Zindagi Baraye Gham Bardari - Article No. 2378

Zindagi Baraye Gham Bardari

زندگی برائے غم برداری - تحریر نمبر 2378

مزمل ایک اکیرے جسم کا خوبصورت جوان تھا. اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی لگن بچپن سے ھی سوار تھی. پہلے مرحلے میں اس نے میٹرک پاس کر لیا تھا. والد کی انکم بہت قلیل تھی اور مہینہ کے آخری دن ادھار پر چلتے تھے

Arif Chishti عارف چشتی بدھ 24 جون 2020

مزمل ایک اکیرے جسم کا خوبصورت جوان تھا. اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی لگن بچپن سے ھی سوار تھی. پہلے مرحلے میں اس نے میٹرک پاس کر لیا تھا. والد کی انکم بہت قلیل تھی اور مہینہ کے آخری دن ادھار پر چلتے تھے. مزمل نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے محلے کے بچے بچیوں کو شام کے وقت ٹیوشن پڑھانا شروع کردی تھی. جس سے اسکی کاپیوں اور کتابوں کا خرچہ نکل آتا تھا.
ایف ایس سی انجینرنگ کرنے کے لیے کالج میں داخلہ آسانی سے مل گیا تھا اور میٹرک میں فرسٹ کلاس گریڈ آنے پر کالج کی فیس آدھی کروا لی تھی. ماموں کی دی ھوئی کھٹارا سائیکل پر کالج آتا جاتا تھا. بس وغیرہ کے کرائے کا خرچہ بھی نہیں پڑتا تھا. محلے کے قریبی گھروں میں وہ کھلے بندوں چلا جاتا. کسی کا خط لکھنے کسی کا پڑھنے اور ایک آدھ ٹیوشن پڑھانے.
اسکی پیاری دادی اماں جس سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا اور اسکے لئے ایک ڈھال بھی تھی. وہ اسے پیار سے سمجھاتی تھی، میرے لال اب تو جوان ھو گیا ھے ھر ایک کے گھر منہہ اٹھا کر نہ چلے جایا کر کیونکہ انکی بچیاں بھی اب جوان ھو رھی ھیں. لیکن لڑکے اور لڑکیاں کے بارے میں فرق اس نے سوچا بھی نہ تھا کیونکہ اسکا مشن تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تھا.
یعنی انجینئر بن کر پاکستان کی خدمت کرنا. لیکن گھر کے مالی حالات کے پیش نظر یہ جوئے شیر لانے کے مترادف تھا. ٹیوشن سے حاصل کردہ پیسوں کو وہ لکڑی سے بنے ڈبے (غلہ) میں ڈال دیا کرتا تھا. والد صاحب اور ماموں اسے دو دو روپے ماھانہ دیتے تھے تاکہ سائیکل کو فٹ رکھ سکے. ایک روپیہ دادی اماں سے مل جاتا تھا یوں اسکی تعلیم کا سفر آگے بڑھ رھا تھا. رات کو وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں کالج کا کام کرتا تھا.
اسکی والدہ ماجدہ محلے کے بچے بچیوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں. ان میں سے ایک کھلنڈری لڑکی جسکا نام شبانہ (شبو) تھا، مزمل جب بھی کالج سے تھکا ھارا آتا وہ اپنا پارہ تکیے پر رکھ کر اسے ٹھنڈا پانی یا چینی کا شربت بنا کر پیش کرتی تھی. مزمل کی والدہ محترمہ اسے ٹوکتی تھی کہ گھر میں دیگر اھل خانہ موجود ھیں تم یہ نہ کیا کرو. وہ پیار سے کہتی کیا یہ نیکی نہیں ھے اور پھر مزمل تو بچپن سے اسکے ساتھ کھیلتا چلا آرھا ھے.
مزمل نے کبھی اسکو سیریس نہیں لیا. اسکا ایک ماموں بھی تعلیمی اخراجات میں معاونت کرتا تھا اسکے پیچھے بھی ایک راز پنہاں تھا. اسی دوران ایک نیا موڑ اسکی زندگی آیا اسکے ھمسایہ میں انکا ایک عزیز خاندان آ بسا جو ماں، باپ، تین بیٹیوں اور ایک چھوٹے بیٹے پر مشتمل تھا. شام کو وہ مزمل کو ٹیوشن پڑھاتے دیکھتے تو انہوں نے چھوٹے بیٹے کو مزمل کے پاس ٹیوشن کے لئے بھیجنا شروع کر دیا.
گھر کی کرتا دھرتا ماں(ماما) تھی جسکو مزمل آنٹی کہتا تھا وہ گاھے بہ گاھے مزمل سے بازار سے سودا سلف بھی منگوالیا کرتی تھی. وہ خاندان فلمیں دیکھنے کا بہت رسیا تھا جو نئی فلم ریلیز ھوتی تھی وہ پہلے ھی ھفتے دیکھ لیا کرتے تھے. آنٹی کبھی مزمل کو ساتھ لے جاتی. لیکن مزمل بہت احتیاط اور والد کی نظروں سے چوری فلم دیکھنے چلا جاتا تھا. کیونکہ اسکا والد فلم بینی کا سخت مخالف تھا اور ایک دو دفعہ فلم دیکھنے پر مزمل کی پٹائی بھی ھو چکی تھی.
آنٹی کی بڑی بیٹی جولی بہت متکبر تھی اور اونچے خواب دیکھتی تھی. اب شروع ھوتا ھے ایک دور رس دور، جولی سکول سے آرھی تھی. گلی میں ایک دو مکینوں نے بھینسیں پالی ھوئی تھیں جولی نے ھاتھ کے اشارے سے ایک کو چھیڑ دیا اس نے سینگ گھما دیا لیکن خوش قسمتی سے جولی بچ گئی. مزمل یہ منظر دیکھ رھا تھا اس نے بے ساختہ کہہ دیا خواہ مخواہ پنگا نہیں لینا چاھیے ھڈیاں ٹوٹ جائیں گی.
جولی نے تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ھوئے ردعمل کے طور پر مزمل کو شٹ اپ کہہ دیا. بس مزمل کے دل میں اسکی بدتمیزی والی حرکت گھر کر گئی اور جولی اسکے دل و دماغ میں اتر گئی. مزمل نے آنٹی سے جولی کی بد تمیزی کا ذکر نہ کیا. اب وہ جب بھی جولی کو دیکھتا تو اسکے دل و دماغ میں کچھ کچھ ھونے لگتا. دراصل اسے جولی سے محبت ھو گئی تھی. لیکن اس میں جرآت نہ تھی کہ اسکا اظہار کر سکے.
اسکا چھوٹا بھائی مزمل سے باقاعدہ ٹیوشن پڑھتا رھا اور جولی اسکی وساطت سے مزمل سے رسالے، ڈائجسٹ یا عمران سیریز کی جاسوسی ناول منگوا لیا کرتی تھی. اب اعلیٰ تعلیم کے ساتھ جولی کا حصول بھی اسکی زندگی کا مشن بن چکا تھا. جولی جب صبح سکول جاتی مزمل بڑی ٹیپ ٹاپ سے تیار ھو کر اسکا پیچھا کرتا اسکو ظاھر کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ اس میں دلچسپی لے رھا.
ابھی تک جولی نے اپنی ماما آنٹی سے کوئی شکایت نہ کی تھی کہ مزمل روز سکول جاتے وقت اسکا پیچھا کرتا ھے. مزمل حسب معمول آنٹی کے کام کر دیتا تھا اور جب بھی فلم دیکھنا کا کہتی وہ ساتھ دیتا تھا لیکن جولی کا رویہ مزمل کے ساتھ بگڑتا جا رھا وہ ذھنی طور پر مزمل کو کمتر سمجھتی تھی اور دلی طور پر نفرت کرتی تھی، لیکن ماما سے شکایت نہیں کرتی تھی کہ مزمل اسکا سکول جاتے پیچھا کرتا ھے.
ایک دن آنٹی نے کسی کام کے لیے مزمل کو گھر بلا لیا تو جولی نے وقت مناسب سمجھتے ھوئے مزمل سے کہہ دیا کہ وہ غلط لڑکی نہیں ھے اسلئے اسکا پیچھا دو اور میں تم جیسے غریب شخص کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی. حالانکہ ھمارا گھرانہ ان سے بہتر تھا. جولی کی خالہ جسکا مزمل کے گھر بہت آنا جانا تھا جولی کو سمجھایا کہ یہ محلے کا معتبر گھرانہ ھے مزمل کو غلط نہ سمجھو.
بد قسمتی یہ ھوئی کہ مزمل نے اپنے ایک لنگوٹیے کو اعتماد میں لیکر اپنے ڈرائینگ روم میں جولی سے محبت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا. بالکل ساتھ والی ھمسائی لڑکیوں نے یہ باتیں سن لیں اور جولی کی ماما آنٹی کو نفرت انگیز انداز میں بھڑکانا شروع کر دیا کہ مزمل کا خاندان اچھا نہیں ھے جولی کی شادی جب بھی کرنا ھوگی انکے بھائی افتخار سے کرے جولی عیش کرے گی.
آنٹی کے علم میں یہ باتیں منفی انداز میں ڈالی جا رھی تھی. خیر مزمل نے دوسری منزل یعنی ایف ایس سی اچھے نمبروں پاس کر لی. آنٹی نے خوشی میں دو تین گھروں میں مٹھائی بھی تقسیم کی تھی کیونکہ وہ مزمل کےاخلاق کو انتہائی پسند کرتی تھی. جولی نے کسی قسم کا ردعمل ظاھر نہ کیا اور مٹھائی کھا لی. اچانک مزمل پر بجلی آن گری جولی کے والد کا فوری تبادلہ اسلام آباد ھو گیا.
مزمل نے اپنے لنگوٹیے دوست کر رو کر مطلع کیا کہ اسکی دنیا لٹ گئی، جولی اسلام آباد جا رھی ھے. مزمل اور اسکا دوست انکو الوداع کہنے اسٹیشن گئے لیکن آنٹی یا جولی سے کوئی دل کی بات کہنے کی جرآت نہ ھو رھی تھی. مزمل بس ریل کی بوگی کی کھڑکی جہاں جولی بیٹھی تھی کو دیکھ دیکھ کر رو رھا تھا. آخر آنٹی مزمل کے پاس آئی اور حوصلہ دیتے ھوئے کہا کہ انکے لئے اسٹیشن کی کینٹین سے کھانا لا دے.
اس کا دوست بھاگ کر کھانا لایا انکو دیا اور گارڈ نے گاڑی چلنے کی وسل دے دی. گھر واپسی ھوئی تو مزمل کے والد محترم منتظر تھے. کافی سرزنش کی کہ غلط کاموں سے باز آجائو. عشق وشق کو مارو گولی. عشق جولی مزمل کو اندر ھی اندر کھانے لگا. اس نے ٹھان لی کہ وہ اسلام آباد ضرور جائے گا خواہ اسے کوئی قتل کر دے. دو مہینہ بعد جولی کی خالہ ملنے آئی اور مزمل سے کہا کہ پانچ سیر دیسی گھی اپنے بھائی جو اسلام آباد رھتا تھا کو پہچانا ھے وھیں آنٹی اور جولی سے بھی ملاقات ھو جائے گی.
مزمل کا ایک عزیز اسلام آباد رھتا تھا. اس نے والد صاحب سے اجازت لیکر بہانہ گھڑ کر اسلام آباد رخت سفر کیا. دوست کو اعتماد میں لیکر انکے گھر پہنچے اور جولی کے ماموں سے ملاقات ھوئی دیسی گھی کی برنی انکے حوالے کی اور آنٹی سے ملنے کا کہا. انہوں نے جواب کہ دو دن پہلے وہ تو ملتان چلے گئے ھیں کیونکہ جولی کے والد کا تبادلہ وھاں ھو گیا ھے. ایک اور بجلی مزمل پر گری لیکن وہ ملتان تو نہیں جا سکتا تھا.
خیر دل گرفتہ واپس گھر آ گیا. اب اسکے پاس جولی کی محبت اور یادوں کے علاوہ کچھ نہ تھا. کپڑوں، کتابوں، بازووں پر جولی کا نام لکھ کر دل کو تسلی دیتا تھا. ایم ایس سی انجینرنگ میں اسکا داخلہ میرٹ پر ھو گیا اور وہ دن رات پڑھائی میں جت گیا. دوستوں کا گروپ اچھا مل گیا. پڑھائی کے علاوہ وہ انکے ھمراہ کبھی کبھی فلمیں دیکھنے چلا جاتا. لیکن درد بھرے گیت اسکی زندگی کا حصہ بن گئے.
ایک دن حسب معمول وہ کالج سے لوٹا تو شبانہ (شبو) نے ڈرائینگ روم آکر اس سے محبت کا اظہار کر دیا وہ یکدم ورطہ حیرت میں پڑ گیا اور اسکو ٹال دیا کہ ابھی اس نے کافی تعلیم حاصل کرنی ھے. ایسی باتوں کی ضرورت نہیں. خیر شبو مزمل سے دلی محبت کرتی تھی اور برملا کہتی تھی کہ وہ کوئی گناہ نہیں کر رھی. ایم ایس سی کلاسیں جاری تھیں اور مزمل انہماک سے اپنی تعلیم جاری رکھے ھوا تھا کہ تعلیم مکمل کرکے وہ کوئی اعلیٰ نوکری حاصل کرکے جولی کی سوچ کے مطابق ثابت کرے گا کہ وہ اسکے قابل ھے.
ایک دن مزمل شام کو گھر کے باھر کرسی پر اکیلا بیٹھا ھوا تھا کہ جولی کا ماموں جن سے اسلام آباد ملاقات ھوئی تھی مزمل کے پاس آکر دھمکی آمیز انداز میں گالیاں دینا شروع کر دیں. مزمل نے کوئی ردعمل ظاھر نہیں تاکہ آنٹی اور جولی کی رسوائی نہ ھو کیونکہ لوگ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ھیں. لیکن مزمل دلی طور پر ھر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کا عہد کر چکا تھا.
اسی دوران ایک سال بیت گیا صرف جولی کی خالہ سے معلوم ھو جاتا تھا کہ محبت کی داستان انکے ننھیال میں پھیل چکی تھی آدھے حق میں تھے آدھے مخالفت کر رھے تھے. دوسال گزر گئے اسی طرح مزمل باھر اپنے دوست کے ھمراہ بیٹھا تھا کہ دور گلی سے دو خواتین کی آمد ھوئی. قریب آنے پر معلوم ھوا کہ آنٹی اور جولی ھیں. مزمل تو خوشی سے پاگل ھو گیا کہ اسکی محبت سچی ھے.
وہ جولی کو پالے گا. جب وہ پاس سے گزریں تو مزمل نے سلام کیا صرف آنٹی نے تھڑ دلی سے جواب دیا. پتا چلا کہ جولی کے والد کا واپس لاھور تبادلہ ھوگیا ھے اور انہوں نے ساتھ والے محلے میں گھر کرایہ پر لے لیا. مزمل کیونکہ اپنی منزل کے قریب پہنچ گیا تھا اس لیے وہ جولی کے دیدار کی خاطر کبھی کبھی اسکے کالج کے باھر کھڑا ھو جاتا اور کچھ کہے بغیر واپس آجاتا.
جولی نے اپنی ماما کو بھڑکانہ شروع کردیا. آنٹی نے ایک دن محلے کے اوباش غنڈوں کے ذریعے گھر بلوا کر مزمل کو خوب پٹوایا اور اسکا سر بھی پھاڑ دیا. نوبت تھانے تک جاتی لیکن مزمل نے منع کردیا. مزمل کے والد اور آنٹی میں منہ ماری ھوئی اور عندیہ دیا ہے کہ سوال ھی پیدا نہیں ہوتا کہ رشتہ ھو. مزمل کے والد نے آنٹی کو کافی لعن طعن کی کہ کسی قسم کا رشتہ نہیں ھوگا.
ادھر شبو کو معلوم ھوا کہ مزمل کو جولی نے پٹوایا ھے. بس کیا تھا اس نے جولی جب اپنے ماموں سے ملنے آئی خوب پٹائی کی. مزمل کے والد نے مزمل کو دھمکیاں دینی شروع کردیں کہ تمہیں جائیداد سے عاق کردوں گا اور گھر سے نکال دوں گا اس لڑکی کو بھول جائو. میں جولی سے بااخلاق طور سے ارینج میرج کرنا چاھتا لیکن سب کچھ بگڑ گیا آنٹی اب بھی پر امید تھی کہ اب یہ بات پھیل چکی ھے اسلئے شادی ھی بہترین حل ھے.
مزمل کے والد نے اسکے دوستوں اور محلے کے کچھ شناساوں کی ڈیوٹی لگا تھی کہ اگر یہ جولی کا پیچھا کرے تو انہیں فوری مطلع کریں. جولی سے محبت کے چرچوں کی رسوائی کی وجہ اور پھر اب اعلیٰ تعلیم یافتہ ھونے کی سے مزمل مرجا گیا تھا. اس نے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرلی اور ایک انجینرنگ کمپنی میں ملازمت کر لی. اسکی تنخواہ معقول تھی. وہ اپنے ضمیر کا قیدی بن چکا اور مفادپرست، خود غرض، بے حس سماج سے ٹکر کے قابل نہ تھا.
لیکن جولی اسکے رگ و پیماں کا حصہ بن چکی تھی. اسے یقین تھا کہ جولی کی ماما جو مزمل کو اچھا سمجھتی تھی کسی دن اس سے رشتہ کے سلسلہ میں کنفرم کرے گی. چھٹی کا دن تھا مزمل دوستوں کے ھمراہ کیرم بورڈ کھیل رھا تھا کہ بری اطلاع ملی کہ جولی کی ماما آنٹی بس کے حادثہ میں اللہ تعالیٰ کو پیاری ھو گئیں ھیں. مزمل نے اپنے والد کے پاوں پکڑ کر اجازت لی.
جولی کے بھائی کے گلے لگ کر بہت رویا. مزمل نے بہت دلاسا دیا. رونے دھونے کی آواز سے عرش بھی ھل گیا ھوگا. مزمل نے مرحومہ آنٹی کے پاوں پکڑ کر جی بھر کے رو رو کر معافیاں مانگیں. شاید اسنے اپنی سگی ماں کے مرنے پر ایسا نہ کیا ھو. جولی بین ڈال ڈال کر کہہ رھی مزمل سب کچھ ختم ھوگیا. آنٹی کی تدفین ھو گئی. مزمل نے رو رو برا حال کر لیا. اپنا آخری فیصلہ کر لیا کہ وہ یہ شہر ھمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا جائے گا.
جولی بمعہ خاندان کسی اور علاقے میں شفٹ ھو گئی . مزمل واقعی یہ شہر چھوڑ کر ھمیشہ کے لئے چلا گیا. اور بہت بڑی ملز میں انجینئر کے اعلٰی عہدے پر فائز ھوگیا. وہ جب کبھی والدین سے ملنے آتا تو جولی کی آنٹی سے اسکے بارے میں علم ھو جاتا. دو دفعہ اسکی منگنی ٹوٹی ایک دفعہ اسکی شادی سے پہلے کسی نے سارا جہیز چلا دیا. بہنوں اور بھائی کو لکھایا پڑھایا پھر انکی شادیاں کیں.
مزمل کی شادی اسکے ماموں کی بیٹی کے ساتھ ھوگئی. اسی دوران جولی کے ماموں اور خالہ کا انتقال ھو گیا. ترسیل سلسلہ بند ھو گیا. انکے دیگر خاندان کے افراد بیرون ملک شفٹ ھو گئے. مزمل ریٹائرڈ ھو کر بچوں کی شادیوں سے بھی ھوگیا. لیکن پچاس سال گزرنے کے بعد بھی جولی اور اسکے خاندان کا معلوم نہیں ھو سکا وہ کہاں اور کدھر چلے گئے. مزمل بس یہ ھی کہتا رھا غم اٹھانے کے لیے میں تو جیے جائوں گا�

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles