Gham Khushi Ka Hum Jooli - Article No. 2438

Gham Khushi Ka Hum Jooli

غم خوشی کا ہم جولی - تحریر نمبر 2438

پڑھائی زور و شور سے جاری تھی اور تقریباً تمام ھی دوست جہد مسلسل میں لگے ہوئے تھے. فضل الرحمن اپنے چچا کے ساتھ ٹنڈو محمد خان ایڈجسٹ نہ ھو سکا تھا

Arif Chishti عارف چشتی پیر 28 ستمبر 2020

پڑھائی زور و شور سے جاری تھی اور تقریباً تمام ھی دوست جہد مسلسل میں لگے ہوئے تھے. فضل الرحمن اپنے چچا کے ساتھ ٹنڈو محمد خان ایڈجسٹ نہ ھو سکا تھا، اسلئے واپس لاھور آگیا تھا.ایک دن اچانک جولی کی آنٹی سے معلوم ھوا کہ اسکے والد کا تبادلہ راولپنڈی ھو گیا تھا اور انکی فیملی وھاں جا رھی تھی. ابھی فضل الرحمن کی لاھور واپسی کی خوشی پوری نہ ھوئی تھی کہ ایک اور جدائی کے غم نے سر چکرا دیا تھا.
جولی کی ماما یا اسکی فیملی خاموشی سے راولپنڈی سدھار رھیں تھیں. فضل الرحمن اور انور کے ھمراہ اسٹیشن پر پر نم آنکھوں سے انہیں رخصت کیا تھا. بس ایک عجب منظر تھا. جسکو بھلائے بھولا نہیں جاسکتا. سب خواب چکنا چور ھو چکے تھے.

(جاری ہے)

بس اب پڑھائی، فلم بینی، میوزک، فوٹوگرافی سے ھی روز و شب گزرنے شروع ھو گئے تھے. لیکن کچھ کچھ ھوتا کا غم رگوں پیمان میں پیوست ھو چکا تھا.
فضل الرحمن سے مشاورت کے بعد طے پایا کہ جولی سے ملنے راولپنڈی ضرور جائیں گے.

اسے احساس دلائیں گے کہ دل کے معاملہ میں کچھ مخلص بھی ھوتے ھیں. جولی کی آنٹی سے مسلسل رابطہ رھتا تھا. وہ میری دل و جان سے حامی تھی اور کوشاں تھی کہ رشتہ داری ھو جائے تو بہت بہتر ھوگا. لیکن اسکے بقول اسکے خاندان کے کچھ افراد حمایت کر رھے تھے اور کچھ مخالفت. دل گردہ مضبوط کرکے فضل الرحمن کے ھمراہ یکم مارچ 1968 کو پہلے اسلام آباد پہنچے. اگلے روز فضل الرحمن اور کزن اسلم کے ھمراہ راولپنڈی جولی کی آنٹی کے دئے ھوتے پتا پر پہنچے، اور اس کی دی ھوئی اشیاء اسکے بھائی کے حوالے کیں.
وھاں سے ایک اور بری خبر ملی کہ جولی کے ابو کا تبادلہ، خان پور ھو گیا تھا، وہ وھاں چلے گئے تھے. بس ایک اور بجلی آن گری. بجھے دل سے راجہ بازار اور ملحق علاقوں کی سیر کی. اگلے روز ماموں ریاض کے ھاں ویسٹریج چلے گئے تھے اور شام کو اسلام آباد واپسی ھوئی تھی. 3 مارچ 1968 کو شام سات بجے دل گرفتہ حالت میں لاھور واپسی ھوئی تھی. میرے اھل خانہ کو صورت حال کا علم ھو چکا تھا، اسلئے جولی کی آنٹی سے ملنے سے منع کرتے تھے.
لیکن وہ بھی بے پرواہ مجھ سے خالصتآ جولی کے بارے میں مطلع کرتی رھتی تھی.
ایوب خان صدر پاکستان کی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹر" گو کہ 1967 میں شائع ھو چکی تھی. لیکن اسکی پزیرائی 1968 میں ھوئی تھی. اسکے آمرانہ دور کے دس سالہ جشن منانے سے اسکا زوال نوشتہ دیوار ھو چکا تھا. اسکو ڈیڈی اور نہ جانے کتنے چاپلوس اسکی کاسہ لیسی میں مصروف عمل تھے.
پورے ملک میں ھنگامے شروع ھو چکے تھے. ھمارا کلاس فیلوز کا گروپ سوشلزم کا حامی تھا، اور ذوالفقار علی بھٹو کی مکمل حمایتی تھا. عملی طور پر صرف مجاھد مرزا اور میں ھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ھوتے تھے. پیپلزپارٹی کی قیادت سے مسلسل رابطہ رھتا تھا، لیکن پہلا مقصد حیات صرف تعلیم کا حصول ھی تھا. جس میں شاید کوئی ساتھی کوتاھی نہیں برت رھا تھا.
غم زدہ ھونے کے باوجود مجھ میں اب بھی شرارت کرنے کا عنصر غالب تھا.
کسی نے ذرہ ھوا بھری تو بلا انجام شرارت کر دیتا تھا. کالج لائف میں شرارت کا انداز کچھ اور ھی ھوتا تھا. خود تو محظوظ ھوتا لیکن ماحول بھی زعفران بن جاتا تھا اور پھر متفقہ رازداری کو سیلوٹ پیش نہ کرنا زیادتی ھوگی. حسب معمول اکنامکس گروتھ اینڈ ڈویلپمنڈ کا پیرئڈ شروع ھونے میں کچھ منٹ باقی تھے. ھم سب دوست کلاس روم سے باھر لیکچرار گریٹ سعید صاحب کے منتظر تھے، کہ کتے کا ایک چھوٹا سا بچہ لیڈی میکلیگن کالج جو ھیلی کالج اولڈ کیمپس سے ملحق تھا کے برساتی نالے سے آن وارد ھوا.
اسکے گلے میں رسی ڈلی ھوئی تھی. سب کلاس فیلوز نے متفقہ طور پر مجھے کچھ انہونی شرارت کرنے پر مصر کر لیا. تاکہ وہ خوب مزے لے سکیں. دو خواتین کلاس فیلوز ھمیشہ سے ھر پیرئڈ میں ھماری سیٹوں سے اگلی سیٹوں پر ھی بیٹھتی تھیں. مجاھد مرزا سے مل کر شرارت سوچ لی تھی اور کتے کے بچے کو رسی سے پکڑ کر کلاس روم میں لے جا کر ایک لیڈی سٹوڈنٹ کی کرسی کی ٹانگ سے باندھ دیا تھا، تاکہ لیکچر شروع ھوتے ھی شرارت پر عمل کیا جائے.
پیرئڈ شروع ھوتے ھی ھم سب کلاس میں جا بیٹھے. سعید صاحب نے حسب معمول نوٹس لکھوانا شروع کر دئے تھے. لیڈی سٹوڈینٹس بھی آکر اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئی تھیں. کتے کا بچہ مزے سے کرسی کے نیچے خاموش بیٹھا تھا اور لیڈی سٹوڈینٹس اور سعید صاحب کے وھم و گمان میں بھی نہ تھا، کہ یک دم کیا ھونے والا تھا. کتے کے بچے کی دم میرے اور مجاھد مرزا کے پاؤں کے عین درمیان تھی.
ایک محترمہ کے ڈوپٹہ کا پلو پیچھے لٹک گیا. کتے کے بچے نے پلو سے کھیلنا شروع کر دیا تھا اور وہ مڑ کر ھماری طرف گھور کر دیکھ رھی تھی، کہ شاید ھم اسے چھیڑ رھے تھے. سعید صاحب کی نوٹس لکھوانے کی رفتار اتنی تیز ھوتی تھی، کہ ایک لمحے کی سستی سے کافی کچھ چھوٹ جاتا تھا. خیر اس نے پلو اونچا کر لیا تو ھمیں تسلی ھوئی تھی. سعید صاحب نے کچھ وقفہ لیا تاکہ پانی پی سکیں.
اسی دوران سب نے کلاس فیلوز نے سوالیہ انداز میں اشارے کرنا شروع کر دئے کہ ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ھوئی تھی. میں نے کتے کے بچے کو ھلکی سی ٹھوکر لگائی. وہ بھونکنے کی بجائے میرے ھی بوٹوں سے کھیلنا شروع ھو گیا تھا. پندرہ منٹ تک یہ سلسلہ جاری رھا تھا. تنگ آکر میں نے ایک زور دار ٹھوکر دے ماری، کتے کا بچہ چاؤں چاؤں کرتا لیڈی سٹوڈینٹس کی کرسیوں کے درمیان بھاگنے لگا تھا، کیونکہ وہ ایک کرسی کی ٹانگ سے بندھا ھوا تھا.
یک دم کھلبلی مچ گئی لیڈی سٹوڈینٹس کے رنگ فق ھو گئے تھے اور کلاس سے باہر بھاگنے کے دوران گر بھی گئی تھیں. کلاس روم قہقہوں سے گونج اٹھا تھا اور ھوٹنگ بھی خوب ھوئی تھی. یکدم پیرئڈ ختم ھونے کی گھنٹی بج گئی تھی، اسلئے شرارت کا بھید کھل نہ سکا تھا اور اپنا بھرم قائم رھا تھا. مجھے اپنے تمام ھی بزرگ رشتہ داروں سے محبت اور انسیت ملی تھی. جن میں رشتہ کے چچا غنی صاحب تاندلیاں والے، چچا منیر صاحب، ماموں یونس صاحب کراچی والے، ماموں گلزار صاحب کوئٹہ والے اور بڑے پھوپھا عبدالرحیم صاحب سر فہرست تھے.
جب بھی لاھور آتے مجھے تمام عزیز و اقارب کے ھاں لیکر جاتے تھے.
پھوپھا صاحب کو ایک جان لیوا مرض نے آگھیرا تھا. انکو خون کی قے بہت آتی تھیں. اسکو اس وقت 'دق' کہا جاتا تھا. دس سے پندرہ تک آجاتی تھیں، جسکی وجہ سے انکی حالت تشویشناک ھو جاتی تھی. انکو فوری طور پر گوجرانوالہ ھسپتال میں ایمرجنسی میں داخل کیا جاتا تھا. وقتی طور پر افاقہ ھو جاتا تھا.
حقیقتاً مرض کی تشخیص نہیں ھو سکی تھی. کیونکہ اس وقت تشخیص اور چیک اپ کے ذریعے اور سہولیات اتنے ایڈوانس نہیں ھوئے تھے.کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وھی بیماری عود آتی تھی اور انکی حالت تشویشناک ھو جاتی تھی. کافی مشاورت جاری تھی کہ لاھور جا کر مکمل چیک اپ کروایا جائے اور مستقل بنیادوں پر علاج کیا جائے تاکہ مرض سے مکمل صحت یابی حاصل ھو سکے.
جہاں تک یاد پڑتا ھے انکا رابطہ انکے مکیریاں کے ھمعصر ڈاکٹر دوست سے ھوا تھا جو اس وقت میوھسپتال میں ھیڈ سرجن تھے اور اچھی شہرت کے حامل تھے. پھوپھا صاحب نے اپنے ڈاکٹر دوست سے تفصیلی مشاورت کی. اسکی مختلف ٹیسٹوں کے بعد تشخیص تھی، کہ خون تلی میں کسی رگ کے پھٹ جانے سے آتا تھا. تلی کو آپریشن کے بعد نکال دیں گے تو قے آنی بند ھو جائیں گیں.
پھوپھا بہت پریشان رھتے تھے، اسلئے آپریشن کروانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا. اپنے والد صاحب اور بڑے بھائی سے مشاورت بھی کرلی تھی. وہ بھی ڈاکٹر صاحب کو خوب جانتے تھے. تمام عزیز و اقارب سے ملاقاتیں کرکے طے شدہ پروگرام کے تحت لاھور آ گئے تھے.
لاھور میں بھی میرے ھمراہ تمام عزیزو اقارب سے ملاقاتیں کرکے فرداً فرداً کیا کرایا معاف کرنا کہہ کر انکی دعائیں لے رھے تھے.
دراصل سب پرامید تھے کہ اللہ تعالٰی انکو صحت کاملہ عطا فرمائے گا. بڑی ھشاش بشاش طبیعت کے مالک اور زندہ دل کھری شخصیت کے مالک تھے. بالکل تندرست تھے اور رتی بھر آپریشن کا خوف ان پر طاری نہ تھا. آپریشن کے دوران انکے پاس کسی کا رھنا لازمی تھا، اسلئے والد صاحب سے اجازت لے لی کہ میں انکے پاس دن میں رھوں گا، رات کو انکے بڑے بھائی ھسپتال میں رھا کریں گے.
میرے بی. کام پارٹ تھری کے امتحانات بھی قریب آ رھے تھے. پڑھائی پر توجہ تو انتہائی لازمی تھی، لیکن اعلیٰ رشتہ ھونے کی وجہ سے قربانی تو دینا ھی تھی، اور پھر انکی محبت اور انسئیت منفرد تھی. اپریل 1968 کو وہ میو ھسپتال لاھور کی دھلی وارڈ، بیڈ نمبر 10 انکو الاٹ کیا گیا تھا. آپریشن سے پہلے وہ بیڈ پر کم ھی رھتے تھے. ھم دونوں کبھی علی ھجویری رحمتہ علیہ کے مزار پر حاضری دینے چلے جاتے تھے.
کبھی کسی رشتہ دار سے ملنے چلے جاتے تھے.کبھی انارکلی گھومنے چلے جاتے تھے. 26 اپریل 1968 کو سہہ پہر انکا میجر آپریشن ھوا اور تین چار کلو وزنی تلی نکال دی گئی تھی. تمام عزیزو اقارب ھسپتال میں موجود تھے اور ان کی شفا یابی کی دعائیں مانگ رھے تھے. مجھے تلی اور خون دیکھ کر چکر آگیا تھا، لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا. رات گئے انکو بیڈ پر منتقل کیا گیا تھا.
خون کی بوتل لگی ھوئی تھی اور وہ بالکل بےھوش تھے. انکے لئے دعائیں جاری تھیں. اب رات بھی انکے پاس گزارنا پڑ رھی تھی. انکے بڑے بھائی بھی ساتھ ھی ھوتے تھے. ھنگاموں کی وجہ سے امتحانات ملتوی ھو گئے تھے لیکن پڑھائی بھی جاری تھی. آپریشن کے بعد انکی سانس کی آواز کچھ بڑھ چکی تھی، شاید بے ھوشی کی وجہ سے. آپریشن کے بعد کچھ افاقہ معلوم ھو رھا تھا.
آپریشن کے بعد تین دن رات مسلسل وھیں گزرے تھے. دن رات عیادت کرنے والے آ جا رھے تھے اور ان کی شفا کے لئے دعاگو تھے. ان کی عیادت کے لئے بابا قائم دین بھی آئے تھے. وہ واپس گھر پہنچے اور اچانک انکو فالج کا شدید حملہ ھوا تھا. پھوپھا صاحب کا بڑا بیٹا ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں ملازم تھا. اسکو مطلع کر دیا گیا تھا اور لاھور آنے کی تیاری کرچکا تھا.
اسی دروان پھوپھا صاحب کی طبیعت اچانک بگڑنا شروع ھو گئی تھی. خون کی قے کا سلسلہ جاری ھو گیا تھا. سرجن صبح شام مستقل وزٹ کر رھا تھا. وہ اس صورت حال کو دیکھ پریشان ھو گیا تھا. اسکی تشخیص کے مطابق خون کی قے تلی میں خرابی کی وجہ آتی تھیں. جو نکال دی گئی تھی. پھوپھا صاحب کی حالت تشویشناک ھوتی جا رھی تھی. سرجن سر توڑ کوششیں کر رھا تھا. خون کی کمی وجہ سے نقاھت بڑھ چکی تھی.
بس پھر وھی ھوا جو رضائے الٰہی کو منظور تھا. 12 مئی، 1968 بروز اتوار ٹھیک چار بجے پھوپھا صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے (انا للہ و انا الیہ راجعون). چچا صاحب نے فوری طور پر ٹرک کا بندوبست کیا تھا اور میرے علاوہ گھر کے تمام افراد میت کے ساتھ روانہ ھو گئے تھے. امتحانات کی تیاری کی وجہ سے مجھے ساتھ جانے کی اجازت نہ ملی تھی. 18 مئی 1968 کو بابا قائم دین بھی اللہ تعالٰی کو پیارے ھوگئے. پر خلوص محبت کرنے والے دونوں بزرگ دنیا سے رخصت ھو گئے تھے. اللہ تعالٰی انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین.

Browse More Urdu Literature Articles