Hasad Ki Badolat - Article No. 1973

Hasad Ki Badolat

حسد کی بدولت - تحریر نمبر 1973

ایک دن ایک آدمی نے سلطان محمود سے پوچھا کہ جناب آپ ایک آدنیٰ غلام ایاز کو اپنے تیس امیروں کے برابر کیوں سمجھتے ہیں؟ ہ

جمعہ 22 مارچ 2019

اکثر اوقات انسان کی ذہانت و فطانت، امانت و دیانت، کامل فرماں برداری ہی اس کی دشمن بن جاتی ہے۔ ایاز کی بھی انہی خوبیوں نے اس کے بے شمار دشمن اور حاسدین پیدا کردیے تھے جن کے دلوں میں اُس کے لیے نفرت و کدورت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ دوسری طرف سلطان محمود، ایاز پر ہی اعتبار کرتا اور اسے اپنے بہت قریب رکھتا تھا۔
ایک دن ایک آدمی نے سلطان محمود سے پوچھا کہ جناب آپ ایک آدنیٰ غلام ایاز کو اپنے تیس امیروں کے برابر کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم سب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اکیلے ایاز میں کیسے تیس آدمیوں کی عقل و دانش مندی ہوسکتی ہے؟
سلطان محمود اُس وقت خاموش رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔

کچھ دن بعد سلطان نے شکار کے ارادے سے اپنے تیس امیروں کو ساتھ لیا اور جنگل کی طرف روانہ ہوا۔

(جاری ہے)

راستے میں ایک قافلہ نظر آیا تو سلطان نے اپنے ایک امیر کو حکم دیا کہ وہ اس قافلے کے پاس جائے اور ان سے پوچھ کر آئے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ امیر اس قافلے کے پاس گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر بتایا کہ ’’قافلہ شہر سے آرہا ہے‘‘۔ سلطان نے پوچھا کہ ’’قافلے والوں کو جانا کہاں ہے؟‘‘ امیر اس سوال کا جواب نہ دے سکا کیوں کہ اس نے قافلے سے یہ بات معلوم ہی نہ کی تھی۔


پھر سلطان نے دوسرے امیر کو بھیجا کہ وہ معلوم کرکے آئے قافلے کی منزل کہاں ہے؟ دوسرا امیر کچھ دیر میں جواب لے آیا کہ ’’قافلہ یمن جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
سلطان نے پوچھا ’’ان کے پاس سامانِ سفر کیا کیا ہے؟‘‘ امیر جواب نہ دے سکا کیونکہ اس نے یہ قافلے والوں سے پوچھا ہی نہ تھا۔
سلطان نے پھر تیسرے امیر کو روانہ کیا کہ ’’دیکھ کر آئو ان کے پاس کتنا سامان ہے؟‘‘ امیر فوراً معلوم کرکے آیا کہ ان کے پاس ضرورت کا ہر سامان موجود ہے۔
سلطان نے دوبارہ پوچھا کہ ’’قافلہ شہر سے روانہ کب ہوا تھا؟‘‘ امیر نے شرمندگی سے سر جھکا لیا کیوں کہ اس نے یہ معلوم ہی نہ کیا تھا۔
مختصر یہ کہ سلطان نے اپنے تمام امیروں کو قافلے کے پاس بھیجا اور سب ایک ایک سوال کا ہی جواب لاتے، قافلے سے مکمل معلومات حاصل کرنے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ سب کے سب ناقص العقل ثابت ہوئے۔ سلطان نے ان امیروں سے کہا ’’تم لوگوں کو اعتراض تھا کہ میں نے ایاز کو تم سب کے برابر رتبہ کیوں دے رکھا ہے؟ میں تب تو خاموش رہا تھا، مگر اب میں جواب دوں گا۔
میں نے تم سب سے چھپ کر ایاز کو پہلے قافلے کے پاس بھیجا تھا اور جن تیس سوالوں کا جواب تم سب باری باری تیس چکروں میں لے کر آئے ہو، ایاز ان تیس سوالوں کا جواب ایک ہی مرتبہ میں لے آیا تھا۔ اب تم سب کو معلوم ہوا کہ ایازکو اتنی قدر و منزلت کیوں حاصل ہے؟‘‘
یہ سن کر سب امیر شرمندہ ہوگئے اور اپنے کیے کی معافی مانگی اور کہا ’’بلاشبہ ہم ایاز کی برابری نہیں کرسکتے۔ اس کی ذہانت و فطانت خداداد صلاحیتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو حُسن اور مٹی کو سُوندھی سُوندھی خوشبو عطا کی ہے۔‘‘
درسِ حیات:
سو سنار کی ایک لوہار کی۔
(حکایت رومیؒ)

Browse More Urdu Literature Articles