Katil Ki Talasah - Article No. 2002

Katil Ki Talasah

قاتل کی تلاش - تحریر نمبر 2002

شیر شاہ سوری کا دور نظم ونسق کے لحاظ سے ایک مثالی دور تھا۔اس کے دور میں کوئی جاگیردار یا زمیندار کسی بھی کاشتکار پر زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔وہ اپنے امراء اور اعیان سلطنت کو ہر لمحہ عدل واحسان کی تلقین کرتا

اتوار 7 اپریل 2019

نذیر انبالوی(ایم ۔اے)
شیر شاہ سوری کا دور نظم ونسق کے لحاظ سے ایک مثالی دور تھا۔اس کے دور میں کوئی جاگیردار یا زمیندار کسی بھی کاشتکار پر زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔وہ اپنے امراء اور اعیان سلطنت کو ہر لمحہ عدل واحسان کی تلقین کرتا اور رعایا کو حقیر جاننے سے روکتا رہتا ۔جو نہی کوئی مظلوم ‘کمزور اور بے بس آدمی اس سے فریاد کرتا تو وہ ہر کام چھوڑ کر اس کی فریاد سنتا ۔

اس نے اپنے پہرہ داروں کو یہ مستقل حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی کوئی مظلوم ہمارے دروازے پر آئے اور ہمیں پکارے خواہ کوئی بھی وقت ہو اور ہم کیسے بھی مصروف ہوں اسے ہمارے پاس لے آؤ۔وہ کہا کرتا کہ میرے نزدیک ظالم سب سے بڑا مجرم ہے اور سب سے بڑا گنہگار ہے ۔بادشاہ رعایا کا نگہبان ہوتا ہے اور اس پر اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کی حفاظت لازم ہے
۔

(جاری ہے)


اگر میں یہ ذمہ داری نہ نباہوں گا توخدا کے ہاں کیا جواب دوں گا۔ اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے اس نے پوری قلمروکو ایک لاکھ سولہ ہزار پر گنوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر پگنہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک فرض شناس‘شقدار‘ایک افسر مال‘ایک محتسب ‘ایک بڑے قاضی اور ایک بڑے حساب دان کو مقرر کیا تھا ۔کیا مجال تھی کہ ان حکام میں سے کوئی حاکم رعایا کے ساتھ زیادتی کرپاتا۔
اس نے قابل اعتماد پرچہ نویس مقرر کر رکھے تھے جو اسے ہر حاکم کی ہر حرکت سے باخبر رکھتے تھے ۔
اس نے ہر علاقہ میں وہاں کے معتبر آدمی کو بحیثیت مقدم کے مقرر کیا تھا ۔جو علاقے میں امن وامان بر قرار رکھنے کے ذمہ دار تھے ۔اگر کسی جگہ قتل ہو جاتا یا ڈاکہ پڑجاتا تو قاتلوں اور ڈاکوؤں کا سراغ لگانا ان کی ذمہ داری تھی ۔اس سختی اور انتظام نے ملک سے قتل وراہزنی کا نام ونشان مٹا دیا تھا اور لوگ چین اور اطمینان سے زندگی گزارتے تھے ۔
ایک دن شیر شاہ سوری کے سامنے ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا جس میں قاتل کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ یہ قتل اٹاوہ کے کسی علاقے میں ہوا تھا ۔شیر شاہ سوری نے مقدمے کی سماعت کی ۔
اس نے اٹاوہ کے شقدار کو حکم بھیجا کہ جس علاقہ میں قتل ہوا ہے اس کے آس پاس واقع کسی درخت کو دو آدمی بھیج کر کٹوائے اور جو سرکاری عامل اس درخت کے کاٹنے کی اطلاع پر کر آئیں انہیں پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دو۔
شقدار نے شاہی فرمان کے مطابق دو آدمی درخت کاٹنے کے لئے موقعہ واردات پر بھیجے۔وہ ابھی درخت کاٹ ہی رہے تھے کہ علاقے کے مقدموں اور معتبروں نے انہیں موقع پر آن پکڑا۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس اشخاص نے درخت کاٹنا چھوڑ دیا اور ان معتبروں کو شاہی فرمان کے مطابق پکڑ کر بادشاہ کے حضور لے گئے ۔صبح کے وقت جب شیر شاہ سوری دربار میں آیا تو ان معتبروں کو پیش کیا گیا ۔

بادشاہ نے ان سے دریافت کیا کہ تمہیں درخت کٹنے کی خبر تو ہو گئی لیکن ایک انسان کی گردن کٹ گئی اور تم اس سے بے خبر رہے ۔میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔
تین دن کے اندر اندر قاتل کو پیش کر دو ورنہ سزا میں تم قتل کر دیے جاؤ گے ۔معتبروں کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور تیسرے دن کا سورج ابھی طلوع بھی نہ ہوا تھا کہ قاتل شاہی دربار کے دروازے پر زنجیروسلاسل میں جکڑے ہوئے حاضر تھے ۔
عدل وانصاف کی اس پاسداری کی وجہ سے برصغیر کاہر دیانت دار مورخ شیر شاہ سوری کانام ادب سے لیتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles