Adal O Insaf - Article No. 1924

Adal O Insaf

عدل وانصاف - تحریر نمبر 1924

جب حجرا سود اپنے موقع پر آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک سے اس کو نصب کر دیا۔اس طرح یہ جھگڑا طے ہو گیا

بدھ 20 فروری 2019

نذیر انبالوی(ایم۔اے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35سال کے قریب تھی تو اس وقت کعبہ شریف کی قریش نے ازسر نو تعمیر شروع کی ۔اس مذہبی کام میں سب قبیلوں نے شرکت کی اور کام ختم ہو گیا۔جب حجرا سود لگانے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ نے چاہا کہ ہم حجرا سود اٹھائیں اور اس کی جگہ لگائیں ۔

اس کو رکھنے واسطے مباحثہ ہونے لگا۔ہر شخص یہی کہتا تھا کہ مجھے یہ فخر حاسل ہو ۔حتیٰ کہ جھگڑا طوالت پکڑ گیا ۔
اور ہر ایک آدمی کشت و خون پر اتر آیا۔آخر یہ قرار پایا کہ کل جو شخص مسجد حرام میں سب سے پہلے آئے گا اس کے بارے میں جو کچھ فیصلہ دے اس کی رائے پر عمل کیا جائے۔دوسرے دن فجر کو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تشریف لائے اور یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگیا۔

(جاری ہے)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر بچھا کر حجرا سود اس پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کے سردار آئیں اور چادر کے گوشے پکڑ کر اٹھائیں ۔
جب حجرا سود اپنے موقع پر آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک سے اس کو نصب کر دیا۔اس طرح یہ جھگڑا طے ہو گیا۔قریش آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انصاف سے نہایت مسرور ہوئے اور جنگ وجدل کے خیالات ان کے دلوں سے دور ہو گئے ۔
ہر ایک سردار راضی ہو گیا۔اور خوش خوش گھر آیا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو حرم کی زمین ہزاروں آدمیوں کے خون سے سرخ ہو جاتی ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ معظمہ میں ایک عورت جس کا نام فاطمہ تھا اس نے چوری کی ۔معاملہ سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا ۔
گولوگوں کو یہ خیال تھا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کے احکام میں کسی کی رعایت نہیں کرتے ضرور فاطمہ کو سزادیں گے ۔
مگر تاہم انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیار ے تھے ۔سفارش کرائی ۔ان کی سفارش کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘”اسامہ! کیا تم حدود الٰہی میں سفارش کرتے ہو ۔اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتی تو میں حد جاری کرتا۔
سوابن عمر کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درس کا رنگین کپڑا پہن کر گئے ۔
سر کار صلی اللہ علیہ وسلم نے حط حط فرمایا اور چھڑی سے ان کے شکم میں چونکا بھی دیا۔میں نے عرض کیا ۔
”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو قصاص لوں گا۔“سر کار نے جھٹ اپنا شکم مبارک میرے سامنے کر دیا۔
ایک دن ایک یہودی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قرض لیا تھا تقاضے کو آیا اور سختی سے مطالبہ کرنے لگا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے سختی سے جھڑک دیا۔
سر کار صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا۔عمر رضی اللہ عنہ تمہیں لازم تھا کہ میرے ساتھ اور اس کے ساتھ اور طرح برتاؤ کرتے ۔مجھے حسن ادائیگی کے لئے کہتے اور اسے حسن تقاضا سکھلاتے ۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا ‘”ابھی تو تین دن باقی ہیں ۔“پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا‘ا س کا قرض ادا کردو۔
(20صاع)زیادہ بھی دیناکیونکہ تم نے اسے بلاوجہ دھمکایا اور ڈرایا بھی ہے ۔
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے گھر میں تشریف فرماتھے ۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی دوسری بیوی نے ایک رکابی میں کھانا بھیجا ۔جس بیوی کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے اس نے غلام کے ہاتھ جب اس کو واپس بھیجنا چاہا تو وہ رکابی گرگئی ۔
اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س کے ٹکڑے جمع کئے اور خادم کے ہاتھ اس بیوی سے(جس کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے)دوسری نئی رکابی منگا کر اس بیوی ہاں (جس کی رکابی ٹوٹی تھی )بھجوادی اور ٹوٹی ہوئی رکابی اس بیوی کے گھر میں رکھ دی جس نے توڑی تھی ۔
مدینہ طیبہ میں ایک دن ایک مسلمان اور ایک یہودی میں جھگڑا ہوا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت وامانت اور عدل وانصاف کو دشمن بھی تسلیم کرتے تھے اور یہودی بر سر حق تھا۔
اس لئے اس نے مسلمان سے کہا کہ چلو تمہارے ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم صاحب جو فیصلہ کردیں وہ مجھ کو منظور ہے ۔آخر کا ر یہودی اس کو کشاں کشاں دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں لے آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کا کوئی پاس نہ کیا اور فورا ًیہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
عدل وانصاف کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ عزیز سے عزیز اورقریب سے قریب تعلق والا آدمی بھی اگر کوئی ہوتا تو ممکن نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کسی طرح رورعایت کریں ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاز اد بھائی ہونے کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے اور منظور نظر بھی ایسے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک معاملہ میں ان کی خاطر عزیز رکھتے تھے ۔
مگر عدل وانصاف کے بارے میں ان کے ساتھی بھی یہ حال تھا کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو بلا کر بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا۔
کیونکہ و ہ اس وقت کعبہ کے کنجی بردار تھے ۔داخلہ کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش ہوئی کہ بیت اللہ کی کنجی ان کو مل جائے ۔چنانچہ انہوں نے دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درخواست کی کہ کعبہ کی کنجی ہمارے حوالے کی جائے اور ہم کو کعبہ کا کنجی بردار بنایا جائے ۔
درخواست دینے والے ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور دوسرے داماد جن سے بڑھ کر کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار نہیں ہو سکتا۔
مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جس کا حق ہے اسی کے پاس رہے گا۔“اور کنجی اس کے حوالے کی ۔(باب النقول)اور کنجی دیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسم نے یہ بھی فرمایا کہ ”ہمیشہ کنجی برداری تمہارے پاس رہے گی۔“حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کے کلید مانگنے کی یہ وجہ تھی کہ ابتدائے ایام نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی عثمان بن ابی طلحہ سے فرمایا تھا کہ ”بیت اللہ کھول دو اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔

تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔اچھا تم دیکھ لینا کہ ایک دن یہ کلید میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا عطا کروں گا۔عثمان نے جوب دیا تھا کہ کیا اس روز قریش کے سب مرد ذلیل وتباہ ہو جائیں گے ۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ”وہ اور بھی زیادہ عزت واقبال سے ہوں گے ۔“ان دونوں صاحبوں کے دل میں اس بات کا خیال تھا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کے جواب میں فرمایا۔
”آج کا دن سلوک کرنے اور عطیات پورے کردینے کا ہے ۔“پھر عثمان کو بلایا اور فرمایا کہ ”جو کوئی تم سے یہ کلیدچھینے گا وہ ظالم ہو گا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ با سعادت میں ایک انصار ی کی زرہ آٹے میں رکھی ہوئی چوری ہو گئی اور آٹے کا کھوج پہلے ایک مسلمان طمعہ اور پھر ایک یہودی کے گھر تک لگا۔اور زرہ یہودی کے گھر سے برآمد ہوئی ۔
یہودی نے کہا کہ طمعہ رکھ گیاہے طمعہ سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں بری ہوں چور وہی ہے ۔طمعہ کی قوم نے رات کو مشاورت کی کہ ہم سب مل کر دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں چلیں اور اس کی صفائی کی شہادت دے آئیں ۔
تاکہ طمعہ بری ہو جائے اور جب ہم سب مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ضرور حمایت کریں گے اور یہودی کو چور ٹھہرائیں گے ۔صبح کو وہ تمام مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے ۔یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی طمعہ کے چور ہونے کی اطلاع دے دی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صاف فرمادیا کہ میں انصاف میں کسی کی رو رعایت نہیں کر سکتا۔فی الحقیقت چور طمعہ ہی ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles