Rakht E Safar - Qist 2 - Article No. 2418

Rakht E Safar - Qist 2

رخت سفر۔ قسط نمبر 2 - تحریر نمبر 2418

مینگورہ سے صبح ساڑھے دس بجے مرغزار کےلئے روانگی ھوئی. بسوں کے ٹائروں پر لوھے کی زنجیریں لپٹی ھوئیں تھیں، کیونکہ سڑک پر پڑی برف ٹھوس ھو کر پھسلن پیدا کرتی تھی

Arif Chishti عارف چشتی پیر 24 اگست 2020

مینگورہ سے صبح ساڑھے دس بجے مرغزار کےلئے روانگی ھوئی. بسوں کے ٹائروں پر لوھے کی زنجیریں لپٹی ھوئیں تھیں، کیونکہ سڑک پر پڑی برف ٹھوس ھو کر پھسلن پیدا کرتی تھی.خطرہ تھا کہ کوئی بس پھسل کر گہری کھائی میں نہ جا گرے. دونوں بسیں رخت سفر ھوئیں اور ھم دونوں طرف پہاڑوں پر پڑی برف باری سے لطف اندوز ھوتے رھے. ایسے لگتا تھا کہ دونوں طرف سفید چادریں بچھا دی گئی تھیں.
بخیریت مرغزار پہنچے اور اجازت مل گئی کہ وقت مقررہ پر شام کو سب بسوں میں آکر بیٹھ جائیں. مجاھد مرزا، ریاض، عبدالغفور اور بشیر کے ھمراہ مرغزار کی داھنی ھاتھ والی پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا، کیونکہ مجھے اسلام آباد کی پہاڑیوں پر چڑھنے کا تجربہ پہلے ھی تھا.

(جاری ہے)

برف پر چڑھنے کے لئے مخصوص جرابیں پہن لی تھیں اور ایک دوسرے کا ھاتھ پکڑ کر اوپر چوٹی پر پہنچ گئے تھے، راستے میں املوک میوہ بہت ملا جو ساتھ ساتھ کھاتے جاتے تھے.

چوٹی پر چڑھ کر اردگرد کے نظاروں سے خوب لطف اندوز ھوئے تھے. اوپر سے سڑک ایک کالی لائن کی طرح نظر آتی تھی اور نیچے دوست ساتھی بونے لگتے تھے. دشوار گزار راستوں سے ھوتے ھوئے، بڑی مشکلوں سے پہنچے تھے اس لئے تھکاوٹ کی وجہ سے چوٹی پر تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے رھے. ریاض املوک میوہ ڈھونڈ کر لاتا رھا اور ھم کھاتے اور حسین مناظر سے لطف اندوز ھوتے رھے.
ھم چاروں کے علاوہ کسی اور ساتھی نے پہاڑی پر چڑھنے کی ھمت نہ کی تھی. دھیرے دھیرے ھاتھ پکڑ کر واپسی ھوئ اور مرغزار کے ماربل سے تعمیر کردہ لان جس پر دو دو فٹ برف پڑ چکی تھی، برف سے مٹھیاں بھر بھر کر ایک دوسرے کو بچوں کی طرح مارنی شروع کردیں تھیں. مل کر ایک آئس مین بنایا. پھر دوستوں نے یادگار تصاویر بنائیں. سہ پہر مینگورہ بخیریت واپسی ھوئ.
شام کو ھمارے گروپ کے دوستوں نے قریبی سینما میں فلم "تیرے شہر میں" دیکھی. بعد میں جہانزیب کلب اور کالج کی سیر کی. پھر جلد ھی کھانا تناول کرکے لیٹ گئے، کیونکہ اگلی صبح والئی سوات سے ملاقات طے تھی.
26 دسمبر 1965 کو طے شدہ پروگرام کے مطابق والئی سوات جناب بادشاہ صاحب سے ایک مزئین مسجد میں ملاقات ہوئی. وہ کافی ضعیف العمر تھے. انہوں نے مختصراً اپنی تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا.
ایک دو دوستوں نے سوالات بھی کئے. کافی خاطر تواضع کی گئی. پھر سیدوشریف کی سیر کی، جو ایک انتہائی خوبصورت قدرتی حسن اور مناظر کا پیکر تھا. سارا دن سیدوشریف کی سیر میں گزر گیا. شام کو پشاور واپسی ھوئ. اسی رات لاھور واپسی کا پروگرام تھا. لیکن واپسی کے لئے بوگیاں نہیں کروائی گئی تھیں. طلبہ کا گٹھ جوڑ تو آپ کو معلوم ھے. دو گھنٹے پہلے آٹھ بجے رات اسٹیشن پہنچ کر خیبر میل کی دو بوگیوں پر قبضہ کر کے دروازوں پر بستر لگا دیئے تھے اور دیگر خریدا ھوا سامان بھی لگا دیا تھا، تاکہ کوئی اندر نہ آ سکے.
ویسے بھی بوگیوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ رھی تھی. سردی انتہا کی تھی. جو بھی کوئی مسافر اندر آنے کے لئے دروازوں کو دھکے لگاتا تھا، سب سٹوڈینٹس مل کر اندر سے زور لگاتے تھے کہ کوئی دروازہ نہ کھول سکے. پٹھان بہت نالاں تھے اور تبرے بول رھے تھے. رات دس بجے ٹرین روانہ ھوئ. خیر سارا واپسی کا سفر اسی تگ و دو میں گزر رھا تھا. شیشے اور کھڑکیاں بھی بند کر دیں تھیں، کیونکہ مسافر ھر طرف سے اندر آنے کے لئے سر توڑ کوشش کر رھے تھے.
ایک تو تھکاوٹ اور پھر شدید سردی کی وجہ سے سب کے چہرے اتر چکے تھے. ھمارے دو دوست غلطی سے لیٹرین میں پھنس گئے تھے انکو اندر لانا بھی ایک مسئلہ تھا. چلتی ٹرین کے دوران ھمت والے جاندار دوست کھڑکی کے ذریعے انتہائی مشکل سے انہیں اندر لانے میں کامیاب ھوگیے تھے. سرد ھوا جسم کاٹ رھی تھی. کچھ دیر سکون ھوتا تو تاش کی بازی شروع کر لیتے تھے. جیسے ھی دروازوں پر دھکے لگنے شروع ھوتے، سب مل کر اندر سے انکو دباؤ ڈالتے تھے.
بہت ھی محاذ آرائی کا منظر تھا، جو بھلائے نہیں بھولتا. خیر یہ تھی مختصر داستان رخت سفر جو آزادانہ کالج لائف میں اختتام پذیر ھوا. میلوں میں جو مسافت طے کی، وہ کچھ یوں ھے. لاھور سے پشاور 282 میل، پشاور سے لنڈی کوتل 35 میل، لنڈی کوتل سے طورخم 5 میل، پشاور سے مینگورہ (سوات) 120 میل اور سوات سے مرغزار صرف 8 میل تھا. گھر پہنچا تو گھر والوں نے پہچانا ھی نہیں تھا، کیونکہ ٹورسٹوں والا حلیہ تھا، چہرہ زردی مائل اترا ھوا تھا، کیونکہ کافی مسافت کی تھی اور روزے بھی رکھے تھے.
معمولات زندگی سے ھٹ کر ایک ھفتہ گزارا تھا. تھکان اتار کر محلے دار دوستوں اور عزیزواقارب کو کئی روز تک ٹور کی داستان سناتا رھا تھا اور اپنے مشاہدات سے آگاہ کرتا رھا. جولی کو کڑھائی شدہ رومال اسکے بھائی کے ھاتھ بھجوا دیا تھا، لیکن واپس نہیں ھوا تھا. میرا خیال تھا کہ اب لائن کلئیر ھو رھی تھی.چھٹیوں کے بعد کالج کھل گئے اور جن دوستوں نے تصاویر اتاری تھیں، ان میں اپنی تصاویر حاصل کیں تاکہ یادگار رھیں.
اب پڑھائی کی فکر ھوئ کیونکہ تمام تر مضامین انگلش میں تھے اور اس سے میری جان جاتی تھی.
اکنامکس پہلے انٹرمیڈیٹ میں اردو میں پڑھ چکا تھا سمجھنے میں آسانی تو تھی، لیکن اکانومسٹوں کے نظریات کو رٹنا ایک مشکل کام تھا. اس وقت کورس میں اکنامکس تھیوری تحریر کردہ کے. کے. ڈیوٹ اور جے. ڈی. ورما ساڑھے نو روپے میں مل گئی تھی. اکنامکس میرا پسندیدہ مضمون تھا، اسلئے اس پر خاص توجہ جاری رکھی تھی. نظریات تو رٹنا ھی پڑھتے تھے، لیکن خود اعتمادی میں فقدان کی وجہ سے اپنی طرف سے کچھ اظہار کے لئے انگریزی کے الفاظ کا چناؤ نہ نہیں کر پاتا تھا.
مجاھد مرزا، عزیز اور عبدالغفور کو انگلش میں دسترس حاصل تھی. انکا کافی تعاون حاصل تھا اور میں اکاؤنٹنگ اور سٹیٹسٹکس کا ماسٹر تھا. انکو میں پروبلم حل کرنے میں مدد کرتا تھا. اگر میں ھر ماہ رویژن نہ کرتا تھا، تو سب کچھ بھول جاتا تھا. خالی پیرئڈز میں لائبریری یا کالج کے لان میں جا کر چل پھر رٹا لگاتا تھا.میرا پڑھنے کا اپنا ھی انداز تھا.
جب اکاؤنٹنگ یا سٹیسٹکس کے سوال حل کرنا ھوتے تھے. ریڈیو پاس رکھ لیتا تھا اور پرانے گانوں سے محظوظ بھی ھوتا رھتا تھا، جن میں زیادہ تر کچھ کچھ ھونے والے اور چلبلے گانے شامل ھوتے تھے. ویسے فرمائشی گانے ھی سننے پڑتے تھے. اس سے دماغ میں تراوٹ سی محسوس تھی. اس میں شک نہیں کہ ھمارے گروپ کے تمام طلبہ کا شمار قابل طلبہ میں ھوتا تھا اور میں بھی کم نہ تھا.
پہلی ششماہی کے امتحانات میں نتیجہ تسلی بخش نہ تھا کیونکہ انگلش بڑی کمزوری تھی.
اب فلم بینی میں بھی کمی کر دی تھی اور سو فیصد توجہ پڑھائی پر مرکوز کر دی تھی. واپسی پر اب مجاھد مرزا کے گھر کی چھت پر چڑھ کر رٹا لگاتے تھے. تاکہ اچھے نمبروں پر کامیابی حاصل کی جا سکے. گلی کوچوں کے کھیلوں کو اب مکمل طور پر پر خیر باد کہہ دیا تھا. کالج میں مجاھد مرزا اور گھر پر فضل الرحمن سے ھی لنگوٹیا تعلقات کی بات ھوتی رھتی تھی.
جب بھی پڑھائ سے زیادہ بوریت ھوتی اور جیب اجازت دیتی تھی، فلم بینی جاری رھتی تھی. کچھ کچھ ھوتا ھے والے معاملات اب کھل کر ھوتے تھے، لیکن اخلاقی دائرے میں رھتے ھوئے.صلاح الدین کی دوکان پر چکر لگ جاتا تھا اور کبھی کبھی رحمان پورہ بھی جانا ھوتا تھا. خالہ کنیز اور باجی ارشد کی درخواست پر کزن ننھی، جو کہ شاید مڈل یا میٹرک کر رھی تھی، کو ھفتے میں دو دن ٹیوشن پڑھانے جانا پڑھتا تھا.
کالج سے مزنگ، لٹن روڈ، اچھرہ اور رحمان پورہ پہنچتا تھا. پھر گانے گاتے گاتے ٹھنڈی ھوا لیتے ھوئے واپسی نہر کے ساتھ ساتھ جیل روڈ اور مال روڈ کراس کرکے براستہ دھرم پورہ گھر صدر پہنچتا تھا. وھاں آرام بھی مل جاتا تھا. میں اپنی پڑھائی بھی کر لیتا تھا اور ننھی کو بھی ٹیوشن پڑھا دیتا تھا. خالہ کنیز کے خاندان سے بہت محبت ملی تھی، جو آج تک کسی اور سگے عزیز سے نہ مل سکی.شام کے معمولات کچھ یوں تھے کہ پانچ بجے مبارک، فضل الرحمن، ظفر گوگی، سردار دارا اور ایک دو دوستوں نے استاد پا بشیر باڈی بلڈر کی شاگردی اختیار کر لی تھی.
کیونکہ جب بھی ملتے تھے صحت مند جسم کے ھی طعنے دیتے تھے. صدر بازار قبرستان کے پچھواڑے انکا باڈی بلڈنگ کا ڈیرہ تھا. ھم سب مل کر پانچ بجے وھاں پہنچ کر ڈنڈ بیٹھک، گھوڑی، بنچ پریس اور ویٹ لفٹنگ کی پریکٹس کرتے تھے. بعد میں سردائی کا دور چلتا تھا. میں ڈنڈ بیٹھک اور گھوڑی بہت کرتا تھا. مسلز تو سخت ھو رھے تھے، لیکن ھڈیوں پر گوشت نہیں چڑھ رھا تھا.
حالانکہ خالص دودھ، بادام، اور چاروں مغزوں کی سردائی میں سب سے زیادہ پیتا تھا. دیگر محلے داروں کے اجسام میں نمایاں اضافہ ھو رھا تھا، لیکن میرا جسم اکہرا ھی رھا. کل ٹیم دس دوستوں پر مشتمل تھی، جس میں سے دو دوستوں نے لاھور باڈی بلڈنگ میں اعزاز بھی حاصل کئے تھے. چھ ماہ تک یہ شوق بھی پورا کر لیا تھا، حالانکہ پا بشیر رضا مند نہ تھے. لیکن میرا پہلا مشن پڑھائی تھا.
بلاشبہ اسوقت کی درپیش مشکلات اور مسائل کو بہت کوستا تھا اور سہانے خوابوں میں رھتا تھا، کہ دن ضرور پھریں گے.
آج وھی دن یاد کرکے آنسو آجاتے ھیں، کہ وہ ھی دن پھر لوٹ آئیں، کم از کم لوگ پیار محبت کرنے والے تو تھے ھی. ذھن میں والدین اور کالج لائف سے آزادی کا خیال تو آتا تھا. لیکن یہ نہیں سوچ تھی کہ مستقبل میں فرائض اور بڑی ذمہ داریاں بھی نبھانا تھیں. آج وہ وقت خواہ تنگ دستی یا ترشی سے گزرہ تھا آج کے دور سے بہت بہتر تھا.
رکھ رکھاؤ کے پیش نظر چچا صاحب کی جوتیاں اور جرسیاں بھی استعمال کر لیا کرتا تھا.
ڈانٹ ڈپٹ بھی پڑتی تھی لیکن دادی اماں اپنا وکیل تھیں، سب صفائیاں وہ پیش کرتی تھیں. انکی استعمال شدہ جرسیوں کو اپنے جسم کے مطابق ٹانکے لگا کر استعمال میں لاتا تھا.بی کام (پارٹ فرسٹ) میں، میں نے 294/500 نمبر حاصل کرکے، پہلا مرحلہ طے کر لیا تھا. سب دوست بھی پاس ھو گئے تھے البتہ ریاض کے بارے میں شبہ ھے. چند دن کی چھٹیاں گزارنے بڑی پھوپھی کے گھر گوجرانوالہ والا چلا گیا تھا.
واپسی پر پھوپھا صاحب گر گئے تھے جس سے انکی ایک ٹانگ شدید زخمی ہو گئی تھی، وہ بھی محبت کا ایک پیکر تھے.چھٹیوں کے بعد کالج کھل گیا اور بمعہ فیس بمعہ داخلہ فیس، بی کام (پارٹ ٹو) میں داخلہ فارم جمع کروا دیا تھا.نثار صاحب کاسٹ اکاؤنٹنگ، زیدی صاحب انٹر میڈیٹ اکاؤنٹنگ، رشید صاحب بینکنگ اور فائنانس اسکے علاوہ مضمون بزنس آرگنائزیشن بھی کورس میں شامل تھا.
نثار صاحب امریکہ یا کینیڈا سے ایم بی اے کرکے آیے تھے. انہوں اسی سال کاسٹ اکاؤنٹنگ کی کتاب لاؤنچ کی تھی اور وہ ھی کورس میں شامل کر لی گئی تھی. اسکےعلاوہ میز، کیری اینڈ فرانک کی کاسٹ اکاؤنٹنگ کی ضخیم کتاب بھی لائبریری سے مل جاتی تھی. انٹر میڈیٹ اکاؤنٹنگ کے لیکچرار زیدی صاحب بس آکر بلیک بورڈ پر پروبلم کو چاک سے حل کرنا شروع کر دیتے تھے.
ٹوکنے پر وہ رک جاتے تھے، بس یہ ھی انکا علم تھا. خیر میں کتابیں تو خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا. رف پیڈز پر لائبریری سے حاصل کردہ کتابوں کو لکھ لکھا کر گزارا کر رھا تھا. بنکنگ اور کرنسی کی پاکستانی ایڈیشن کم از کم داخلہ کے چھ ماہ بعد خریدا تھا. بس تمام لیکچرارز کے لیکچرز کے نوٹس سے پڑھائی ھو رھی تھی. مالی تنگ دستی کی وجہ سے کتابیں خریدنے میں پریشانی آڑے آ رھی تھی.

Browse More Urdu Literature Articles