Mohabbat Aur Karvi Cheez - Article No. 1713

Mohabbat Aur Karvi Cheez

محبت اور کڑوی چیز - تحریر نمبر 1713

انسان کو ہر حال میں مالکِ حقیقی کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔ معمولی معمولی تکلیفوں پر شور و غوغا اور لعن طعن نہیں کرنا چاہیۓے لگا۔

پیر 28 مئی 2018

لقمان اگرچہ سادہ صورت اور سیاہ فام تھے لیکن خدا کے احکامات سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے محبت کی روشنی ان کے چہرے پر ہالہ کئے رہتی۔ ان کا آقا ان سے بے حد متاثر تھا۔ اس لیۓ ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ کیونکہ اس پر لقمان کی خوبیاں واضح ہو گئیں تھیں۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ غلام حرص و ہوس سے پاک ہے۔ اس کے دل میں کھوٹ نہیں ، اس کی زبان سچ کے سوا کچھ نہیں کہتی۔

بظاہر وہ امیر لقمان کا آقا تھا لیکن حقیقت میں وہ ان کا غلام ہو چکا تھا۔ جب خواجہ نے لقمان کے اسرار پا لیۓ تو وہ کوئی شے نہیں کھاتا تھا جب تک لقمان نہ کھاۓ ۔
ایک دن امیر کے کسی دوست نے ایک بڑا ہی خوش رنگ خربوزہ تحفے میں بھیجا۔ خواجہ نے لقمان کو بلایا اور خود اپنے ہاتھ سے خربوزہ کاٹ کاٹ کر ان کو دینے لگا۔

(جاری ہے)

لقمان خواجہ کے ہاتھ سے خربوزے کی قاش لے کر شہد اور شکر کی طرح کھانے لگا۔

اسی طرح ہر قاش بڑی رغبت سے کھا رہے تھے۔ خربوزے کی آخری قاش خواجہ نے اپنے منہ میں ڈالی۔ جونہی اس نے یہ قاش اپنے منہ میں ڈالی سارا منہ حلق تک کڑوا ہو گیا۔ پھر جلدی سے تھوک دیا، پانی منگوایا اور خوب کلیاں کیں۔ گلے سے دیر تک اس کی کڑواہٹ نہ گئی اور منہ کا مزہ خراب ہو گیا۔ پھر خواجہ نے نہایت تعجب سے لقمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: ''عزیزم! نہایت ہی ترش، کڑوے اور زہریلے خربوزے کی غالبا سترہ قاشیں تو نے بڑے مزے اور رغبت سے کیونکر کھا لیں، اپنی جان کا دشمن کیوں بنا، اگر تو اس کے کھانے میں کوئی عذر کر دیتا تو کیا حرج تھا ؟ اور نہ ہی تم نے بہانہ بنا کر ٹالنے کی کوشش کی جبکہ اس کی کڑواہٹ سے میرا منہ اور حلق جل گیااور میرا منہ بدذائقہ ہوگیا۔
''
لقمان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو گۓ۔ حکیمانہ انداز میں یوں عرض کرنے لگے:'' آقا! اتنے پیارے ہاتھوں سے محبت کے ساتھ آپ مجھے کھانے کو دے رہے تھے کہ مجھے تلخی کا احساس تک نہ ہوا ۔ یہ سوچ کر تلخ قاشیں کھائیں کہ ساری عمر اس ہاتھ سے انواع و اقسام کی لذیذ نعمتیں کھاتا رہا ہوں تو صد حیف ہے مجھ پر کہ صرف ایک کڑوا خربوزہ کھا کر اودھم مچانے لگوں اور ناشکری کا اظہار کروں۔
حقیقت یہ ہے کہ تیرے شیریں ہاتھ نے اس خربوزے کی تلخی چھوڑی ہی کہاں تھی کہ میں لفظِ شکایت سے اپنی زبان آلودہ کرتا۔''
''محبت'' سے کڑوی چیز میٹھی ہو جاتی ہے۔ محبت سے تانبا سونے میں ڈھل جاتا ہے۔ محبت سے خارگل بن جاتے ہیں۔ محبت سے سرکہ شراب بن جاتا ہے۔ چنانچہ شکر گزاری کے لیۓ یہ بھی ضروری ہے کہ جس مقام سے انسان پر احسانات کی بارش ہو اگر تکلیف آجاۓ تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیۓ۔
درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں مالکِ حقیقی کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔ معمولی معمولی تکلیفوں پر شور و غوغا اور لعن طعن نہیں کرنا چاہیۓ۔(حکایات رومی)

Browse More Urdu Literature Articles