Jeenay Ki Hawas - Article No. 1228

Jeenay Ki Hawas

جینے کی ہوس - تحریر نمبر 1228

میں دمشق کی جامع مسجد کی سڑھیوں پر بیٹھا کسی عملی مسئلے پر دوستوں سے گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا :

جمعرات 9 مارچ 2017

شرف الدین شیخ سعدی:
شیخ سعدی بیان کرتے ہیں :
میں دمشق کی جامع مسجد کی سڑھیوں پر بیٹھا کسی عملی مسئلے پر دوستوں سے گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا :
آپ لوگوں میں سے کوئی فارسی زبان بھی جانتا ہے ؟
میں نے سوال کیا :
تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو ؟
اس نوجوان نے کہا :
ایک بوڑھا جس کی عمر ڈیڑھ سول سال ہے ، جاں بلب ہے اور فارسی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے ، ممکن ہے وصیت کر رہا ہو ۔

یہ سن کر میں اس کے ساتھ ہولیا ۔ جا کر دیکھا تو ایک بوڑھا مرض الموت میں بڑبڑا رہا ہے ۔
میری خواہش ہے کہ میں ابھی کچھ اور جی لوں ، مگر افسوس کہ پیغام اجل آپہنچا۔ میں ابھی عمر کے خوان پر بیٹھا ہی تھا کہ مجھے اٹھ جانے کا حکم ہوا ہے ۔

(جاری ہے)


میں نے بوڑھے کی باتوں کا مطلب سمجھایا تو وہ نوجوان بہت حیران ہوا کہ اتنی عمر پا کر بھی اس کے دل میں زندہ رہنے کی ہوس ہے ۔


بوڑھا بولا :
” تم اس شخص کی تکلیف سے آگاہ نہیں ہوسکتے جس کا دانت اکھاڑا جارہا ہو، اور نہ اس شخص کی تکلیف کا اندازہ کرسکتے ہوجس کی جان نکل رہی ہو ۔
میں نے کہا :
اے بزرگ ! آپ اپنے روبروموت کا احساس طاری نہ ہونے دیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ موت کے قریب پہنچے جانے والے صحت یاب ہوجاتے ہیں ، آپ کی منشا ہو تو کسی طبیب کو بلایا جائے ؟
بوڑھا بولا :
طبیب بوڑھے مریض کو دیکھ کر علاج سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے ۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ مالک مکان کو ٹھڑیوں کی آرائش کی فکر میں ہے ، اور سیلاب پشتوں کو کھو کھلا کر رہا ہے ۔ ایک بوڑھا نزع کے عالم میں رو رہا تھا اور اس کی بیوی اس کے صندل لگا رہی تھی ، جب مزاج کا اعتدال قائم نہیں رہتا تو ہر تدبیر ناکام ہوجاتی ہے ۔
شیخ سعدی نے اس حکایت میں انسان کی اس کمزوری یا نادانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خواہ کتنی لمبی عمر بھی پائے زندگی سے اس کی طبیعت سیر نہیں ہوتی ۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے خاص رنگ میں یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ موت امرربی ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا ۔

Browse More Urdu Literature Articles