Jism Ki Dunya Se Nikal Jaa - Article No. 1068

Jism Ki Dunya Se Nikal Jaa

جسم کی دنیا سے نکل جا - تحریر نمبر 1068

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک سارنگی نواز کوگریہ زاری کرتے اور استغراق میں محودیکھ کر فرمایا کہ تیرایہ رونا تیرے ہوش کی علامت ہے۔

ہفتہ 11 جون 2016

حکایات رومی رحمتہ اللہ علیہ:
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک سارنگی نواز کوگریہ زاری کرتے اور استغراق میں محودیکھ کر فرمایا کہ تیرایہ رونا تیرے ہوش کی علامت ہے۔ اس کے بعد اس کو اس حالت سے ہٹایا اور استغراق کی جانب لائے۔ گزشتہ واقعات کویاد کرنا اورآئندہ کی فکر کرنادرحقیقت اللہ عزوجل سے حجاب ہے۔
کب تک تو اس طرح گریہ زاری ہے کرے گا؟ جب تک بانسری میں گرہ ہے ہمراز نہیں بن سکتی۔ جب تک تو خودی کے چکر کے ساتھ طواف کرے گا تو مرمد رہے گا۔ خودی کے ساتھ تو طواف کعبہ شریک ہے۔ ماضی اور مستقبل کے واقعات پر نہیں ان کے پیدا کرنے والے پر نظر رکھ۔ تیری خبریں خبر دینے والے سے غیر متعلق ہیں۔ تیری توبہ بھی ایسی حالت میں گناہ سے بدتر ہے۔

(جاری ہے)

فنا کاراستہ تو دوسرا راستہ ہے اس میں ہوشیاری بھی گناہ ہے ۔

خود کی حالت میں توبہ کرنے سے توبہ کرو۔ کبھی تو نرم آواز کو قبلہ بناتے ہو اور کبھی پھوٹ پھوٹ کر روزنے کا بوسہ لیتے ہو۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سارنگی نواز کے لئے اسرار کاآئینہ بن گئے اور اس کی جان باطن سے بیدار ہوگئی۔ بوڑھا روح کی طرح گریہ سے آزاد ہوگیا ۔ ایک جان چلی گئی اور دوسری جان زندہ ہوگئی۔ اس کے باطن میں ایک حیرانگی بیدار ہوئی جس سے وہ زمین وآسمان سے باہر ہوگیا اور اس کی جستجو کسی کی نہ تھی بلکہ انجذابی تھی جس کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔
وہ جلال ذوالجلال میں مستغرق ہوگیا اور جو کچھ ذات باری تعالیٰ کے متعلق کہا گیا ہے تقاضائے غیبی کی بناء پر کہا گیا ہے ورنہ اس کی شرح بیان نہیں ہوسکتی۔
بوڑھے کاحال یہاں تک پہنچا تو اس کی جان کل میں ڈوب گئی۔ اس نے گفتگو سے دامن جھاڑ اور آدھی بات کہی اور آدھی بات اس کے منہ میں رہ گئی۔ اس عیش وعشرت کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں جانیں قربان کردینی چاہیں۔
انسان کے جسم میں جان اور روح جاری پانی کی مانند غیب سے پہنچتی رہتی ہے اور دنیا سے ” چل“ کی آواز آتی رہتی ہے۔ یہی حال انسان کی روح کا ہے یہ غیب سے سنتی ہے کہ جسم کی دنیا سے باہر نکل اور نئی دنیامیں آکر آباد ہوجا۔
مقصود بیان:
مولانا محمدجلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ روح انسان کے جسم میں ایک قیدی کی مانند ہے اور وہ آزاد ہونے کی کوشش وسعی کرتی رہتی ہے۔ انسان خودی میں مبتلا ہوکر جو بھی عبادت کرتا ہے وہ ریاکاری کہلاتی ہے اور خودی کی حالت میں کعبہ کاطواف بھی شرک ہے اور اللہ عزوجل شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کرسکتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles