Rakht E Safar - Qist 3 - Article No. 2421

Rakht E Safar - Qist 3

رخت سفر۔ قسط نمبر 3 - تحریر نمبر 2421

رشید صاحب کرنسی و بنکنگ پڑھاتے تھے، بڑی نسوانی آواز کے مالک تھے، انکے لیکچر کے دوران شرارتیں زیادہ ھوتی تھیں

Arif Chishti عارف چشتی بدھ 26 اگست 2020

رشید صاحب کرنسی و بنکنگ پڑھاتے تھے، بڑی نسوانی آواز کے مالک تھے، انکے لیکچر کے دوران شرارتیں زیادہ ھوتی تھیں، کیونکہ وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے. وضاحتیں بہت عمدہ طریقے سے دیتے تھے. انیس صاحب بزنس آرگنائزیشن پڑھاتے تھے، لیکچر کا مضمون سے ھٹ کر تعلق ھوتا تھا. بولتے کچھ تھے اور کتاب میں کچھ اور ھی ھوتا تھا. بس کتاب پڑھ کر رٹا ھی لگانا حل تھا.

سارا سارا دن اکاؤنٹس کے سوالات حل کرنے میں لگ جاتا تھا، رٹا لگانے والے مضامین پر وقت ضائع کرنا فضول تھا، اسلئے تعلیمی روش میں تبدیلی کر لی تھی. ان مضامین کے نوٹس تمام ساتھیوں سے مل کر اکٹھا کرنا شروع کر دئے تھے، تاکہ امتحانات سے دو ماہ قبل ان مضامین پر رٹا لگا لیا جائے گا. میرے تمام ھی ساتھی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور پڑھائی مکمل کرکے کچھ بننا چاھتے تھے، اس لئے ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کرتے تھے.
اب نئے دوستوں میں بھی اضافہ ھونا شروع ھو گیا تھا. نصیر، اصغر، سعید، بلر اور پرویز کے علاوہ اور بھی کئی دوست بن چکے تھے. فلم بینی کا شوق بھی پورا ھو رھا تھا اور کچھ کچھ ھوتا میں یکطرفہ پیچھا جاری تھا اور رفتہ رفتہ باتیں کھل رھی تھیں. لیکن کوئی مثبت پیشرفت نہ تھی.والدہ صاحبہ ان دنوں کافی علیل تھیں، انکو آرتھرائٹس کی تکلیف رھتی تھی.
گھر کے کام کاج ھم بہن بھائی مل کر لیتے تھے. سب بہن بھائی تعلیم بھی حاصل کر رھے تھے میرے علاوہ انکی تعلیم کے اخراجات بھی مالی پریشانی کا سبب تھے. سب ھی بہن بھائی حساس ھونے کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ کا شکار تھے، کیونکہ گھریلو ناچاقی بھی ایک وجہ تھی. شکر یہ تھا کے سب ھی ذمہ داری سے تعلیم پر توجہ دے رھے تھے. تاکہ گھریلو مالی حالات مستحکم ھو سکیں.
عزیرو اقارب کے ھاں بھی آنا جانا رھتا تھا.
منجھلی پھوپھی قلعہ لچھمن سنگھ سے اندرون لاھور بھاٹی گیٹ منتقل ھو گئیں تھیں. وہ ایک مثالی جوائنٹ فیملی میں رھتی تھیں. ھمارے پھوپھا منیر صاحب ایک چہار طرفی علم کا خزانہ تھے. کسی بھی ٹوپک پر بات کرتے تھے تو ان کے علم کا اندازہ ھو جاتا تھا. بہت سے علمی مسائل ان سے زیر بحث آتے تھے، ایک تو ھمیں حل مل جاتا تھا اور پھر دیگر علوم کی معلومات ھو جاتی تھیں، کیونکہ انکا علم مصدقہ ھوتا تھا.
وہ دفتر سے فارغ ھو کر کتب بینی بہت کرتے تھے. ماشاءاللہ ان کے چھ بھائی، بڑے تھے اور ایک چھوٹی بہن تھی. آپس میں اتنا پیار محبت اور سلوک تھا کہ شاید لوگ یقین نہ کریں. دراصل گھر کا سربراہ سب سے بڑا بھائی تھا، جو اللہ کا ولی تھا. سارا گھرانہ کٹر دینی گھرانہ تھا. انکے والدین بھی انتہائی منکسرالمزاج تھے. سب سے بڑے بھائی کو علاقے کے لوگ بھاجی کہتے تھے.
وہ کسی زمانہ میں عدلیہ میں رجسٹرار رہ چکے تھے. بس کسی مجذوب اللہ والے نے انکی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی. انتہائی خوبصورت باریش اللہ کے ولی بن چکے تھے. عیدین کے علاوہ وہ سارا سال روزے رکھتے تھے. تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور روزانہ ایک گلاس دودھ کا پی کر روزہ رکھتے تھے، پھر حضرت علی ھجویری رحمتہ علیہ کی مسجد میں جاکر وظائف ادا کرتے تھے.
فجر کی نماز کے بعد اشراق کی نماز ادا کرکے گھر لوٹتے تھے. بھاٹی گیٹ کے دوکاندار انکی آمد سے پتا چلاتے تھے اور ھر کوئی آگے بڑھ کر ان سے ھاتھ ملانے میں فخر محسوس کرتا تھا. ریسرچ شدہ ضخیم قرآنی تفاسیر کا خزانہ انکے گھر میں بنائے ھوئے حجرہ میں موجود ھوتا تھا. طبیعت بہت جلالی تھی اور اصول پرستی میں انکا کوئی ثانی ابھی تک تجربہ سے نہیں گزرا.
نماز مغرب کے بعد کسی کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی. عصر سے مغرب تک زبان بندی ھوتی تھی، کیونکہ انکے وظائف کا وقت ھوتا تھا. انکی زوجہ محترمہ نے از خود علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن طلاق نہ ھوئ تھی. میں ان سے بہت مانوس تھا اور انکی ولیوں والی زندگی سے بہت متاثر تھا کہ زندگی میں ایک خالص اللہ والا ملا تھا. جب کبھی جانا ھوتا یہ ھی کہتے تھے، نمازیں ادا کرو، قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت کیا کرو اور اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالٰی کا ذکر کیا کرو.
پھر یہ ھی حکم دیتے آکر رات رھنا ھے تو ٹھیک اگر نہیں تو مغرب سے پہلے چلے جاؤ. انکی کوئی اولاد نہ تھی، میری پھوپھی کے بچے ھی انکی اولاد تھی. انکے تمام بھتیجوں سے میرا تعارف اور دوستی ھو چکی تھی اور تعلیمی میدان میں مقابلہ جاری رھتا تھا. نصری سے زیادہ تعلقات ھو گئے تھے وہ بی اے کر رھا تھا. بعد میں وہ بنک آف بہاولپور میں ملازم ھو گیا تھا.
خالد، امجد اور فتح اللہ جو بھاجی کے بھتیجے تھے، ان سے بھی سرسری تعارف تھا. انکے علاوہ انکے بھائی وحید کے بیٹے اکرام اور انعام سے بھی تعارف تھا، لیکن وہ عمر میں بہت کمسن تھے. ایک اور بھائی حفیظ کے بیٹوں لطفی اور سمیع اللہ سے بھی پیار محبت تھی. سب ھی تعلیم حاصل کر رھے تھے. خوب تعلیم میں مقابلہ ھوتا تھا. کچھ میری طرح کامرس میں تعلیم حاصل کر رھے تھے، کوئی میڈیکل کر رھا تھا، کسی نے انجینئرنگ اپنا لی تھی.
عموماً مختلف تقاریب میں ملاقات ھو جایا کرتی تھی.
جن میں فریحہ پرویز سنگر کے والد پرویز جو میرے ننھیال سے تعلق رکھتے تھے خصوصی دوستوں میں شامل تھے.بی کام پارٹ ٹو میں مجھے میرٹ کے بنیاد اور مالی امداد کے طور پر حبیب بنک کی طرف سے 72 روپے ماہانہ وظیفہ ملنا شروع ھو گیا تھا. بس کیا تھا، عیش ھی عیش تھی. ادائیگی نیشنل بنک یونیورسٹی برانچ کے ذریعے ھونی تھی اسلئے وھاں زندگی کا سب سے پہلا بنک اکاؤنٹ کھلوایا تھا.
خوش قسمتی سے وھاں ایک قریبی عزیز کے دوست بنک کے مینیجر تھے. انکو انکل جی کہہ کر اعتماد میں لیکر بنک سے پیسے مل جاتے تھے. صلاح الدین بھی عموماً فلمیں دکھا دیا کرتا تھا. اب خالہ کنیز کی فیملی کو بھی ایک دو فلمیں گیلکسی سینما اچھرہ روڈ میں بمعہ انٹرٹینمنٹ دکھائیں تھیں. جس سے بہت ھی محظوظ ھوتے تھے. گھر والوں کو صرف اتنا بتایا تھا کہ فل فیس معاف ھو گئی تھی.
اب ان پیسوں سے فیس بھی ادا کرتا تھا، کتابیں بھی خرید لی تھیں، سائیکل کو فٹ رکھتا تھا اور فلم بینی بھی ھو جاتی تھی.حسب معمول اس سال سردیوں کی چھٹیوں میں کالج کی طرف سے کراچی ٹور کا پروگرام بنا تھا اور ٹور سیکیورٹی جمع کروا دی تھی. مجاھد مرزا کسی وجہ سے نہ جا سکا تھا. ریاض اس دفعہ اس ٹور میں شامل تھا. اس دفعہ بدر جہانگیر بطور صدر کالج یونین اور لیکچرار رشید صاحب کی رھنمائ میں 22 دسمبر 1966 کو رات دس بجے بذریعہ کراچی ایکسپریس روانگی ھوئی.
وافر بجلی کی وجہ سے الیکٹرک ٹرین متعارف ھوئے ابھی کچھ عرصہ ھی ھوا تھا. اخبارات میں بس یہ ھی پڑھنے میں آتا تھا کہ الیکٹرک پولوں سے ٹکرا کر اتنے مسافر مر گئے. دراصل لوگوں کو شعور ھی نہ تھا اور سفر کے دوران بوگی کے دروازے کھول کر لٹکنے کا شوق بہت ھوتا تھا. بدقسمتی سے سفر کے شروع میں ھی ایک اندوھناک سانحہ پیش آگیا تھا. جیسے ھی ٹرین نے دھرمپورہ نہر کو کراس کیا ھمارا ایک ساتھی جو ٹرین کا گیٹ کھول کر کھڑا تھا اور غیر ارادی طور پر پر گیٹ سے باھر جھانکنا چاھتا تھا،پول سے ٹکرا کر باھر گر گیا تھا.
ٹرین رک گئی تھی اور ایک گھنٹہ تک ٹرین رکی رھی. پھر سفر رواں دواں رھا تھا. جہانگیر بدر اور اس کے دو قریبی ساتھی وھیں اتر کر اسے ھسپتال لے گئے تھے. اس سانحہ کی وجہ سے ٹور کا مزہ کرکرا ھو گیا تھا اور ھر کوئی دعا گو تھا.
گانے، لطائف وغیرہ اور دیگر شور شرابہ تو نہ ھو سکا تھا. بس تاش کی بازیاں لگتی رھی تھیں. راستے میں ایک ساتھی کی جیب کٹ گئی تھی، اسلئے اسکا پھڈا پڑ گیا تھا.
کافی بد مزگی پیدا ھو گئی تھی. جن دو مسافروں شبہ تھا، پہلے سب نے انکی دھنائ کی پھر ریلوے پولیس کے حوالے کر دیا تھا. ماموں یونس برخوردار نانا حسین علی صاحب، جن سے دلی لگاؤ تھا. جب بھی وہ لاھور آتے، واحد میں انکے ھمراہ تمام عزیز و اقربا کے ھاں جاتا تھا. ٹرین لیٹ تھی اور چوبیس گھنٹوں کے بعد کراچی پہنچی تھی. کالج ٹور ٹیم اسلامیہ کالج نزد گلوب چوک روانہ ھو گئی اور میں اجازت لے کر ماموں یونس کے ھمراہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر پی ای سی ایچ سوسائٹی ماموں یوسف صاحب کے گھر جو ابھی ادھورا تھا، چلا گیا تھا.
ماموں یوسف صاحب کی فیملی اسلام آباد منتقل ھو چکی تھی. انکی اس زیر تعمیر گھر میں بڑے ماموں احمد علی کی فیملی عارضی طور پر مقیم تھی. نانا جی محمد علی اور نانی اماں بھی اسی گھر میں مقیم تھے. ماموں احمد علی ان دنوں منیلا فلپائن میں پاکستانی سفیر کے ساتھ منسلک تھے. میں گیارہ سال بعد کراچی آیا تھا. اگلے دن جہانگیر بدر اور دیگر دو ساتھی بھی دوسری ٹرین سے کراچی پہنچ گئے تھے.
ان سے معلوم ھو چکا تھا کہ ٹکرانے والے کا انتقال ھو گیا تھا. ماموں یونس صاحب مجھے سوسائٹی چھوڑ کر عزیز آباد اپنے گھر چلے گئے تھے. ماموں احمد صاحب کے بچوں اور بڑی ممانی صاحبہ سے تعارف ھوا. رات کا کھانا کھایا اور نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا.
صبح اٹھ کر ناشتہ کے بعد کزنز جاوید اور خلیل جو ابھی کافی کمسن تھے کے ھمراہ اسلامیہ کالج مختلف لوگوں سے رھنمائ لیتے لیتے پہنچے تھے.
اسکے عین سامنے چوک میں گلوب نصب تھا، جو ایک مستقل نشانی تھی اور سوسائٹی والے گھر کے سامنے قبرستان تھا. اس وجہ سے بھولنے کے چانسز بہت کم تھے.کالج کی ٹور ٹیم کو اسلامیہ کالج کی سب سے اوپر والی منزل پر ٹھہرایا گیا تھا. اس دن کالج کی طرف سے کوئی سیر کا پروگرام نہ تھا، اس لئے میں جاوید اور خلیل پیدل گرومندر پہنچے، وھاں سے روٹ نمبر 6 کی بس میں بیٹھ کر عزیز آباد ماموں یونس کے ھاں حاضری دی.
حال احوال کے بعد وھاں انکے چھوٹے بھائی کے ھمراہ چھوٹی پھوپھی کے ھاں عزیز آباد چلے گئے تھے، جو وھاں قریب ھی کرایہ پر رھتی تھی اور اسکے دو معصوم بچے نورالنبی اور نعیم تھے. وہ شاد باغ لاھور سے کچھ عرصہ پہلے کراچی شفٹ ھوئیں تھیں اور پھوپھا صاحب سیمین جرمن کمپنی میں ملازم تھے. وھیں سے نصری کی خالہ کے گھر چلے گئے جو قریب ھی رھتی تھی. وھاں سے ماموں امداد حسین صاحب کے گھر واقع جیکب لائنز پہنچے، وہ آئ بی اے میں ملازم تھے اور انہیں سرکاری رھائش گاہ ملی ھوئ تھی، جو عین مولانا احتشام الحق کی مسجد کے مغرب میں واقع تھی.
انکے ابھی تین بچے تھے اور ابھی کافی کمسن تھے. چائے پانی سے فارغ ھو ماموں امداد کے ھمراہ کراچی صدر کی سیر کو نکلے. کراچی کے پر رونق اور روشنیوں کے شہر کی ھوش و حواس میں خوب سیر کی. ماموں امداد صاحب اپنے مخصوص انداز میں طرح باندھ کر بازاروں سے متعارف کرواتے رھے. بہت ھی مزہ آیا تھا. کچھ دیر کے لئے جہانگیر پارک بیٹھ کر سستانے لگ گئے تھے، کیونکہ سارا دن سیر سپاٹے میں گزرا تھا.
وھاں سے سکس سیٹرز رکشا پر ایبے سینیا سے ھوتے ھوئے سوسائٹی گھر پہنچے. ان دنوں پکٹال کا قرآن کا انگلش ترجمہ میرے زیر مطالعہ تھا اسلئے میں اسے کراچی ساتھ لے آیا تھا اور رات کو ایک گھنٹہ تک ضرور پڑھتا تھا. کچھ دیر تک نانا محمد علی صاحب سے انکی پرانی یادداشتوں پر گپ شپ ھوتی پھر سو جاتے تھے.جاری ہے- (واقعات،مقام اور ناموں میں مشابہت اتفاقیہ ہوسکتی ہے)�

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles