Hazoor SAW Ki Aakhri Wasiyat - Article No. 1939

Hazoor SAW Ki Aakhri Wasiyat

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت - تحریر نمبر 1939

سر کار دو عالم حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرض وصال میں بیحد کمزور ہو گئے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیمار ہو جانے کے غم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نہایت پریشان تھے ۔انہیں گھروں میں چین نہ آتا تھا

جمعہ 1 مارچ 2019


سر کار دو عالم حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرض وصال میں بیحد کمزور ہو گئے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیمار ہو جانے کے غم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نہایت پریشان تھے ۔انہیں گھروں میں چین نہ آتا تھا‘مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد دیوانہ وار پھرتے تھے ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی ماجرا عرض کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بٹھاؤ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دے کر بٹھایا ‘تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا‘انصارکیا کہتے ہیں ؟عرض کی گئی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید اس مرض میں ہم سے جدا ہو کر دار القرار میں تشریف لے جائیں گے ۔

(جاری ہے)

پھر معلوم ہمارا کیا حال ہو گا۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے‘ایک ہاتھ دوش علی رضی اللہ عنہ پر رکھا اور دوسرا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تشریف لائے اور منبر پرخطبہ ارشاد فرمایا ۔شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے دیوانہ وار فدا ہونے کو حاضر تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بلال رضی اللہ عنہ! شہر میں اعلان کردو کہ سب جمع ہو جائیں تا کہ میں انہیں وصیت کروں آخری وصیت۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ روتے ہوئے چلے اور مدینہ کے گلی کو چوں میں اعلان کر ایا۔تمام لوگ بے قراری کے عالم میں دوڑتے چلے آئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ اب میرا وقت رحلت قریب ہے اور میراخیال ہے کہ تم مجھ سے بہت جلد جدا ہونے والے ہو‘سچ بتاؤ کہ جب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا تو تم کس طرح رہو گے
؟
یہ سن کر تمام حاضرین روپڑے۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک کہرام بپا ہو گیا‘سب نے روتے ہوئے عرض کی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی دل و جان سے پیروی کریں گے اور قرآن کو اپنا دستور العمل بنائیں گے۔اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ کہو میں نے تم کو کس طرح احکام پہنچائے تمہاری وجہ سے کیا کیا مصیبتیں برداشت کیں ۔
میرے دانت تم نے توڑے ‘میرے چہر ے کو خون میں رنگا‘جاہلوں سے گالیاں سنیں ‘بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے اور صبر سے رہا۔
سب نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ صابر اور انتہائی شاکر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے احکام ہم تک بلا کم وکاست پہنچا دےئے۔ہمیں گمراہی سے نکال کرراہ ہدایت پر لگایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خدا سے ملا دیا اس کی جزا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ دے گا۔
ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ دینے کی کچھ طاقت نہیں رکھتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘یا اللہ! تو اس پر گواہ ہو جا۔پھر فرمایا‘میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ جس کسی کا قرض میرے ذمے ہو وہ ابھی وصول کرلے ۔جس کسی کو میں نے مارا ہووہ ابھی مجھ سے بدلہ لے لے ۔حقوق العبادمیں سے جس کا مجھ پر کوئی حق باقی ہو ابھی صاف صاف کہہ دے اور لے لے میں نہیں چاہتا کہ یہاں کا معاملہ قیامت کے دن کے لئے باقی رہ جائے۔

کوئی شخص اپنے د ل میں یہ خیال نہ کرے کہ اگر اس وقت میں اپنا حق لوں گا تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف ہو گا۔یاد رکھو‘عداوت میرے دل میں اللہ نے پیدا ہی نہیں کی ۔
میں اس کو اپنا دوست جانتا ہوں جو اپنا حق ابھی مجھ سے طلب کرلے یا مجھے معاف کر دے ۔اتنا فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور نماز ظہر ادا فرمائی ۔
پھر منبرپر آئے اور یہی اعلان دوبارہ فرمایا ۔
ایک شخص اٹھا ۔عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے تین درہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ہیں ۔فرمایا میں تجھے نہ جھٹلا تا ہوں نہ قسم دلاتا ہوں لیکن اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس معاملے کے ہیں ؟
وہ شخص بولا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک دن کوئی سائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سائل کو تین درہم دے دو۔میں نے اس سائل کو تین درہم دے دےئے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے تین درہم ادا کئے جائیں ۔فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے تین درہم ادا کر دےئے۔
اسی مجلس میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔انہوں نے عرض کی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصرار کے ساتھ فرماتے تھے ۔
اس لئے مجبوراً عرض کرتا ہوں کہ اگر اب نہیں کہتا تو گنہگار ٹھہرتاہوں ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناقہ پر تازیانہ ماررہے تھے وہ میرے شانہ اور پشت پر لگا تھا اور مجھے اس سے سخت تکلیف پہنچی تھی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب اس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔
حضور صلی اللہ نے فرمایا جزاک اللہ اے عکاشہ ! اچھا ہوا کہ تم نے ابھی کہہ دیا قیامت پر نہ چھوڑا۔
میں دنیا میں بدلہ دینے کو زیادہ پسند کرتاہوں بمقابلہ آخرت کے ۔اے عکاشہ ! تمہیں معلوم ہے کہ وہ تازیانہ (چابک )کون سا تھا؟عکاشہ نے عرض کی ۔ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی کا دستہ اور خیز ران سے گتھا ہوا اور تسمہ درہ کی صورت میں اس کے آگے تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ۔وہ چابک میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہے جاؤ اور جلدی لے کر آؤ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا الزہرا کے مکان پر پہنچے ان سے تازیانہ طلب کیا۔حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اے سلمان رضی اللہ عنہ ! میرے اباجان بخار میں مبتلا ہیں ‘سواری کرنے کی طاقت نہیں ‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیانہ کس لئے طلب فرمایا ہے ؟سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سب ماجرا کہہ سنایا ۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کرروپڑیں اور یوں دعا کی یا اللہ جو شخص اس وقت میرے ابا جان سے قصاص طلب کررہا ہے تو اس کے دل میں رحم ڈال دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت نحیف ہیں ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تازیانہ لے کر مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے۔صحابہ کرام تازیانہ دیکھ کر چیخ اٹھے ادھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔
جلدی جاؤ۔
ایک ایک تازیانہ کے عوض سوسوتازیانہ اپنے اوپر لے لو‘اپنے نانا جان پر فدا ہو جاؤ۔دونوں شہزادے جب مسجد میں آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گر یہ سے مسجد گونج رہی تھی اور صرف عکاشہ ہاتھ میں تازیانہ لئے کھڑے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے ‘اے عکاشہ! جس طرح میں نے تجھے تازیانہ مارا تھا اسی قوت سے مجھے مار لو۔
یہ دیکھ کر تمام صحابہ کرام حضرت عکاشہ کے گرد ہو کر کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تازیانہ مارنے کی بجائے ہم سب کو ایک ایک سوتازیانہ مارلو۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ نے روکر پکارا کہ اے عکاشہ! ہمارے نانا جان کا بدلہ اور کسی سے نہ لوہم حاضر ہیں ہم دونوں کو سوسوتازیانہ مارلے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہزادوں کو گود میں لے کر فرمایا‘جان پدر‘تم یہ خیال نہ کرو‘قصاص مجھ پر واجب ہے ۔
میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔پھر عکاشہ سے فرمایا کہ جلدی کر اور اپنا بدلہ لے ۔عکاشہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس دن میری پشت برہنہ تھی ۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت مبارک سے کپڑا ہٹا دیا۔حسن رضی اللہ عنہ ‘حسین رضی اللہ عنہ اور سب حاضرین کی چیخیں نکل گئیں ۔
حضرت عکاشہ تازیانہ ہاتھ میں لئے آگے بڑھے‘قریب پہنچے‘مہر نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر پڑی تازیانہ پھینک دیا اور بیتاب ہو کر مہر نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کوچومنے لگ گئے ‘پھر وارفتہ ہو کر پروانہ وار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد طواف کرتے ہوئے بولے۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ‘عکاشہ کے ہاتھوں میں یہ ہمت نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے سکیں ۔عکاشہ تو دل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عکاشہ! یہ کیا؟عکاشہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ حیلہ میں نے اس لئے کیا تا کہ مہر نبوت
صلی اللہ علیہ وسلم کو چوم سکوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا بدن میرے بدن سے چھوگیا اسے (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا قصور معاف فرمادیں ۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔یہ آخری دعا تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات دنیوی میں فرمائی۔

Browse More Urdu Literature Articles