Rakht E Safar - Qist 5 - Article No. 2435

Rakht E Safar - Qist 5

رخت سفر۔ قسط نمبر5 - تحریر نمبر 2435

فضل الرحمن حقیقی لنگوٹیا تھا. سب راز و نیاز کی باتیں ھوتی رھتی تھیں، لیکن وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کا اکلوتا بچہ ھونے کے باوجود تعلیم میں بالکل توجہ نہ دیتا تھا

Arif Chishti عارف چشتی بدھ 23 ستمبر 2020

فضل الرحمن حقیقی لنگوٹیا تھا. سب راز و نیاز کی باتیں ھوتی رھتی تھیں، لیکن وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کا اکلوتا بچہ ھونے کے باوجود تعلیم میں بالکل توجہ نہ دیتا تھا. ویسے تو ھم دونوں اکٹھے ھی نمازیں ادا کرنے جایا کرتے تھے لیکن امتحانات کے دنوں میں پانچوں نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتے تھے، تاکہ پاس ھو جائیں. فضل الرحمن کے والد نے ریٹائرڈ ھونے کے بعد ایک نائٹ اکیڈمی کھول لی تھی.
وہ اور مبارک شام کو بی. اے کرنے کے لئے پڑھنے جایا کرتے تھے.
کچھ کچھ ھوتا کے سلسلہ میں فضل الرحمن نے تو جونی کا نام لینا چھوڑ دیا تھا. ایک اور محلہ دار اس کا شیدائی ھو گیا تھا، لیکن جونی ان دونوں میں قطعاً دلچسپی نہ لیتی تھی. اسکے کے خواب بہت اونچے تھے کیونکہ ایک بھائی امریکہ اور دوسرا لندن میں رھتا تھا. مجاھد مرزا اپنی کسی دور کے رشتہ لڑکی پر فدا تھا، اور انکی ملاقاتیں بھی ھوتی رھتی تھیں.
دونوں تو راضی تھے، لیکن کچھ پرانے خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے لڑکی کا دادا رضا مند نہ تھا. میری جولی میں دلچسپی کچھ زیادہ ھی ھوتی جا رھی تھی، مگر گھر والے سب سے بڑی رکاوٹ تھے. میں بغاوت تو کر سکتا تھا لیکن والدین کی عزت اور بدنامی سے بچنے کے لئے محتاط تھا. جولی کی والدہ آنٹی کا رویہ بہتر ھی تھا. انکے خاندان میں کچھ ھمارے تعلقات سے خوش تھے، کچھ مخالف.
جولی ابھی تک ذھنی طور بچپن کا شکار تھی، کبھی خوش نظر آتی تھی کبھی منہہ سوجھا ھوتا تھا.
فضل الرحمن کے والد کی نائٹ اکیڈمی کامیاب نہ ھوسکی تھی، اسلئے وہ اپنے چچا کے ھاں ٹنڈو محمد خان سندھ چلا گیا تھا، جو وھاں ایک ھسپتال چلا رھا تھا. اس نے وھاں بطور اسسٹنٹ کام شروع کر دیا تھا. اس کے جانے کے بعد میں بہت غمگین تھا، جیسے جسم کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ھو.
ستم یہ بھی تھا کہ محلہ دار نواز ایم اے اردو کر رھا تھا اور اسکی بہنیں اسکی شادی جولی سے کرنا چاھتی تھیں اور جولی کی والدہ کو میرے خلاف بھڑکاتی رھتی تھیں، لیکن نواز ساتھ والے محلے کی ایک دوشیزہ سے محبت کرتا تھا. لیکن میرا جولی میں دلچسپی لینا اسکو ناگوار گزرتا تھا، وہ پیٹھ پیچھے میری برائیاں کرتا رھتا تھا. بس ایک حریف ھی تھا. پڑھائی کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی میں بھی دلچسپی جاری تھی.
کلاس فیلو پرویز کے رشتہ کا ماموں فلم انڈسٹری سے منسلک تھا. اسکی وساطت سے بچی کھچی فلمی ریلز مل جاتی تھیں اور جی بھر کر فوٹو گرافی ھو رھی تھی. لیکن پرنٹس صرف چند تصاویر کے ھی نکلواتا تھا. فضل الرحمن کے جانے کے بعد گھاس منڈی میں رھائش پزیر ایک نیا دوست حفیظ زندگی میں داخل ھو گیا تھا. اسے بھی فوٹو گرافی کا شوق تھا اور تھوڑا بہت علم بھی رکھتا تھا.
تحمل مزاج اور زیرک شخصیت کا مالک تھا. لیکن اسکے ساتھ دوستی صرف فوٹو گرافی تک ھی محدود تھی. اب تو مجاھد مرزا بھی ھر اتوار میرے ھاں ھی گزارتا تھا. کچھ محلے کی لڑکیاں، ھم میں دلچسپی لیتی تھیں لیکن بس شوقیا. مفت میں کھوئے کی قلفیاں اور آم مل جایا کرتے تھے. ان پر محلے کی دیگر بوڑھی عورتیں اعتراض کرتی تھیں. انکی عزت کی خاطر ھمیں جھوٹ بھی بولنا پڑتا تھا.
ھماری ساکھ محلے داروں میں بہت اچھی اور تعلیم یافتہ چند جوانوں میں ھوتی تھی. حقیقت بھی یہ ھی تھی، کہ ھماری کسی اور لڑکی میں دلچسپی تھی ھی نہیں. بی کام آنرز کا کورس ھی اتنا مشکل تھا، کہ ھمالیہ پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا.
ایک دن حسب خلاف میں ڈرائینگ روم سے باھر کرسی رکھ پر بیٹھا تھا، کہ جولی کے ماموں نے آکر ڈانٹا شروع کر دیا، کہ جولی کا پیچھا چھوڑ دو اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں.
وہ پہلے راولپنڈی میں مقیم تھے، اب لاھور منتقل ھو چکے تھے. میں نے احتراما انکی بات کا برا نہ مانا، بس اتنا کہا کہ میں اس کو چاھتا ھوں. شکر ھے کہ میرے گھر والوں کو اس بات کا علم نہ ھو سکا تھا، ورنہ بات بڑھ جاتی اور جولی کی عزت پر حرف آتا.حسب معمول اس سال بھی سردیوں کی چھٹیوں میں کالج ٹور ٹیم کے ساتھ کراچی جانے کے لئے سیکیورٹی جمع کروا دی تھی.
اس دفعہ مجاھد مرزا بھی رضا مند تھا، اس کی سیکیورٹی کا بھی انتظام ھو چکا تھا. ذھن میں یہ بھی تھا، کہ جتنی تفریح ھو سکتی ھے کر لیں شاید زندگی میں یہ دن دوبارہ نہ آئیں، بعد میں حسرت نہ رھے کہ اجتماعی تفریح نہ کر سکے تھے. 18 دسمبر 1967 کو رات سوا دس بجے کراچی ایکسپریس کے ذریعے روانگی ھوئی تھی. راستہ میں وہ خوش گپیاں اور لطائف کا دور چلا کہ آج تک ذھن میں نقش ھے.
تاش کی بازیاں اور گانا بجانا بھی خوب رھا. فضل الرحمن کو پیشگی مطلع کر دیا تھا، وہ ملنے کے لئے حیدرآباد اسٹیشن آگیا تھا. ھم نے اسے زبردستی گاڑی سوار کر لیا، وہ منتیں کرتا رھا کہ ایک تو اسکے پاس کپڑے نہیں تھے، دوسرے گھر والے اسکی واپسی نہ ھونے کی وجہ سے پریشان ھونگے. کپڑے تو اسکو میرے ھی فٹ بیٹھتے تھے. اس لئے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا.
ٹور شروع ھونے سے ایک ھفتہ پہلے 12 دسمبر 1967 کو میرے نانا جی کا کراچی میں انتقال ھو چکا تھا.
کراچی پہنچ کر مجاھد مرزا اور فضل الرحمن کے ھمراہ پی ای سی ایچ سوسائٹی چلا گیا اور کالج کے دیگر ساتھی حسب سابق طے شدہ پروگرام کے تحت اسلامیہ کالج قیام پزیر ھوئے تھے. سب سے پہلے فضل الرحمن کے چچا کو ٹنڈو محمد خان اسکے چچا کو ٹیلیگرام بھجوایا دیا تھا، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں. نانا جی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور پھر سو گئے تھے.
صبح ناشتہ کے بعد اسلامیہ کالج جاکر پورے ھفتے کا تفریحی پروگرام نوٹ کیا. پھر چھوٹی پھوپھی کے ھاں النور سوسائٹی چلے گئے تھے، جو اپنے ذاتی مکان میں منتقل ھو چکی تھی. علاقہ تو ابھی تو غیر آباد تھا، جیسے ھی ھوا چلتی تھی، ناک منہہ مٹی سے اٹ جاتے تھے. اسی دن ماموں یونس صاحب اور ماموں امداد صاحب سے ملاقات کر لی تھی. سارا دن ان ملاقاتوں میں صرف ھو گیا تھا.
لیکن ملنا بھی ضروری تھا. 21 دسمبر 1967 کیماڑی، منوڑا کی جی بھر کے سیر کی اور ٹرام کے سفر سے بھی لطف اندوز ھوئے تھے. بعد میں صدر کراچی پیدل ھی پھرتے رھے تھے.
23 دسمبر 1967 سارا دن کلفٹن کی سیر اور سمندر کے پانی میں نہاتے گزر گیا. پھر ایکویرئم میں مختلف قسم کی مچھلیاں دیکھ کر محظوظ ھوتے رھے تھے.اگلے روز کالج کی طرف سے کوئی تفریحی پروگرام نہ تھا.
اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق دوپہر کا کھانا پھوپھی کے ھاں کھایا اور رات کا ڈنر ماموں یونس صاحب کی طرف سے صدر کے ایک ھوٹل میں کھایا. کیونکہ مجاھد مرزا اور فضل الرحمن بھی ھمراہ ھی تھے.24 دسمبر 1967 کو بسوں کے ذریعے پہلے ھاکس بے اور بعد میں پیراڈائز پوائنٹ کی خوب سیر کی. اس دفعہ تو سردی کے باوجود خوب نہائے بھی تھے. واپسی پر کافی تھکاوٹ ھو چکی تھی، اسلئے سوسائٹی پہنچتے ھی، رات کا کھانا کھاتے ھی گہری نیند میں چلے گئے تھے.
اگلے دن دوپہر دو بجے تک سوتے رھے تھے. کیونکہ ھمیں ایک الگ ھی کمرہ دیا ھوا تھا. دوپہر کو تیار ھو کر ھم تینوں انگلش فلم "آپریشن کاؤنٹر" دیکھنے چلے گئے تھے. رمضان المبارک شروع ھو چکا تھا، اسلئے اگلے روز افطاری کے بعد کراچی شہر کی سیر شروع کردی. پہلے قائداعظم کے نامکمل مزار پر حاضری دیکر فاتحہ خوانی کی پھر پیدل ھی صدر کا رخ کیا، خوب تفریح ھو رھی تھی.
پھر وھیں سے سوھن حلوہ، مرمرا اور گھاٹیا خریدا. شام ھونے کو حسب پروگرام جیکب لائنز ماموں امداد صاحب کے ھاں افطاری کی اور ساتھ ساتھ انکی منفرد ستائشی گفتکو سے بھی محظوظ ھوتے رھے تھے. ڈنر کا اہتمام ایک عمدہ ھوٹل میں کالج کی طرف سے تھا، بڑا ھی لطف آیا. رات دیر سے سوسائٹی پہنچے اور اپنا سامان پیک کیا کیونکہ اگلے روز روانگی تھی. 27 دسمبر 1967 کو صبح 8 بجے لاھور کے لئے روانگی ھوئی.
خوب خوش گپیاں شروع ھو گئیں. فضل الرحمن کو حیدرآباد اتارا اسکے لیا الگ ٹکٹ لیا گیا تھا، تاکہ حیدر آباد اسٹیشن پر کوئی مسئلہ پیدا نہ ھو. 28 دسمبر 1967 کو بخیریت صبح لاھور پہنچے. یوں یہ ایک یادگار تیسرا کالج کی طرف سے تفریحی دورہ اختتام پذیر ھوا. فضل الرحمن کے والدین نالاں تھے، لیکن جلد ھی غلطی پر معافی مانگ کر معاملہ درگزر کر دیا گیا تھا.
اب پھر پڑھائی زور شور سے جاری کردی تھی.
پرویز جو ھیلی کالج کے ھوسٹل میں رھتا تھا. مجاھد مرزا کے کافی قریب آ چکا تھا. دوستی کافی بڑھ چکی تھی. وہ ھوسٹل سے اسکے ڈرائینگ روم میں منتقل ھو گیا تھا. کبھی کبھی ھم مل کر ایڈوانس اکاؤنٹنٹگ کی لمبی لمبی پروبلمز ایک دوسرے کی رھنمائ میں حل کرتے تھے. کیا عجیب دن تھے. کئی دفعہ رات کو چھت پر ایک بلب کی روشنی میں سر جوڑ جوڑ کر پروبلمز حل کرتے سو جاتے تھے.
بعض اوقات سر کے بال رسی سے باندھ کر نیند کے جھروکوں پر غلبہ پاتے تھے. جب بھی کسی کی آنکھ کھلتی وہ دوسرے کو جھٹکا دیکر جگا دیتا تھا. سچ پوچھیں، سمجھ کچھ کام نہ کرتی تھی کیونکہ نیند کا غلبہ بہت گہرا ھوتا تھا. پھر اسی حالت میں صبح کالج جانا پڑتا تھا. سچ پوچھیں تو کو پڑھائی میں محنت کی معراج کا وقت تھا. جو پھر کبھی نہ آ سکا. اب صرف تخیل ھے، جو کہ ناقابل بیان ھے.
فروری 1968 میں پہلی دفعہ زندگی میں عملی طور پر ھیلی کالج کے دوستوں کے ساتھ بسنت کا تہوار منایا تھا. پتنگوں اور ڈور کا انتظام اعظم نے کیا تھا. ڈھول اور بگل مجاھد مرزا لے آیا تھا اور اسی کے گھر سارا دن پتنگ بازی ھوتی رھی تھی. ھم میں سے کوئی بھی پتنگ بازی کا ماھر تو نہ تھا. بس شغل بازی میں ھی پیچ لڑاتے رھے تھے یا پھر پیچھے سے کٹ کر آئ پتنگوں کو لوٹ رھے تھے.

عام زندگی میں انسان کا واسطہ بھانت بھانت کے لوگوں سے پڑتا ھے. کوئی نہ کوئی شخص کسی نہ کسی کی کمزوری سے ضروری فائدہ اٹھا لیتا ھے، بعض اوقات ایسی حرکات آنکھ میں دھول جھونک کر کی جاتی ھیں، جو وقوع کے وقت تو محسوس نہیں ھوتیں، لیکن جیسے ھی ذھن کے خلئے کھلتے ہیں اس وقت احساس ھوتا ھے، مگر کام دکھانے والا رفوچکر ھو چکا ھوتا ھے. انہیں دنوں 24 فروری 1968 کو حسب عادت میں ڈرائینگ روم میں بیٹھا پڑھ رھا تھا، کہ ایک جوان سال باریش درویش شکل نوجوان اللہ ھو، اللہ ھو کا ورد کرتا ھوا دروازے کے سامنے آ کھڑا ھوا اور قرآن مجید ھدیہ پر لینے کے لئے دست سوال بڑھایا.
اسکی جاذب نظر شخصیت نے دماغ کو مسمرائز کر دیا تھا. میں نے اسے ڈراینگ روم میں بلا لیا کیونکہ ویسے بھی ھمارے معاشرے میں مذھبی پابندیوں اور خود ساختہ حد بندیوں کی وجہ سے سادھو پہناوا پہننے والے کو اللہ تعالٰی کا خاص بندہ انسان سمجھ لیا جاتا تھا. کمرے میں بیٹھتے ھی اس نے مجھ پر نفسیاتی اثر ڈالنا شروع کر دیا. عام قسم کے مسائل کی نشان دہی کرنا شروع کر دی جس سے عام طبقہ کے لوگ دوچار ھوتے ھیں.
پھر ھاتھ پکڑ کر کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکیں مارنی شروع کر دیں تھیں اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا بچہ تمہاری تمام تکالیف دور ھو رھی ھیں. تم زندگی میں کامیاب ھوگے. فطری بات تھی، میں اسکی حوصلہ افزا باتوں سے مرعوب ھو رھا تھا. جذبات میں آکر میں نے اسے بیس روپے قرآن مجید بطور ھدیہ لینے کے لئے دے دئے تھے. یہ میرا بھولپن تھا یا بےوقوفی. تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ اس بہروپیا نے اسی طرح کا ڈرامہ رچا کر محلے کے کئی لوگوں کو بیوقوف بنا کر لوٹ لیا تھا. اسکی تلاش تو بہت کی تھی، لیکن اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھا تھا. بس فراڈیہ لوٹ کر چلتا بنا تھا�

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles