Aik Pegham Totay Ke Naam - Article No. 1705

Aik Pegham Totay Ke Naam

ایک پیغام طوطے کے نام - تحریر نمبر 1705

ایران کا ایک سوداگر تجارت کے لئے ہندوستان گیا تو وہاں سے ایک خوبصورت، میٹھی آواز کا مالک اور دل پسند اداؤں کا مالک باتیں کرنے والا طوطا خرید لایا۔

جمعہ 18 مئی 2018

ایران کا ایک سوداگر تجارت کے لئے ہندوستان گیا تو وہاں سے ایک خوبصورت، میٹھی آواز کا مالک اور دل پسند اداؤں کا مالک باتیں کرنے والا طوطا خرید لایا۔ وہ طوطا اپنی دلربا باتوں سے نہ صرف تاجر بلکہ ہر خاص و عام کو خوش رکھتا۔ایک دفعہ تاجر تجارت کی غرض سے دوبارہ ہندوستان جانے لگا تو اس نے اپنے اہل خانہ سے ان کی فرمائیشیں پوچھیں تو ساتھ طوطے سے بھی پوچھا کہ بتاؤ تمھاری فرمائیش کیا ہے؟ طوطے نے کہا میری صرف یہ درخواست ہے کہ دوراں سفر تم فلاں دریا کے پار ہو جاؤ گے تو تمھیں وہاں ایک پُرفضا مقام نظر آئے گا وہاں میرے ہم جنس طوطوں کو سلام کہنا اور کہنا تمھاری قوم کا فلاں طوطا میری قید میں ہے اور تمھاری ملاقات کو جی ترس گیا ہے۔
تم آزادی کے ساتھ سبزہ زاروں کی سیر کرتے ہو لیکن تمھیں اپنے غریب الوطن ساتھی کی کوئی خبر نہیں۔

(جاری ہے)

کیا اس کا نام دوستوں کی وفا ہے کہ تم عیش کرو اور میں یہاں پنجرے میں پڑا رہوں اور انھیں کہنا کہ وہ اپنی آزادی کے بارے میں مشورہ طلب کرتا ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ تمھاری ملاقات کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔سوداگر سفر کرتا ہوا طوطے کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچا تو طوطوں کے بولنے کی آوازیں سنیں اور ان سے مخاطب ہو کر کہا اے طوطو! اپنے ایک بچھڑے ہوئے بھائی کا پیغام سن لو۔

وہ تمھیں سلام کہتا ہے اور وہ تم پر افسوس کرتا ہے کہ تم کو اس کے بغیر سبز شاخوں پر جھولنا کیسے بھاتا ہے۔۔۔۔؟ ابھی سوداگر اپنی بات مکمل ہی کر پایا تھا کہ درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا ایک طوطا پھڑ پھڑانے لگا پھر بیدم ہو کر زمین پر آ گرا، اس کا جسم تھرانے لگا اور بے جان ہو گیا۔ سوداگر نے جب طوطے کو اس حالت میں دیکھا تو سوچا کاش طوطے کا پیغام ان تک نہ پہنچاتا کہ شائد یہ اس کا کوئی عذیز تھا جو اس کی قید کی خبر سن کر برداشت نہ کر سکا اور مر گیا۔

تاجر جب تجارت سے واپس آیا تو سب اہل خانہ کو ان کے دل پسند تحفے دئیے تو طوطے نے پوچھا میری فرمائیش پوری کی۔ میرے ہم جنسوں نے تجھے کیا پغام دیا اور تو نے کیا دیکھا؟ سوداگر نے ایک سرد آہ بھری اور کہا، نہ پوچھ ورنہ تجھے صدمہ ہو گا۔ کاش تیرا پیغام ان طوطوں کو نہ دیتا کہ اس وجہ سے خود کو مذمت کرتا ہوں۔ طوطا بولا اے مالک ایسی خدانخواستہ کیا بات ہوئی کہ تُو مجھے بتانے سے ہچکچاتا ہے بے تکلف بیان کر جو ہونا تھا ہو گیا۔
مالک بولا کہ تیرے بتائے ہونے مقام پر گیا اور تیرا پیغام دیا تو ایک طوطا جو تیرا عزیز تھا وہ تیرا پیغام سن کر برداشت نہ کر سکا اور تیرے غم میں زمین پر گر کر مر گیا۔ شائد اسے تیری گرفتاری کا اتنا رنج ہوا کہ اس کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔جب سوداگر کے طوطے نے یہ سنا تو اس کے بدن میں تھر تھری پیدا ہوئی، آنکھیں پتھرا گئیں اور صرف ہائے کی آواز نکلی اور اس نے قفس کے اندر تڑپنے ہوئے جان دے دی۔
مالک نے جب اپنے طوطے کی یہ حالت دیکھی تو ٹوپی سر سے اتار دی اور غم سے نڈھال ہو گیا اور روتا جاتا اور کہتا کہ اے خوش بخت طوطے یہ تجھے کیا ہو گیا یہ تو نے کیا کیا کہ مجھے داغ جدائی دے گیا۔ کاش میں یہ قصہ تجھ کو نہ سناتا۔ غرض وہ دیر تک طوطے کے غم میں روتا رہا۔پھر پنچرے کا دروازہ کھولا اور مرے ہوئے طوطے کو قفس سے نکال دیا ، باہر پھینکنا تھا کہ طوطا پھڑ پھڑاتا ہوا اُڑا اور دیوار پر جا بیٹھا۔
سوداگر کو سب معاملہ بھول گیا اور وہ حیران و ششدر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور پھر طوطے سے پوچھنے لگا اے خوش جمال پرندے یہ تو بتا کہ اس ہندوستان والے طوطے نے تجھے ایسا کیا پیغام دیا کہ تو نے اپنے مکر و فریب سے اس قفس سے آزادی پا لی۔ طوطا بولا! میرے بھائی طوطے نے مجھے سبق دیا اور اپنے عمل سے بتایا کہ میں قید سے کس طرح رہائی پا سکتا ہوں۔
مین نے اس پیغام کو سمجھا اور اس نے مجھے اشارہ دیا کہ اپنی میٹھی بول چال ترک کر کہ تو اپنی اس میٹھی اور سحر انگیز آواز کے تحت قفس میں گرفتار ہوا ہے پھر اس نے میری آزادی کے لئے خود کو مردہ بنایا کہ اے نادان پرندے ہر کس و ناکس کے دل کو خوش کرنے والے مردہ بن جا، تا کہ قید سے نجات پائے۔
طوطے نے یہ کہہ کر اپنے اصلی وطن کا رخ کیا اور ایک دن اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔

Browse More Urdu Literature Articles