے اورناہی بہنوں اور گھررہنے والے بھائی نے اپنے بھیا کوجی بھر کردیکھا۔

(جاری ہے)

وہ گھر سے چند فرلانگ شہر کی طرف سٹیلائیٹ ٹاؤن میں پہنچا ۔ وہاں ایک مکان کی تعمیر ہورہی تھی۔یہ مکان کئی دنوں سے زیر تعمیر تھا اور یامین کو یہاں سے روزگار مل رہا تھا۔یہ تو’مُٹے‘ کا کام تھا مگر عام طورپر یامین کو400روپے دیہاڑی کے مل جایا کرتے تھے۔یامین کی جوانی کا آغاز ہوا چاہتا تھا، توانائی بھرپور تھی ،جسم سے طاقت پھوٹتی تھی ۔عام طور پراس کومزدوری ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
پیڑھی پرکھڑے دوسرے درجنوں مزدوروں میں وہ سب کوہی بنا کسی اعتراض بھاجاتا۔محنت کی خریدار” تاڑتی آنکھیں“ اسکی طاقت کی پیمائش کرلیتیں۔وہ اپنے جسم پرانگلیوں کی طرح ٹٹولتی آنکھوں کی شدت اور دباؤ محسوس کرسکتاتھا۔اسے بالکل پتا چل جاتاتھا کہ ’خریدار‘ کی آنکھیں اسکے بازو کے پٹھوں پر رینگ رہی ہیں۔ان آنکھوں کی انگلیاں بڑی کرختگی سے اسکے جسم کے گوشت کو ٹٹولتیں۔
یہ سختی اسے بہت چبتی،ناگوار گزرتی، مگر اسے یہ سب قبول تھا‘ کیوں کہ آنکھوں کی اس چھیڑ چھاڑ کے بعد اسکو باقی مزدوروں کی بھیڑ سے نکال الگ کھڑا کرلیاجاتا۔ سب کومعلوم تھا کہ دن بھر کی مزدوری کا بدل چارسوروپے ہے مگر ہر خریدار بھاؤ تاؤ ضرورکرتا۔کمزورپٹھووں والے ،عمررسیدہ اورمحنت کی چکی میں پس پس کر گھس جانے والے مزدورجن کا گوشت سوکھ رہا ہوتا‘انکی دیہاڑی صحت مند مزدوروں کی نسبت عام طور پر پچاس سے سوروپے کم میں ہی ہوتی۔
مگر وہ ابھی چند سال خوش نصیب تھا کہ اسکا گوشت اورپٹھے دور سے ’کارآمد ‘کیٹا گری میں نظر آجاتے۔اس طرح وہ بھاؤ تاؤ میں چار سوروپے سے کم پردیہاڑی کیلئے رضامند ناہونے کے باجود منتخب کرلیا جاتا۔ اسکا باپ اوربڑا بھائی بھی تعمیراتی شعبے کے مزدورتھے ۔باپ راج تھا اور عام طور پردونوں بیٹے اسکے ساتھ ہی مزدوری کرتے تھے۔مگر کام نا ہونے کی صورت میں وہ پیڑھی پر جاکھڑا ہوتا۔
اسکو دیہاڑی پر لے جانے والوں کیلئے یہ سودا مہنگا ناہوتا۔ اسکے پٹھوں کی طاقت جانچ لینے والے چارسوروپے کے عوض کچھ زیادہ کام کرانے میں کامیاب ہوہی جاتے۔ اسکو بھی کوئی اعتراض نا ہوتاتھا جب 5بجے کے بعد بھی اس سے کچھ اورکام کرانے کی ”محبت بھری “ گزارش کی جاتی،ایسی ترنم بھری آوازیں آٹھ گھنٹے کے دن کے اختتام پر ہی سنائی دیتیں ورنہ سارا دن،کام چور، نکمے کی گردان سننے کو ملتی ، عام طور پر ”حرام کیوں کھاتے ہو،مزدوری کو تو حلال کرلو“ جیسے کاٹ دار اصلاحی فقرے سننے کو ملتے۔
یہ معمول کی بات تھی۔اس کو کبھی سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ سارا دن سورج کے بالکل بالمقابل کھلے آسمان کے نیچے،شدید گرمی اورجھلستے ہوئی ہواؤں میں ‘یاپھر سردیوں کی خون منجمد کردینے والی ٹھنڈ میں کام کرنے کے باوجود بھی ’حرام ‘کی کمائی کیسے حاصل کرتا ہے۔ وہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ حلال کی کمائی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟جو اتنی مشقت اور وقت سے بھی زیادہ کام کرنے کے باوجود حاصل نہیں ہوتی ۔
وہ زیادہ نہیں سوچ سکتا تھا ،ایسا کرنے سے اسکا سرچکرانے لگتا تھا،پھر وہ سوچ کر وقت برباد نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسکو گھر جاکر کام کرنے ہوتے تھے۔ سولہ سالہ نوجوان یامین‘ جسکو کسی ہائی سکول میں میٹرک کاطالب علم ہونا تھا‘ جو پڑھائی کے بعد شام کو کسی کھیل کے میدان میں ہاکی،فٹ بال کھیلتا۔دوستوں سے گپ شپ لگاتا، کرونا وباء کے دنوں میں گھر میں ٹی وی پر اپنی پسند کے پروگرام دیکھتا، اچھل کود کرتا،بہن بھائیوں سے کھیلتا،لڑتا،چیختا،چلاتا۔
مگر یہ عیاشیاں اسکو میسر نہیں تھیں۔ایسا تب ہوتا اگراسکے گھر میں غربت کا پڑاؤ ناہوتا۔یہ غربت کاعفریت بچپن سے ہی اس سے زندگی کاخراج وصول کرتا آیا تھا۔ وہ اب اوپر کی طرف نہیں دیکھا کرتاتھا ،وہ بس سامنے ہی دیکھتا تھا اور سامنے کچھ واضع نا تھا، یہ سامنے والا دھندلا منظرہی اسکا مقدرتھا۔اسکا باپ بھی بچپن سے مزدوری کرتا چلاآیا تھا اوراب وہ اور اسکا بھائی محنت کی منڈی میں روز خود کو بیچنے پہنچ جاتے۔
آج بھی وہ تینوں باپ بیٹے معمول کے مطابق گھر سے مزدوری کرنے نکلے تھے ۔جس مکان کی تعمیر ہورہی تھی اسکا کام چھتوں تک پہنچ گیا تھا۔چھت پر سامان پہنچانے کیلئے کسی لفٹ کا انتطام نہیں تھا۔ چست ،تیز اور طاقت ور ہونے کی بنا پر چھت پر سامان پہنچانے کی ذمہ داری اسی کی تھی۔ یہ سارا معمول کا کام ہوا کرتا تھا ۔۔۔ یامین جب صبح مزدوری کیلئے جاتا تو اسکو کئی مزدورپیلے رنگ کا ہیلمٹ پہن کر فیکٹریوں کی جانب جاتے نظر آتے۔
پوچھنے پر ساتھ والی بستی کے ایک مزدور نے اسے بتایا تھا کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے پکے مزدوروں کو یہ ہیلمٹ دیے جاتے ہیں کہ اوپر سے کوئی چیز گرے توسرپر چوٹ نالگے۔اس نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ جب کہیں شٹرنگ ہوتی ہے تو مزدوروں کوحفاظتی بیلٹ دیئے جاتے ہیں اورسارا سامان لفٹوں کے ذریعے اوپر منتقل کیا جاتا ہے۔ اس نے کئی دفعہ کوشش کی کہ کسی فیکٹری میں اسکو مزدوری مل جائے مگر آجکل کرونا وباء کی وجہ سے فیکٹریوں میں‘ باہر سے مزدوروں کو جانے کی اجازت نا تھی۔
وہ اس وباء کے خاتمے کا انتظار کررہا تھا تاکہ پیلا ہیلمٹ پہن کرمزدوری کرسکے۔پیلاہیلمٹ،سیفٹی بیلٹ ،فیکٹری میں داخلے کا کارڈ اور چوٹ لگنے کی صورت میں مرحم پٹی والا باکس، یہ چیزیں اسکے شعورپر ان کھلونوں کا متبادل بن کر چھائی رہتیں جو وہ بچپن میں لینا چاہتا تھا مگر لے نا سکا تھا۔ وہ اسکا بھائی اور والد آٹھ بجے کام پر پہنچ چکے تھے ،یہ چھوٹا تعمیراتی کام تھا جو اسکے والد کی زیر نگرانی ہورہا تھا۔
چھت مکمل ہونے کے بعد اب چھت کے اوپر والی سطح پر سیمنٹ گراؤنڈنگ کا کام ہورہا تھا۔یہ کام زمین سے اٹھارہ فٹ بلندی پر ہورہا تھا۔چھت کی دیواروں پر کسی قسم کی رکاوٹ نہیں تھی۔اسکا والد خود گرمالے سے سیمنٹ ڈال رہا تھااور اسکے ہاتھ میں جوٹ کی بوری تھی جس سے وہ چھت کے فرش کو ہموار کئے جارہا تھا۔ وہ پوری دلجمعی سے کام کررہاتھا۔کام جب چھت کے اس سرے تک پہنچا جس کے بعد کوئی اورملحق چھت نہیں تھی بلکہ نیچے اٹھارہ فٹ گہرائی پر سڑک نما راستہ تھا۔
یامین کے باپ نے تگاری سے مسالہ انڈھیلتے ہوئے کہا ’یامین‘ اوپر کام ختم ہورہا ہے اس تگاری کو بڑی احتیاط سے ہموار کرو پھر ہم نیچے چل کر کام کرتے ہیں۔یامین کا باپ دوسری طرف منہ کرکے مسالے کر گرمالے سے سیدھا کرنے لگا۔کوئی 30سیکنڈز کے بعد اسکے باپ نے گرمالہ گھماتے منہ ادھر کیا جہاں یامین تھا،تواسکا سرگھوم گیا۔ وہاں یامین تھا ہی نہیں اور صرف بوری پڑی تھی۔
اس نے بدحواسی میں آگے بڑھ کر چھت کے سرے پر جاکرنیچے دیکھا تویامین کا جسم وہاں پڑا تھا،کسی حرکت کے بغیر بالکل ساکت۔ باپ نے غیرارادی طورپر نیچے چھلانگ لگادی،کئی منٹوں تک وہ اپنے بیٹے کے جسم کے پاس پڑارہا وہ اٹھ نہیں پارہا تھا۔اسی اثناء میں محلے کے لوگ بھی جمع ہوگئے،یامین کے باپ کواٹھایا گیا جس کومعمولی چوٹیں لگی تھی ۔مگراسکا سب سے بڑا نقصان ہوچکا تھا۔
یامین کا زندہ جسم مردہ گوشت کے لوتھڑے میں بدل چکا تھا۔یامین کا سفر تمام ہوا،مرنے سے قبل وہ نا جان سکا کہ فیکٹریوں میں حفاظتی طریقے کیوں اپنائے جاتے ہیں اور تعمیراتی شعبے میں انکو کیوں نہیں اختیارکیا جاتا۔ اسکی سیفٹی بیلٹ اور سیفٹی ہیلمٹ کے کھلونوں سے دل بہلانے کی حسرت پورے ہوئے بنا ہی تمام ہوگئی۔اک ہجوم تھا جو وہاں جمع ہوگیا تھا۔یامین کے گرد کھڑے انبوہ کی آنکھوں کی انگلیاں‘ اسکے چھریرے بدن اوربازوں سے ابھرے ‘پٹھوں میں پیوست ہورہی تھیں،مگرآج پہلا موقع تھاکہ یہ آنکھوں کی انگلیاں اسے چُب نہیں رہیں تھیں۔سولہ سالہ یامین جوانی گزارے بغیر مرچکا تھا ،”مالکان “کے اس فلسفے کو جانے بغیر کہ اسکی مشقت آمیز اورجان لیوا مزدوری ’حرام تھی کہ حلال‘۔

Browse More Urdu Literature Articles