Koi Bari Bat Nahe - Article No. 1969

Koi Bari Bat Nahe

کوئی بڑی بات نہیں - تحریر نمبر 1969

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ سے کہیں سفر کو روانہ ہوئے۔اثنائے سفر میں آپ یہودیوں کے ایک گاؤں پہنچے۔آپ نے دریافت کیا۔آیا یہاں کسی مسلمان کا گھر بھی ہے ۔جواب ملا

منگل 19 مارچ 2019

نذیر انبالوی(ایم۔اے)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ سے کہیں سفر کو روانہ ہوئے۔اثنائے سفر میں آپ یہودیوں کے ایک گاؤں پہنچے۔آپ نے دریافت کیا۔آیا یہاں کسی مسلمان کا گھر بھی ہے ۔جواب ملا‘ہاں۔یہاں ایک بدو مسلمان رہتا ہے جو بے حدغریب ہے ۔آپ اس کے ہاں پہنچے‘اس غریب بدو
نے اپنی بیوی سے کہا‘ایک مہمان آگیا ہے اس کے کھانے کا کچھ انتظام کرو۔

بیوی نے جواب دیا‘
گھر میں سوائے جو کے تھوڑے سے آٹے کے اور کچھ نہیں ہے۔
شو ہر بولا‘کہیں سے گندم کا آٹا ادھار لے آؤ۔بیوی نے پاس پڑوس سے گندم کا آٹا ادھار لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔گھر آکر اپنے شوہر سے بولی ‘گندم کا آٹاتو کہیں سے نہیں مل سکا۔مجبوراً جو کی تین روٹیاں پکا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دی گئیں۔

(جاری ہے)

آپ نے سوچا کہ اس شخص کے تین بچے ہیں اور دویہ میاں بیوی خود‘یہ پانچ ہوئے اور چھٹا میں شامل ہو گیا ہوں اور روٹیاں صرف تین ہیں ۔یہ سوچ کر آپ نے چھٹا حصہ یعنی آدھی روٹی خود کھا کر باقی واپس کردیں کہ خود کھائیں اور بچوں کو کھلائیں ۔جب آپ رخصت ہونے لگے تو فرمایا‘تم کسی دن مدینہ آنا اور عمر کا نام پوچھ کر مجھے ملنا۔
کچھ مدت بعد اس بدو کی بیوی نے اصرار کیا کہ مدینہ جا کر عمر رضی اللہ عنہ سے ملے وہ شخص مدینہ پہنچا اور آپ سے ملا۔
اس وقت آپ کا تجارتی قافلہ مدینہ میں پہنچ رہا تھا۔بہت سے اونٹوں پر مال لدا ہوا تھا۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے وہ سب اونٹ بمعہ مال ودولت اس بدو کوبخش دیے۔وہ بدواپنی خوش بختی پر نازاں وفرحاں واپس لوٹ گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ماجرا بیان کیا اور عرض کی ‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیا میں نے اس میزبان بدو کی میزبانی کاحق ادا کر دیا۔

سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عمر رضی اللہ عنہ حق تو شاید اس ایک لقمہ کا بھی ادانہ ہوا۔کیونکہ اس غریب نے تمہاری مہمان نوازی کے لئے ادھار لینے سے بھی دریغ نہ کیا تھا اور اپنی بساط سے زیادہ تمہاری خدمت کی تھی ‘لیکن تمہارے لئے اونٹوں کی قطار مال ومتاع سمیت دے دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
میں نے بدلہ لے لیا
دنیا جانتی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انصاف کے معاملے میں کسی سے بھی رو رعایت نہ فرماتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کا عدل وانصاف امیروغریب اور والی ورعیت میں قطعاً کوئی تمیز نہ کرتا تھا ۔ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت محمد بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کسی بات پرناراض ہو کر ایک مصری شخص کو تازیانے مارے وہ مارتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے ”لے“میں بڑوں کی اولاد ہوں۔“ان دنوں حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے ۔
انہوں نے جب اپنے بیٹے کا یہ فعل دیکھا تو اس مصری کو قید میں ڈال دیا کہ مباداوہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے کی شکایت نہ کردے۔
لیکن جب وہ شخص قید سے رہا ہوا تو سیدھا مدینہ منورہ پہنچا اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مصری کو تو اپنے ہاں ٹھہرالیا اور حضرت ابن العاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو مصر سے بلا کر مجلس قصاص میں طلب فرمایا لیا۔
جب دونوں باپ بیٹا مجلس قصاص میں پیش ہوئے تو حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا‘
مصری کہا ہے؟جب مصری آیا تو آپ نے فرمایا‘لے یہ درہ پکڑ اور بڑوں کی اولاد کو مار۔
اس مصری شخص نے درہ اپنے ہاتھ میں لیا اور حضرت محمد بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کو درے مارنے شروع کر دیے اور اس قدرمارے کہ وہ بے دم ہو گئے۔مصری ان کو مارتا جاتا تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے جاتے تھے۔
”بڑوں کی اولاد کو مار۔“جب وہ مصری دل بھر کر ان کو مار چکا اور درہ امیرالمومنین کو واپس کرنے لگا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا‘عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کی کھوپڑی پر بھی مار‘اللہ کی قسم! بیٹا تجھے ہر گزنہ مارتا اگر اسے اپنے باپ کے اقتدار کا گھمنڈنہ ہوتا۔“
حضرت ابن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا‘امیرالمومنین رضی اللہ عنہ! آپ بھر پور سزا دے چکے ہیں۔
اس پر مصری شخص بھی بولا‘کہ اے امیر المومنین! جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے ۔یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘اللہ کی قسم ! اگر توابن العاص رضی اللہ عنہ کو مارتا تو میں اس وقت تک درمیان میں نہ آتا جب تک کہ تو خود ہی اپنا ہاتھ روک نہ لیتا۔اس کے بعد حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر غضب ناک انداز میں فرمایا ‘اے عمروبن العاص
(رضی اللہ عنہ)! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنایا حالانکہ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles