Maut Ki Takleef Jism Ki Hoti Hai - Article No. 1219

Maut Ki Takleef Jism Ki Hoti Hai

موت کی تکلیف جسم کو ہوتی ہے - تحریر نمبر 1219

حضرت سید نابلال رضی اللہ عنہ کمزور ہوگئے اور ان کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا : ہائے میں لٹ گئی ۔ آپ رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے اب تک میں زندگی کی مصیبتوں میں مبتلا تھا اور تو کیا جانے کہ

جمعرات 2 مارچ 2017

حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
حضرت سید نابلال رضی اللہ عنہ کمزور ہوگئے اور ان کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا : ہائے میں لٹ گئی ۔ آپ رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے اب تک میں زندگی کی مصیبتوں میں مبتلا تھا اور تو کیا جانے کہ موت کس قدر عمدہ اور آسائش والی شے کانام ہے ۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ گلاب کی مانند دمک رہا تھا اور آنکھوں میں موجود نور اس بات کی گواہی دے رہا تھا جن لوگوں کے دل سیاہ ہوتے ہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ کو سیاہ فام کہتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ کالا رنگ حقارت کی دلیل نہیں اور آنکھ کی پتلی بھی سیاہ ہوتی ہے ۔

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو آنکھ کی پتلی جیسا فضلیت والا وہی کہہ سکتا ہے جس کو تمام انسانوں میں وہ مرتبہ ومقام حاصل ہو جوآنکھ کی پتلی کو تمام اعضاء پر حاصل ہے ۔

(جاری ہے)

آپ رضی اللہ عنہ کے خصائل سے واقف حضور نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہوسکتے ہیں اور ان کے حقیقی مرتبہ سے وہی واقف ہیں نہ کہ عام لوگ جوان کے مرتبہ کو تقلیدی طور پر ہی جانتے ہیں ۔


حضرت سیّدبلال رضی اللہ عنہ کی بیوی بولی کہ آپ رضی اللہ عنہ تنہا رخصت ہو کر مسافر بن رہے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے دور ہورہے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایساہرگز نہیں بلکہ آج رات میری جان سفر کے بعد واپس لوٹ رہی ہے ۔ بیوی بولی کہ یہ تو بڑے دکھ کا مقام ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ تو خوشی نصیبی ہے ۔ بیوی بولی کہ اب ہم آپ رضی اللہ کا چہرہ کیسے دیکھ سکیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب میں بارگاہ الٰہی میں ہوں گا اور اس کا حلقہ ہر ایک کے ساتھ پیوستہ ہے ۔
اگر تو اپنی نظر بند کرے اور پستی کی جانب نہ جائے تو اس حلقہ میں نور الہٰی اس طرح چمکتا ہے جس طرح انگوٹھی میں جڑانگینہ ۔ میں اب معارف اور اسرار کاخزانہ بن گیا ہوں اور اس جسم میں اسے سنبھالنے کی سکت نہیں ہے ۔ میں جب گدا تھا تب میری روح اس جسم میں سماسکتی تھی اب جبکہ میں معارف کا شاہ بن گیا ہوں تو اس کے لئے وسیع جگہ کی ضرورت ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام بھی اسی وجہ سے دنیا کو ترک کر کے آخرت کی جانب روانہ ہوئے ۔
جو لوگ مردہ دل ہوتے ہیں ان کے لئے دنیا عزت کی جگہ ہے اور اہل دنیا کے لئے وسیع جبکہ اہل باطن کے لئے تنگ ہے۔ اگر دنیا تنگ نہیں ہے تو پھر یہاں کے رہنے والوں میں ہنگامہ آرائی کیسی ہے ؟ یہاں تنگی کااحساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان سوتاہے او روسعت کے باوجود یہ دنیا اسے تنگ محسوس ہوتی ہے ۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ظالموں کے چہرے بظاہر خوش ہوتے ہیں لیکن ان کی روح تنگی کی وجہ سے آہ وبکا میں مشغول ہوتی ہے ۔
اولیا ء اللہ کی روح عالم بیداری میں اسی طرح آزاد ہوتی ہے جس طرح عوام الناس کی روح نیند کے وقت اور ان کی مثال اصحاب کہف سی ہے جودنیاوی اعتبار سے تو نیندمیں تھے اور اخروی اعتبار سے بیدار تھے ۔
حضرت سیّد بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زندگی کی حالت میں روح جسم میں ٹیڑھی رہتی ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ٹیڑھا ہوتا ہے ۔ جس پر موت کی تکلیف ایسی ہی ہے جس طرح بچہ کی پیدائش کے وقت ماں کو دردزہ کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے ۔
موت کے بعد روح پرواز کرتی ہے اور موت کی تکلیف جسم کو ہوتی ہے اور روح اس درد کی قید سے آزاد ہوتی ہے ۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے کے درد سے ناواقف ہے ماسوائے اہل اللہ کے جو کہ اللہ عزوجل کی رحمت سے ہر ایک کے احوال سے واقف ہوتے ہیں ۔
مقصودبیان :
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ یہاں موت اور اس کی حقیقت کے متعلق بیان کر رہے ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جب ان پر موت وار ہوئی تو انہوں نے کس طرح ہنسی خوشی موت کو قبول کیا اور اللہ عزوجل کے نیک بندے موت کو اپنے لئے انعام سمجھتے ہیں جبکہ کفار کے لئے موت باعث عذاب ہے ۔
اللہ عزوجل کے نیک بندوں کی موت درحقیقت ان کے لئے کسی انعام سے کم نہیں ہے اور وہ موت کے بعد ملنے والے مراتب اور انعامات سے واقف ہوتے ہیں اس لئے ان کی موت نہایے اطمینان والی ہوتی ہے جبکہ کفار جب مرنے لگتے ہیں تو ان کو وہ ذلت کے گڑھے دکھا دیئے تھے جن میں وہ گرنے والے ہیں اس لئے ان کی موت ان کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles