Banda Kia Janay K Libas Main Kaun Hai - Article No. 1356

Banda Kia Janay K Libas Main Kaun Hai

بندہ کیا جانے کہ لباس میں کون ہے؟ - تحریر نمبر 1356

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سیاحت کے شوقین تھے اور وہ چند برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔وہ دوران سفر ایک دوسرے کی تکالیف اور آرام کا خاص خیال رکھتے تھے۔میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے بھی وہ اپنا ہم سفر بنا لیں تو وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔

منگل 4 جولائی 2017

حکایاتِ سعدی:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سیاحت کے شوقین تھے اور وہ چند برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔وہ دوران سفر ایک دوسرے کی تکالیف اور آرام کا خاص خیال رکھتے تھے۔میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے بھی وہ اپنا ہم سفر بنا لیں تو وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔
میں نے ان سے کہا کہ بزرگوں کے اخلاق کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ وہ فقیروں کی صحبت سے دریغ کریں۔
میں انشاء اللہ عزوجل اپنی طبیعت کے اعتبار سے چاک و چوبند اور چالاک ہوں آپ حضرات پر بوجھ نہ بنوں گا۔اگرچہ میں کسی سواری پر سوار نہیں مگر آپ کی سواری کی زین اٹھانے والا ضرور بنوں گا۔
ان حضرات میں سے ایک نے کہا کہ اگر محسوس نہ کریں تو درحقیقت ہم اس لئے انکار رہے ہیں کہ اس سے قبل ایک چور درویش کے روپ میں ہمارے درمیان آگیا تھا اور جب وہ ہم سے گھل مل گیا تو پھر وہ ہمارا قیمتی سامان چرا کر بھاگ گیا۔

(جاری ہے)

بندہ کیا جانے کہ لباس میں کون ہے اور خط لکھنے والے کو ہی علم ہے کہ اس نے کیا لکھا ہے؟درویش چونکہ بے ضرر ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے اس پر بدگمانی نہ کی اور اس کی دوستی کو قبول کرلیا۔
درویشوں کی ظاہری علامت گوڈری ہے اور کسی کو درویش سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے اگرچہ دکھاوے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟عمل کی کوشش کرو‘لباس جو بھی ہو سر پر تاج اور کندھے پر جھنڈا۔
دنیا‘شہوت اور لالچ کو ترک کرنا ہی تقویٰ ہے نہ کہ گوڈری پہن لینا۔جنگی لباس پہننے سے بندہ بہادر نہیں ہو جاتا بلکہ بہادر ہونا جنگی لباس کے لئے اولین شرط ہے اور جنگی لباس اگر ہیجڑے پہن لیں تو ان کے لئے اس لباس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایک رات ہم سفر کررہے تھے اور سفر کے دوران ایک قلعہ کی دیوار کے نیچے سو گئے اس بدتمیز چور نے ایک ساتھی کا لوٹا لیا کہ میں اس میں استنجا کر آؤں اور ساتھ ہی سارا سامان بھی لوٹ کر لے گیا۔
اس کو دیکھو جس نے گوڈری پہن لی گویا غلاف کعبہ کو گدھے کی جھول بنادیا۔
درویشوں سے اوجھل ہو اتو ایک گنبد میں گھس کر ایک ڈبیہ چرالی۔دن ہونے تک وہ دور جا چکا تھا اور سب ساتھی سوئے ہوئے تھے۔
صبح تمام ساتھیوں کو قلعے میں بلا کر مارا پیٹا گیا اور قیدکر دیا گیا۔پس اس دن سے ہم نے جان لیا کہ کسی کو ساتھ نہیں رکھنا اور تنہائی کا راستہ ہی بہتر ہے اور اسی میں سلامتی ہے۔
اگر پوری قوم میں ایک بھی نادان ہو تو کسی چھوٹے بڑے کی عزت باقی نہیں رہتی۔کیا تم نہ دیکھا نہیں کہ چراگاہ گاؤں کی تمام گایوں کو آلودہ کر دیتا ہے۔
میں کہا کہ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ میں نے درویشوں سے کچھ فائدہ حاصل کیا اگرچہ بظاہر میں آپ کے ساتھ سفر نہیں کر سکا مگر آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ تمام عمر میرے کام آتا رہے گا۔محفل میں ا گر ایک بدتمیز آجائے تو ساری محفل پریشان ہو جاتی ہے اور اگر ایک حوض کو گلاب سے بھردیا جائے اور اس میں کتا گرجائے تو پورا حوض ناپاک ہوجاتا ہے۔

مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے محتاط رہنا چاہیے خواہ وہ درویشوں کے روپ میں کیوں نہ ہوں۔کسی پر اعتبار کرنے کے لئے اس کے لباس اور رہن سہن پر نظر رکھنا ضروری نہیں بلکہ اس کی عادات واطوار اور اخلاق پر نظر رکھنا چاہیے۔

Browse More Urdu Literature Articles