Rakht E Safar - Qist 1 - Article No. 2415

Rakht E Safar - Qist 1

رخت سفر۔ قسط نمبر 1 - تحریر نمبر 2415

Arif Chishti عارف چشتی ہفتہ 22 اگست 2020

تعلیم پر توجہ تو مرکوز تھی ھی، اب سردیاں شروع ھوچکی تھیں اور کالج سے دس دن کی چھٹیاں ھونے والی تھیں. کالج کے نوٹس بورڈ پر نوٹس لگا کہ دو مختلف ٹیمیں ایک ھفتہ کے تفریحی ٹورز پر جا رھی تھیں، ایک ٹیم کراچی دوسری سرحد(کے پی کے) جاری تھی. جس سٹوڈینٹ نے جانا ھے دس روپے سیکورٹی جمع کروا دے. دوستوں میں سب ھی تیار تھے. مجھے گھر والوں سے اجازت اور دس روپے و دیگر اخراجات کے لئے، پیسے لینے کا مسئلہ درپیش تھا اور پھر یہ پہلا موقع تھا، کہ لاھور سے باھر ایک ھفتہ کے لئے اپنوں کے بغیر اتنی دور جانا تھا .
کافی منت سماجت کے بعد اجازت مل گئی اور پیسے بھی مل گئے تھے.

(جاری ہے)

اپنے گروپ کے فیصلے کے مطابق سرحد جانے کا فیصلہ ھو گیا تھا اور دس روپے سیکیورٹی جمع کروا دی گئی تھی . سردیوں کے کپڑے بمعہ اوور کوٹ اور فلٹ ھیٹ ساتھ رکھ لئے تھے. کالج یونین کےجنرل سیکریٹری اور لیکچرار عتیق الرحمن صاحب کی رھنمائی میں دو ریلوے کی بک کردہ بوگیوں میں ٹور ٹیم 21 دسمبر 1965 کو رات کے وقت لاھور سے پشاور کے لئے روانہ ھوئی تھی.

راستہ میں وہ خر مستیاں جاری ھوئیں کہ اب وہ ایک خواب لگتی ھیں. کسی گروپ نے ستار بجا کر اور ڈانس کرکے تفریح کا سماں باندھنا شروع کر دیا تھا ، کسی نے نوجوانوں کے لطیفے سنانا کردیئے، ھمارے گروپ نے تاش کھیلنا شروع کر دی. عبدالغفور، عزیز، ریاض کو ھمیشہ مخالف گروپ میں رکھتے تھے. میں اور مجاھد مرزا ھمیشہ اکھٹے ھوتے تھے. کبھی رنگ، دو سری اور کبھی سیپ کھیلتے تھے.
ھم دونوں نے ایک ٹرم ایجاد کر رکھی تھی، جسکو ھم تمکنالی کہتے تھے جسکا ھماری زبان میں ھیرا پھیری ھوتا تھا. اشاروں سے پتے اپنے ساتھی کو بتا دیتے تھے اور ھمیشہ جیت جاتے تھے. کمزور پتے آنے پر پھڈا ڈال کر دوبارہ بانٹنے پر اسرار کرتے تھے. خاص طور پر عبدالغفور اور عزیز کو خوب بےوقوف بناتے تھے. ریاض دوطرفہ تھا، اسلئے اسے کچن چائے بنانے کے لئے بھیج دیتے تھے.
جوں جوں سفر روان تھا، سردی بڑھتی جا رھی تھی، سر اور منہہ کو مفلر سے لپیٹ لیا تھا. ساتھ ساتھ مونگ پھلی کا دور بھی چلتا رھا. ھر طرح کی تفریح سے محفوظ ھونے کے بعد اگلی صبح پشاور شہر پہنچے. ھمیں پشاور یونیورسٹی کیمپس کے دو مخصوص کمروں میں ٹھہرایا گیا تھا. سب سٹوڈینٹس نے اپنی اپنی پسند کی جگہ پر ساتھ لائے ھوئے بستر فرش پر بچھا لئے تھے تاکہ کچھ آرام کرنے کے بعد سیر کے لئے نکلا جائے.
ضروری سامان اپنے اپنے سرھانے رکھ لیا تھا تاکہ کوئی شرارت سے ھیرا پھیری نہ کرے. تھوڑا آرام کرنے کے بعد ھمیں ناشتہ یونیورسٹی کی طرف سے کروایا گیا اور یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات متعارف کروائے گئے تھے، جس سے ھمیں سیر حاصل معلومات حاصل ھوئیں تھیں.
دوپہر اور رات کا کھانا ھم اپنے طور پر جہاں مناسب ھوتا کرتے تھے. پہلا دن تو تھکاوٹ اتارنے اور شعبہ جات کے تعارف میں گزرا.
دوسرے روز صبح دو بسوں پر ھم سب افغانستان کے بارڈر طورخم دیکھنے کے لیے براستہ جمرود، لنڈی کوتل روانہ ھوئے. راستے میں لطائف اور خوش گپیوں سے محفوظ ھوتے رھے. دونوں اطراف پہاڑی سلسلہ شروع ھوتا رھا. خیبر پاس اتر کر ھاتھ پاؤں سیدھے کئے. ھر طرف پتھریلے کھنگر یالے پہاڑ ھی نظر آرھے تھے. کھائیاں اتنی گہری تھیں، دیکھ کر دل دہل جاتا تھا اور ڈر لگتا تھا.
سفر پھر شروع ھوا، دونوں اطراف مٹی کے قلعہ نما گھر تھے اور ھر مکان مورچہ بند تھا. اب سفر خطرناک ھوتا جا رھا تھا. جہاں کہیں سڑک کے ساتھ ریلوے ٹریک نظر آتی ورطہ حیرت میں پڑھ جاتے کہ انگریزوں نے یہاں کیسے ٹریک بچھائ ھوگی. لنڈی کوتل پہنچ کر تمام سٹوڈنٹس مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور غیر ملکی کی اشیاء کی خریداری شروع کر دی تھی. ھم تو عجیب حلیہ کے لوگوں کو دیکھ کر ھی خوفزدہ ھو رھے تھے.
ھر ایک پٹھان مسلح تھا. انکی باتیں بھی سمجھ نہ آتی تھیں. وقت مقررہ پر تمام سٹوڈینٹس آکر بسوں پر سوار ھوئے اور طورخم بارڈر کے لئے سفر جاری ھو گیا تھا . ایک جگہ پر ریلوے ٹریک U شیپ میں تھی، وھاں اتر کر معلومات حاصل کیں کہ کیسے ٹرین یہاں سے گزرتی ھوگی. پتا چلا کہ یہاں دو سٹیم انجن لگائے جاتے ھیں. پھر ٹرین اونچائی پر چڑھتی ھے. واقعی عقل دھنگ رہ گئی تھی.
سہ پہر طورخم بارڈر پہنچے اور ھمیں تنبہیہ کر دی گئی تھی کہ فلاں فلاں ایریا میں نہیں جانا کیوں کہ غلطی سے ھم پاکستانی بارڈر بھی کراس کر سکتے تھے. سب دوست، مل کر افغان بارڈر پر پہنچے جہاں افغانستان کا جھنڈا لہرا رھا تھا اور بارڈر کے پار رشئین فوجی معمور تھے. ھمیں بارڈر پار کرنے کی سخت ممانعت تھی. لیکن افغانی اور پختون گدھوں پر آ جا رھے تھے.
پتا چلا کہ یہ پاوندے ھیں انکی رشتہ داریاں دونوں طرف تھیں. اسلئے یہ آزادانہ آ جا سکتے تھے. بات سمجھ سے باہر تھی، لیکن خاموشی ھی بہتر سمجھی. بارڈر پر گروپ تصاویر اتاری گئیں. ھم چند دوستوں نے قریبی پہاڑی پر چڑھ کر مخصوص تصاویر بھی بنوائیں تھیں، جسکی بیک گراؤنڈ میں افغانستان کا جھنڈا بھی نظر آ رھا تھا. شام کو پشاور واپسی ھوئی. چپل کباب اور نانوں سے ڈنر کیا.
تھک ھار کر لیٹ گئے.
لیکن شرارتی گروپ نے ڈسٹرب کرنا شروع کر دیا تھا. اندھیرے میں کسی نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دیے تھے. سردی انتہا پر تھی اور اوپر سے ٹھنڈا پانی. کوئی بستر پر لیٹے لیٹے ھی ھوٹنگ کر رھا تھا. خیر تھکاوٹ کی وجہ سے جلد ھی نیند آگئی تھی. صبح اٹھ کر میں نے ایک دوست کی ٹوتھ پیسٹ چرا کر برش میں ڈال کر منہہ میں پھیرنا شروع کی.
وہ عجیب قسم کی ٹوتھ پیسٹ تھی، منہہ کڑوا ھونا شروع ھو گیا تھا اور منہہ سے جاگ ھی نگل رھی تھی. سمجھ میں نہیں آرھا تھا، کہ یہ کیسی پیسٹ تھی. بعد میں پتا چلا کہ میں نے شیونگ کریم کو ٹوتھ پیسٹ سمجھ کر استعمال کر لیا تھا. اب میں ھنس ھنس کر لوٹ پوٹ ھو رھا تھا لیکن اپنی بےوقوفانہ شرارت کا کسی کو علم نہیں ھونے دیا تھا. لیکن سارا دن منہہ میں جاگ بن رھی تھی اور میں تھوک پھینک پھینک کر پریشان ھو رھا تھا.
شکر ھے پیٹ خالی تھا ورنہ قے شروع ھو جاتیں. پھر پیدل ھی پشاور شہر کی سیر شروع کردی. سب سے پہلے خیبر چوک سے افتتاح کیا. پھر سوکارنو چوک، مسگران روڈ، نشتر روڈ، حکیم اللہ جان روڈ، کچہری روڈ، کنگھم روڈ، یادگار چوک اور مشہور زمانہ قصہ خوانی بازار کی سیر کی. علاقائی کڑھائی والے ملبوسات اور جولی کے لئے رومال خریدے. پھر فورٹ روڈ جا کر قلعہ کی سیر کی اور ایک خاص پوائنٹ سے شہر پشاور کا نظارہ کیا تھا .
بہت ھی لطف آیا تھا . چٹپتی چیزیں کھا کر منہہ کا ذائقہ اب ٹھیک ھو گیا تھا. اب پیدل ھی رخت سفر این سی روڈ، ایس سی روڈ، جی ٹی روڈ، مال روڈ، ریڈیو سٹیشن، میوزئم، راس کلب، ھائ کورٹ، دربار داتا بخاری، ایڈورڈ کالج، کمشنر ھاؤس، اسلامیہ روڈ، کچنیری روڈ، ھسپتال روڈ، کمپنی باغ اور سی ایم ایچ تک رھا. مزکورہ بالا مقامات کی سیر سے خوب محظوظ ھوتے رھے تھے.
جوان تھے جوان خون تھا، پتا ھی نہ چلا تھا کہ میلوں کا سفر چٹکی میں طے ھو گیا تھا. شدید سردی کی وجہ سے اوور کوٹ، مفلر اور فیلٹ ھیٹ نے کافی آسودگی دی تھی. اس دور میں جلیل نامی چپل کباب والا بہت مشہور تھا. ھم دس دوستوں کا گروپ اسکی دوکان کا پتہ پوچھ کر وھاں پہنچا، تو دیکھا کہ رش بہت زیادہ تھا، تل دھرنے کو جگہ نہ تھی. اسکے ملازمین نے دوکان کی چھت پر ھمارے کھانے کا انتظام کر دیا تھا.
کافی انتظار کے بعد پیٹ بھر کر کباب کھائے کہ اب بھی سوچیں تو منہہ میں پانی آجاتا ھے. کچھ تصاویر بنائیں تاکہ ریکارڈ میں رھیں. واپسی پر راستے سے اخروٹ، چلغوزے، بادام اور خوبانیاں حسب توفیق خریدیں. شام کو تھک ھار کر واپس کیمپس پہنچے. سب نے دن بھر جو خریداری کی تھی اپنے سرھانوں کے پیچھے رکھ لی تھی، تاکہ کوئی شرارت سے چوری نہ کر سکے. رات کو مجھے شرارت سوجھی، میں نے مجاھد مرزا کو اعتماد میں لیکر جب عبدالغفور گہری نیند سو گیا، کے اخروٹ اور چلغوزے پار کرنا شروع دئے.
رات کو ھی باری باری ھم دونوں باھر جا کر کھا آتے اور کچھ اپنے خریدے ھوئے لفافوں میں ڈال دیتے تھے. صبح اس نے گلہ کیا کہ کسی نے اسکے اخروٹ اور چلغوزے چوری کر لئے تھے اور انکی جگہ پتھر ڈال دئے تھے. ھم تو معصوم بن کر شرارتی ٹولے کی کاروائی قرار دیتے رھے. اس بےوقوف کو پتا ھی نہیں چلا کہ کس نے اسکا مال کھا پی لیا تھا. ھم ھنس بھی رھے تھے اور اسکا مذاق بھی اڑا رھے تھے.
سردی کی وجہ سے صبح ٹھنڈے پانی سے نہانے کا ایک جداگانہ تجربہ تھا. پہلے پاؤں پر پانی ڈالتے تھے، پھر یکدم سر شاور کے نیچے دے دیتے تھے بس مزہ ھی آجاتا تھا. اب تو سوچ بھی نہیں سکتے.
24 دسمبر 1965 کو صبح ساڑھے دس بجے مینگورہ سوات روانگی ھوئی. انتہائی یخ بستہ سردی تھی. راستہ تو پہاڑی تھا، لیکن ھر طرف سبزہ زار اور ھریالی تھی. پہاڑوں پر برفباری کی وجہ سے سفید چادر لپٹی نظر آ رھی تھی.
سب سے پہلے چارسدہ آیا، پھر سرڈھیری، منگا، مردان، تخت بائی، لوند خور، شیر گڑھی، گوجر گڑھی، سکھا کوٹ، مالاکنڈ، درگئی، چکدرہ، بٹ خیلہ اور کوٹ قلعہ آئے اور پھر مینگورہ پہنچے. مینگورہ کے کالج ھوسٹل کے کمرہ نمبر 4 میں، ھمیں ٹھہرایا گیا تھا جو کہ طارق اور سٹینڈرڈ ھوسٹلز کے قریب واقعہ تھا. یہاں یک بستہ سردی تھی. مرغیاں، انڈے اور ایک خاص بیر نما میوہ بہت سستے تھے.
اس لئے مرغی اور انڈوں کا استعمال بہت ھوتا تھا. علاقہ انتہائی خوبصورت تھا، بس جنت کی نظیر ھی سمجھیں. ھوسٹل سے چند قدم کے فاصلے پر ایک تاج نامی ھوٹل تھا. جس میں صفائی کا انتطام بھی تھا اور کھانا بھی کافی لذیذ ھوتا تھا. وھیں پر ناشتہ اور کھانا کھا لیتے تھے. اسی شام وھاں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا. نیت کرلی کہ روزے بھی رکھیں گے اور سیر بھی جاری رھے گی.
بس صبح کو ٹھنڈے پانی سے نہانا ایک فوجی طرز کا جہاد تھا. کئی دوست تو نہاتے ھی نہ تھے، لیکن میں اور مجاھد مرزا غسل کے بغیر مطمئن نہ ھوتے تھے. بس سمجھیں برف کے پانی سے نہا کر بھی دیکھ لیا تھا، کیونکہ پانی گرم کرنے کا کوئی بندوبست نہ تھا. اب سوچتے ھیں تو جسم میں جھر جھری آجاتی ھے. پہلی سحری تاج ھوٹل میں جا کر کھائی اور جھومتے جامتے ھوسٹل میں آکر آرام کرنا شروع کر دیا اور اگلے پروگرام کا انتظار کرتے رھے.

Browse More Urdu Literature Articles