Aap Beeti - Article No. 2544

Aap Beeti

آپ بیتی - تحریر نمبر 2544

ایک مریض کی روداد

پیر 24 مئی 2021

یہ بہت پرانا واقعہ ہے۔ایک دن دفتر سے چھٹی ہونے کے بعد قصہ خوانی بازار سے ہوتا ہوا میں چوک یادگار آیا۔وہاں چائے کی ایک دکان کے سامنے بچھی ہوئی چارپائی پر اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھ گیا اور چائے کے لئے آرڈر دے دیا۔چائے پینے کے بعد دوست رخصت ہوا تو میرے زبان کے دائیں جانب کچھ سوزش محسوس ہوئی۔جب میں نے حجام کی دکان میں آئینے میں اپنی زبان دیکھ لی تو اس پر چائے کی تہ جمی ہوئی تھی اور رنگ بھی بدلا ہوا تھا۔
مجھے اپنی زبان کچھ موٹی سی نظر آنے لگی۔
میں نزدیک ہی ایک ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں داخل ہوا اور انھیں یہ کیفیت بیان کی۔ڈاکٹر صاحب میری زبان دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ میرا کام نہیں ہے،آپ کسی سرجن کے پاس چلے جائیں۔میں خود تو سرجن کے پاس جانے کی وجہ دریافت نہ کر سکا،البتہ کلینک میں موجود ایک دوسرے صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے وجہ معلوم کی تو وہ کہنے لگے کہ ان کو زبان کا سرطان ہو گیا ہے اور اس کا آپریشن کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)


سرطان اور آپریشن کا نام سنتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔میں نہایت غم زدہ اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ کلینک سے باہر آیا۔بازار کلاں میں ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب کے پاس چلا گیا اور ان کو بھی زبان کی حالت بیان کی اور چوک یادگار کے ڈاکٹر صاحب کے خیال یا تشخیص سے ان کو اطلاع دی۔انھوں نے بھی مجھے کوئی دوا نہیں دی۔
ہاں ایک پرچی بنا کر دے دی اور سوئیکارنو چوک میں کام کرنے والے ایک سرجن کے پاس مجھے بھیج دیا۔
شام کے ساڑھے سات بجے کا وقت تھا،جب میں یہاں آیا تو لوگوں کا ایک جم غفیر کلینک میں ڈاکٹر صاحب کے اردگرد موجود تھا۔میں نے کمپاؤنڈر (پرچی بنانے والے) سے بات کی تو اُس نے کہا رش زیادہ ہے،اگر کہو تو آپ کو چوالیس نمبر دے دوں۔میں نے دل میں سوچا کہ اس طرح تو میری باری رات کے دس یا ساڑھے دس بجے کے قریب آئے گی۔
ادھر میں نے گھر میں اطلاع نہیں دی تھی کہ میں دیر سے گھر آؤں گا یا یہ کہ مجھے اس قسم کی تکلیف ہے یا میں فلاں ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہوں گا وغیرہ۔
ادھر میری زبان کی سوزش میں کوئی کمی نہیں ہو رہی تھی،بلکہ تکلیف بدستور تھی اور میری خواہش تھی کہ سرجن صاحب سے مل کر اپنی تکلیف بیان کروں،مگر چوالیس نمبر کا خیال آتے ہی رات کو گھر نہایت دیر سے جانے کا وسواس بھی بڑھ رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی کلینک سے چند قدم کے فاصلے پر میرے ایک دوست کی دکان تھی”زیب الیکٹرونکس“ میں وہاں چلا گیا اور اپنے دوست سے اپنی تکلیف بیان کی اور عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے پڑوسی ہیں،اس لئے آپ مجھے اپنے ساتھ لے جا کر ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف بھی کرا دیں اور میری تکلیف بھی بیان کر دیں،تاکہ وہ کامل اور پوری توجہ سے تشخیص کرکے مناسب علاج تجویز کریں۔

میرے دوست نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔میں ابھی آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا اور اس تکلیف سے بھی ان کو آگاہ کروں گا،مگر ایک بات ہے اور وہ یہ کہ وہ آپ کو صرف ڈسپرین پر ٹرخا دیں گے۔وہ اس لئے کہ کل میں اپنے ایک دوسرے دوست کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے میری خاطر اس سے فیس نہیں لی،مگر ان کو ڈسپرین پر ٹرخا دیا،حالانکہ ان کی بیماری بھی توجہ طلب تھی۔

میں اور میرا دوست جو یہ باتیں کر رہے تھے،اُس وقت ”زیب الیکٹرونکس“ کی دکان میں موجود ایک دوسرے صاحب نے مشورہ دیا کہ میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سرجن کے پاس چلا جاؤں،جو اس وقت اپنے گھر پر ہوں گے اور یہ کہ وہ بہت مخلص اور ہمدرد قسم کے انسان ہیں۔یہاں سے میں سیدھا اس سرجن صاحب کے ہاں چلا گیا۔وہ ڈرائنگ روم میں اپنے چند دوستوں یا مریضوں (میں پہچان نہ سکا) کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔
میں نے اُن سے اپنی تکلیف بیان کی۔ڈاکٹر صاحب نے زبان دکھانے کو کہا،اس وقت میرے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ایک میز حائل تھی۔وہ تھوڑا سا اُوپر اٹھنے کے بعد میری زبان دیکھنے لگے۔پھر انھوں نے میرے لئے نسخہ لکھا۔نسخہ میرے ہاتھ میں تھمانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں دس دن بعد اُن سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ملوں۔مذکورہ بالا دوا کھا کے میں دس دن کے بعد ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب سے ملا۔
اُنھوں نے میری زبان کا ملاحظہ کرنے کے بعد کہا کہ روپے میں ایک آنے کا فائدہ ہوا ہے۔ساتھ ہی مندرجہ بالا نسخے میں کچھ تبدیلی کی اور میرے حوالے کر دیا۔تین چار دن تک دوا کھانے کے بعد میں گھر پر تھا اور ساڑھے چار بجے کے قریب چائے پی رہا تھا کہ میرے ہونٹوں میں بھی سوزش شروع ہو گئی۔میں کچھ بدحواس سا ہونے لگا اور پھر اسی ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچا اور ہونٹوں کی سوزش کی شکایت کی۔
اس دفعہ انھوں نے ہونٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد ایک دوسری اینٹی بائیوٹک دوا تجویز کی۔مجھے ہدایت دی گئی کہ میں یہ دوا بھی دس دن تک کھاؤں۔
دس دن تک مزید اینٹی بائیوٹک گولیاں کھائی گئیں۔پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر میں نے حال احوال سنایا۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں چوک یادگار اور بازار کلاں والے ڈاکٹروں کی رائے سے متفق نہیں ہوں۔جہاں تک ان کا خیال ہے میرا کوئی دانت نوک دار ہو گیا ہے اور کھانا کھاتے وقت وہ زبان سے لگ جاتا ہے،جس کی وجہ سے زبان زخمی ہو گئی ہے اور زخم ہونے کی وجہ سے سوج گئی ہے۔
یہ سوزش اور جلن غالباً اسی دانت کے طفیل ہے،اس لئے آپ جا کر ڈینٹل سرجن سے اپنے دانتوں کا معائنہ کرا لیں اور پھر مجھے نتیجے سے آگاہ کریں۔
یہاں سے فارغ ہو کر میں خیبر بازار میں ایک ڈینٹل سرجن کے پاس گیا،انھوں نے میرے دانتوں کا معائنہ کیا اور کہا کہ میرے دانتوں میں کوئی دانت نوک دار نہیں ہے،سب ٹھیک ہیں۔
دینٹل سرجن کی رپورٹ لے کر میں اپنے معالج (سرجن صاحب) کے پاس گیا اور انھیں ملاحظہ کرایا۔
سرجن صاحب فرمانے لگے کہ خیبر بازار کے ڈینٹل سرجن کے پاس نہ جاتے۔میں نے دریافت کیا کہ پھر کس کے پاس جاتا تو کہنے لگے کہ میڈیکل کالج کے پروفیسر صاحب کے پاس جاتے۔
اس دفعہ انھوں نے ایک دوسری دوا تجویز کی۔وہ تو میں صرف دو دن کھانے کے بعد پھینکنے لگا۔ (نجانے میرے دل میں کیا بات آئی تھی)۔
مقررہ ایام گزر جانے کے بعد میں مجبوراً پھر اپنے معالج کے پاس چلا گیا۔
اب کی دفعہ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور اینٹی بائیوٹک دوا تجویز کی اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں میڈیکل کالج کے پروفیسر صاحب سے مل کر اپنے دانت ملاحظہ کرا لوں۔
اور پھر میں پروفیسر صاحب کے پاس چلا گیا۔میں نے ان سے عرض کی کہ مجھے جناب سرجن صاحب نے آپ کے پاس دانتوں کے معائنے کے واسطے بھجوایا ہے۔آپ ازراہ کرم میرے دانت ملاحظہ کر لیں کہ ان میں کون سا دانت خراب یا نکالنے کے قابل ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے کچھ اوزار جو چمچہ نما قسم کے تھے میرے دانتوں کے اردگرد پھرائے اور کہنے لگے کہ سارے دانت خراب ہیں اور تمام نکالنے پڑیں گے،لیکن میں تمام دانت نکالنے پر راضی نہ ہوا اور کلینک سے باہر آگیا۔
چھے سات دن کے بعد میں پھر سرجن صاحب کے پاس چلا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں حیاتین والی گولیوں،یعنی سربیکس ٹی (Surbex-T) کا کھانا جاری رکھوں۔
اس ہدایت کی روشنی میں،میں سربیکس ٹی کھانے لگا۔
اسی دوران میری ملاقات اپنے ایک دوست سے ہو گئی۔ان کو میں نے اب تک کیے گئے علاج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ میں’ارنم‘ (Institute Of Radiotherapy And Nuclear Medicines) کے ڈائریکٹر کے پاس چلا جاؤں۔
دوسرے دن میں ارنم ہسپتال کے ڈائریکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو اپنی تمام روداد سنا دی تو وہ کہنے لگے کہ آپ سرجن کے پاس جا کر اپنی زبان کا حیوی معائنہ (Biopsy) کرا لیں۔
پھر فلاں لیبارٹری سے رپورٹ حاصل کرکے مجھے ملاحظہ کرا لیں تو تشخیص میں آسانی ہو جائے گی۔
یہاں سے فارغ ہو کر جب میں گھر واپس آرہا تھا تو راستے میں مجھے ایک اور صاحب ملے۔یہ صاحب طب کے فن سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ خواہ مخواہ اپنی زبان کا حیوی معائنہ نہ کرائیں،ورنہ مفت کی مصیبت گلے پڑ جائے گی اور پھر واقعی میں اس آخر الذکر سرجن صاحب کے پاس نہیں گیا اور اسی طرح لیبارٹری کی رپورٹ بھی حاصل نہیں کی۔
اس کے بعد میں نے اپنی زندگی اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دی۔
جس کے بعد تین چار مہینوں تک میں کسی بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس نہیں گیا۔زبان کی حالت بتدریج درست ہو رہی تھی۔
مگر ایک دن اُن پرانے واقف حال لوگوں میں سے ایک دوست نے کہا کہ غالباً آپ کے بدن میں کسی حیاتین کی کمی ہے،اگر آپ اس حیاتین کے ٹیکے لگوا لیں تو امید ہے آپ کی بیماری جاتی رہے گی۔

اس خیال سے متفق ہو کر میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال گیا۔وہاں او۔پی۔ڈی میں پرچی بنوائی اور E.N.T کے ماہر پاس چلا گیا۔جب ان کو ساری رام کہانی سنا دی تو وہ بالکل گم سم بیٹھا رہا اور پرچی پر ایک دوسرے سرجن کو ریفر (Refer ) کیا جنہوں نے مجھے ایک خاص قسم کی دوا کے ٹیکے دس دن تک جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
یہ کورس ختم ہونے کے بعد پریشان ہو کر میں نے آئندہ کے لئے تمام دوائی،گولیاں اور ٹیکے وغیرہ ترک کر دیے۔
اب میری زبان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔میں اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر گزار ہوں۔

Browse More Urdu Literature Articles