Jehd E Musalsal - Qist 2 - Article No. 2432

Jehd E Musalsal - Qist 2

"جہد مسلسل" ۔ قسط نمبر2 - تحریر نمبر 2432

کالج کی طرف سے کراچی کا تفریحی دورہ ختم ھوتے ھی کالج کھل گئے تھے اور مجاھد مرزا سے ملاقات کرکے پچھلے دس دنوں میں اس نے پڑھائی میں جو پروگریس کی تھی

Arif Chishti عارف چشتی اتوار 13 ستمبر 2020

کالج کی طرف سے کراچی کا تفریحی دورہ ختم ھوتے ھی کالج کھل گئے تھے اور مجاھد مرزا سے ملاقات کرکے پچھلے دس دنوں میں اس نے پڑھائی میں جو پروگریس کی تھی زیر بحث آئی، کیونکہ وہ ٹور پر نہیں گیا تھا.ملکی حالات میں ایک نیا موڑ شروع ھو رھا تھا، کیونکہ ایوب خان کے خلاف لوگوں کے درمیان ایک خاص ایجنڈے کے تحت نفرت پھیل رھی تھی. کمیونزم، بعد میں سوشلزم اور پھر اسلامک سوشلزم کے نظریات کا چوری چھپے پرچار ھونا شروع ھو چکا تھا.
بابائے سوشلزم جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور وکالت کرتے تھے. انکا دفتر فرید کورٹ ھاؤس لاھور میں تھا.

(جاری ہے)

چار کرسیوں کے علاوہ ایک ٹوٹی پھوٹی میز کے علاوہ دیواروں پر ماؤزے تنگ کی تصاویر اور کچھ میگزینز ایک سائڈ ریک میں رکھے ھوتے تھے. مجاھد مرزا کے ھمراہ ایک دن کالج سے واپسی کے بعد ان سے ملاقات ھوئی تو اس وقت لینن اور ماؤ کے نظریات پر سیر حاصل گفتگو ھوئی تھی.

اسکے علاوہ ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف بھی تاشقند معاھدہ پر ذوالفقار علی بھٹو کے تحفظات، غربت و افلاس اور ملک میں مہنگائی پر خاصی گفتگو ھوئی تھی. اس وقت چند غریب لوگ ان کے پاس موجود تھے، جو انکی ھاں میں ھاں ملا رھے تھے. حکومت کے ظالمانہ رویہ کی وجہ سے ابھی یہ پرچار چوری چھپے ھو رھا تھا، کیونکہ حکومت کی ایجنسیاں نگرانی پر مامور تھیں.
ذوالفقار علی بھٹو بہت ذھین و فتین شخصیت کے مالک تھے. انہوں نے طلبہ، مزدور، کسان طبقہ اور غریب عوام کی سوچ کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا. اسکے علاوہ تمام علاقائی زبانوں اور رھن سہن پر دسترس حاصل کر لی تھی. ان طبقات نے بھٹو صاحب کو اپنا مسیحا مان لیا تھا اور اندھی تقلید شروع کر دی تھی. ھمارے گروپ کے کچھ دوستوں نے بھی دلچسپی ظاھر کی لیکن پہلی ترجیح تعلیم کا حصول تھا.
ماؤزے تنگ کا سرخ کتابچہ اور کورین میگزین ریکنسٹرکٹ پڑھنے کا موقع بھی ملا تھا. کمیون سسٹم پر بھی کافی آگاہی ھوئی تھی. ھم سب دوست درمیانہ درجے کے خاندانوں سے تعلق رکھتے، اس لئے اس نظریہ کے سپورٹر تو تھے. لیکن ھمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہ تھا. کیونکہ بھٹو صاحب ایک بہت بڑے جاگیردار تھے اور غرباء کو غربت سے نجات دھندہ ثابت کرنے کی کوشش کر رھے تھے.
جس نعرے نے غریب عوام کو انکا گرویدہ کیا تھا، وہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا. اسکے علاوہ معاھدہ تاشقند اور چینی کی قیمت میں دو آنے یا 13 پیسے اضافہ تھا. حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو تین بڑے ڈیم تعمیر ھو چکے تھے. راول اور حب ڈیمز پر کام جاری تھا. دوسرے پنج سالہ منصوبے پر عمل ھو رھا تھا. معاشی نقطہ نظر سے معاشی ترقی 'ٹیک آف' سٹیج کراس کر چکی تھی اور نئی انڈسٹریل سٹیٹس وجود میں آ رھے تھے.
ضرورت کی تمام اشیاء وافر مقدار میں موجود تھیں، البتہ 22 اشرافیہ خاندانوں کا ملک کے وسائل پر قبضہ تھا. جنکی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رھی تھی.
سب سے بڑا ھم طلبہ برادری کا نقصان تھا، کیونکہ ملک میں ھنگامہ آرائی شروع ھو چکی تھی اور امتحانات ملتوی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ھو گئے تھے. 'یوں سمجھیں غریبوں نے روزے رکھے اور دن لمبے ھو گئے تھے' .
پھر سخت گرمی میں برا حال تھا. دن رات کی پڑھائی کی وجہ سے صحت نے جواب دے دیا تھا. مجھے پہلے ملیریا اور بعد میں ٹائیفائیڈ ھو گیا تھا. ڈاکٹر فیاض صاحب جو ھمارے خاندانی ڈاکٹر تھے اور چچا صاحب کے گہرے دوست تھے، نے میرا علاج کیا تھا. دو ماہ بستر علالت پر گزارے تھے، لیکن پڑھائی ھر حال میں جاری رکھی تھی. ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ گرمی شروع ھوتے ھی اپریل کے مہینے میں ملیریا کی ادویات کا کورس کرنا ضروری ھو گیا تھا.
جسکی وجہ جسم میں قوت مداخلت کی کمی تھی اور طبیعت ضرورت سے زیادہ حساس تھی. مجاھد مرزا، ریاض بھائی اور عبدالغفور نے بیماری کے دوران بہت تعاون کیا تھا اور حوصلہ بھی بڑھا رھے تھے. یہ ان کا خلوص تھا. صحت یابی کے بعد پڑھائی پر ڈبل محنت کر رھی تھی، لیکن ایک عزم تھا کہ منزل تک ضرور پہنچنا ھے. خاندان کے افراد کہتے تھے، کہ امتحان کی فکر نہ کرو، جان ھے تو جہان ھے، امتحان تو بعد میں بھی دیا جا سکتا ھے.
اللہ تعالٰی نے صحت بحال کردی تھی اور منزل کی طرف روانگی جاری ھو گئی تھی. ایک دلچسپ واقعہ جو پیش آیا تھا زیر قلم ھے. حسب معمول میں اکاؤنٹنگ کے سوال حل کر رھا تھا کہ ریاض بھائی تشریف لائے اور خبر دی کہ وہ کل کالج گیا تھا. امتحانات کی ڈیٹ شیٹ نوٹس بورڈ پر لگ گئی ھے اسلئے طلبہ کالج آکر اپنی اپنی بی کام پارٹ (ٹو) کی امتحانی سلپس لے جائیں.
اسی وقت ھم دونوں سائیکل پر کالج روانہ ھوئے. سائیکل میں چلا رھا تھا اور ریاض بھائی آگے پائپ پر بیٹھے تھے. جیسے ھی سندرداس ٹھنڈی بانسوں والی سڑک پر پہنچے، ڈھلوان کی وجہ سے سائیکل یک دم تیز رفتار ھو گئی. ایک عذاب نے آ گھیرا، کسی نے بڑی شہد کی مکھیوں کے چھتے کو چھیڑ دیا تھا، ھر طرف سے ھزاروں مکھیاں حملہ آور ھو گئیں تھیں. پوری سڑک پر چند آدمی ھاتھ ھلا ھلا ان سے بچنے کی کوشش میں مصروف تھے.
میں نے سائیکل کی رفتار تیز کرنے کی کوشش کی، مگر بری طرح پھنس گئے تھے. سائیکل اور چشمے ایک طرف پھینک کر ادھر ادھر بھاگ رھے تھے اور مدد کے لئے چلا رھے تھے. مگر کوئی سننے والا نہ تھا. بائیں ھاتھ کی کچھ کوٹھیاں تھیں. انہوں سے مکھیوں سے بچاؤ کی خاطر کھڑکیاں دروازے بند کر دیئے تھے. ھم اس طرف چلا چلا کر مدد کے لئے پکار رھے تھے. مدد کی بجائے الٹا انکے کتوں نے بھی ھم پر حملہ کر دیا تھا.
لیکن مکھیوں نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور وہ کوٹھیوں میں واپس چلے گئے تھے. مکھیاں زیادہ تر چہرے اور آنکھوں پر حملہ کر رھی تھیں، اس لئے ھم نے قمیضیں اتار کر چہروں کو ڈھانپ لیا تھا اور اب کمر اور پیٹ پر انکا حملہ جاری تھا. ھم دونوں کا بہت ھی برا حال تھا. مکھیوں کے ڈنگ ھمارے جسموں میں پیوست ھو چکے تھے اور ھو رھے تھے. چیختے چلاتے نہر کے کنارے پہنچے وھاں کچھ آنے جانے انسان دوست لوگوں نے ھماری بہت مدد کی تھی.
فٹ پاتھ پر لٹا کر ھم پر نہر سے پانی لا کر چھڑکا رھے تھے. کیونکہ جسم میں آگ لگی ہوئی تھی. ریاض بھائی کیونکہ سائیکل کے پائپ پر آگے بیٹھا ھوا تھا، اسلئے اسکو مکھیوں نے زیادہ ڈنگ مارے تھے. اگر اس وقت ھماری مکھیوں سے نبرد آزمائی کی ویڈیو بنی ھوتی تو لوگ ھنس ھنس کر لوٹ پوٹ ھو جاتے. اور وہ لازماً وائرل ھو جاتی. ایک ھمدرد انسان نے ویسپا سکوٹر پر بٹھا کر ھم دونوں کو گھروں میں پہنچایا اور تسلی بھی دی کہ وہ سائیکل اور چشمے جو ھم سڑک پر پھینک آئے تھے، وہ بھی مل گئے تو پہنچا دیں گے.
اس وقت مکھیوں کی بہتات کی وجہ سے اس طرف جانا ناممکن تھا. گھر پہنچ کر پہلے مجھے نمک اور مٹی کا تیل ڈال کر گنگنے پانی سے نہلایا گیا، پھر ڈاکٹر غلام محمد چشتی صاحب سے انجیکشن لگوا کر لائے. دونوں کو 103 درجہ بخار ھوگیا تھا، جسم سوجھ کر کپا ھو گئے تھے. ریاض بھائی کی تو سوجن سے آنکھیں ھی بند ھو گئی تھی. ملنے والے خیریت پوچھ کر خوب مزے لے رھے تھے اور ھمدردی بھی کر رھے تھے.
مجاھد مرزا خیریت پتا کرنے آیا تو اس کو اتھارٹی لیٹرز دیکر رول نمبر سلیپس منگوائی تھیں. جولی کی ماما آنٹی بھی خیریت پوچھنے آتی رھی تھیں. کیونکہ وہ اچھے مستقبل کے لئے دعا گو تھیں. لیکن جولی کی طرف سے کوئی ھمدردی کا پیغام نہ ملا تھا. اللہ اللہ کرکے امتحانات سے پہلے صحت یابی ھوئی تھی. یونیورسٹی اولڈ کیمپس، امتحانی سنٹر بنا تھا. تمام ھی پرچے تسلی بخش ھوئے تھے ماسوائے انگلش کے لیکن پاسنگ مارکس ملنے کی قوی امید تھی.
امتحانات کے بعد کہیں بیرون شہر جانے کا کوئی پروگرام نہ تھا.
بس محلے کے دوستوں کے ساتھ ڈرائینگ روم میں گپ بازی ھوتی رھتی تھی. فضل الرحمن، انور اور کبھی مجاھد مرزا بھی آ جایا کرتا تھا. فلم بینی حسب معمول جاری تھی. انڈین فلموں کی نمائش بند ھو چکی تھی. لیکن چچا صاحب کے کچھ دوستوں کا تعلق فلم انڈسٹری سے بھی تھا. جو صرف اپنے خاندانوں کے لئے مخصوص فلمیں چوری چھپے کسی نہ کسی سنیما میں چلواتے تھے، تاکہ کوئی پکڑ نہ ھو.
مجھے صرف دو تین گھنٹے پہلے چچا صاحب مطلع کرتے تھے، تاکہ میں اکیلا ھی جا سکوں. میں فوری طور پر فضل الرحمن اور مجاھد مرزا اور کبھی کبھی مبارک کو مطلع کر دیتا تھا. اس طرح کئی فلمیں مفت دیکھنے کا ملتا تھا. کبھی کبھی صلاح الدین کی دوکان پر چلا جاتا تھا. پلازہ سینما کا مالک اسکا دوست تھا. وہ بھی چوری چھپے انڈین اور انگریزی فلموں کے چند دوستوں کو خوش کرنے کے لئے چلا دیتا تھا.
اس طرح صلاح الدین کی وساطت سے کئی فلمیں دیکھیں تھیں. بعض اوقات اسکی دوکان سے رحمان پورہ چلا جاتا تھا. اور شام کو براستہ جیل روڈ و مال روڈ واپسی ھوتی تھی.
بی کام پارٹ (ٹو) میں ھم سب دوست پاس ھو گئے تھے، ماسوائے ریاض بھائی کے وہ چار مضامین میں ناکام رھا تھا.بی کام (آنرز) پارٹ تھرڈ میں آسانی سے داخلہ ھو گیا تھا. خوشی اپنی جگہ تھی لیکن پہاڑ جیسا کورس جان نکالنے کے لئے کافی تھا.
اسی سال اصغر نامی کلاس فیلو سے دوستی ھو گئی تھی. جو بیڈن روڈ رھتا تھا اور ایڈوانس اکاؤنٹنگ میں کافی دسترس رکھتا تھا. سعید صاحب اکنامکس گروتھ اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے تھے. پڑھاتے کیا نوٹس لکھواتے تھے. جسکی رائٹنگ پاور تیز ھوتی تھی وہ ھی مکمل لکھ پاتا تھا، ورنہ آپس پر مل کر ھم جو کچھ رہ جاتا تھا پورا کر لیتے تھے. زیدی صاحب ایڈوانس اکاؤنٹنگ پڑھاتے تھے.
بس ایک دو پروبلم حل کروا دیتے تھے، باقی سب خود ھی کرنا پڑتا تھا. خواجہ امجد سعید صاحب انکم ٹیکس اور آڈیٹنگ و پروبلمز پڑھایا کرتے تھے. وہ بہت ھی قابل استاد تھے، انکے گھر بھی دو تین دفعہ جانا ھوا تھا. انکے سٹیڈی روم میں مختلف کتابیں کھلی ھوتی تھیں اور پیپر ویٹز اوپر رکھے ھوتے تھے. سب ھی انکی بہت قدر کرتے تھے. انداز تکلم بہت ھی منفرد تھا.
پرنسپل جناب مرتضیٰ صاحب ایڈمنسٹریشن اور مارکیٹنگ پڑھاتے تھے. تقریباً تمام ھی کتب میں نے خرید لی تھیں اور پھر امریکن سنٹر اور برٹش لائبریری میں بھی رجسٹریشن کروالی تھی. جہاں سے اکنامس گروتھ کے متعلق تازہ با تازہ معلومات حاصل ھو جاتی تھیں. تمام ھی لیکچرارز کا پڑھانے کا انداز مختلف ھی تھا اور میرے خیال میں اس وقت ایسا ھی بہتر تھا. اسی سال کالج یونین کی سیاست میں پہلی بار حصہ لیا تھا کیونکہ مجاھد مرزا سی آر کے الیکشن میں حصہ لے رھا تھا. اسلئے گزشتہ سالوں کے پڑھائی کے معمولات میں کچھ تبدیلی آ گئی تھی. اور پھر ایوب خان کے خلاف احتجاجی مظاہرے بڑھتے جا رھے تھے. مجاھد مرزا تو جیت نہ سکا تھا، لیکن ھمارا صدارتی امیدوار جہانگیر بدر جیت گیا تھا.

Browse More Urdu Literature Articles