Nasaihe Nabwi - Article No. 1938

Nasaihe Nabwi

نصائح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم - تحریر نمبر 1938

ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اجتماع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے۔فجر کی نماز ہو چکی تھی ۔وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے

جمعہ 1 مارچ 2019

نذیرانبالوی(ایم۔اے)
ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اجتماع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے۔فجر کی نماز ہو چکی تھی ۔وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے چند باتیں اچھی طرح سیکھ لے پھر ان پر عمل بھی کرے اور دوسروں کو ان کی تعلیم بھی دے ؟“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فوراً کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کی تعلیم دیں میں ان پر عمل کروں گا اور لوگوں کو ان کی تعلیم بھی دوں گا۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ کلمات ارشاد فرمائے۔فرمایا”حرام سے بچنا تم سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔

(جاری ہے)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تمہیں مل جائے اس پر راضی ہو جانا تم سب سے زیادہ غنی ہو جاؤ گے ۔اپنے پڑوسی سے حسن سلوک کرنا تم حقیقی معنوں میں مومن بن جاؤ گے۔ جو اپنے لئے پسند کرتے ہووہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرنا تم سچے مسلمان بن جاؤ گے ۔

زیادہ نہ ہنسنا ورنہ تمہارا دل مردہ ہو جائے گا۔“ترندی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان باتوں کو سنا پھر لوگوں تک پہنچایا ۔
عبادات کے دو پہلو ہیں ۔ایک مثبت اور دوسرا منفی ۔مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر پورے خلوص سے عمل کیا جائے اور اس کی اجزا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے اور منفی پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے کامل پر ہیز کیا جائے ۔
عبادت نور ہے اور حرام تاریکی ۔نور اور تاریکی ایک دل میں نہیں ہو سکتے ۔اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا بھی کمال کی دلیل ہے ۔ساتھ ہی طمانیت قلب کا سامان ۔اس لئے کہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کی قضا کے نفاذ کو روک سکتی ہے نہ ٹال سکتی ہے ۔اس لئے اس کا حل صرف اس میں ہے کہ تقدیر الٰہی سے موافقت اختیار کی جائے اور اس کی تقسیم پر راضی رہا جائے۔

یہ رضا بالقضاء انسان کو تو کل اور قناعت کا سبق دیتی ہے اور پھر اسے دنیا ومافیہا سے بے نیاز دیتی ہے ۔پڑوسی کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پڑوسی سے نیک سلوک کرنے کی مجھے اتنی مرتبہ تاکید کی کہ مجھے تو خیال ہونے لگا تھا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں حصہ مل جائے گا اور یہ جو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند کیا کرو اس میں بھی وہی اخوت و محبت اور باہمی ہمدردی ومواخات کے پاکیزہ جذبات کوپروان چڑھانے اور اسے مسلم معاشرے میں عام کرنے کی حکمت ومصلحت پوشیدہ ہے ۔
جو اسلام کا مقصود اولیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں سب سے بڑی عبادت دلوں کو جوڑنا‘پیار اور محبت کی تبلیغ کرنا اور امت مسلمہ کے افراد کے درمیان اخوت و محبت پیدا کرنا ہے اور سب سے بڑا گناہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلما ن سے جدا کرنا۔دلوں میں تفریق پیدا کرنا‘فرقہ بندی اور دھڑے بازی کو فروغ دینا ہے ۔
اسی لئے تفرقہ بازی کو قرآن کریم میں مشرکوں کا عمل کہا گیا ہے ۔اگر واقعتہً ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرنے لگے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو مسلم معاشرہ صحیح معنوں میں امن کا گہوارہ بن جائے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں آخری بات یہ بتلائی گئی ہے کہ زیادہ ہنسانہ کرو تمہارادل مردہ ہو جائے گا۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے اہم مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔آفاق وانفس واقوام کے حالات وتغیرات پر اگر غور کیا جائے تو انسان کوہنسنے اور لہوولعب میں متلاہونے کا موقع ہی کہاں ملتا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خوش دلی اورخوش باشی ترک کی جائے البتہ کسی بھی صورت میں وقار کا دامن ہاتھوں سے چھوڑنا نہ چاہئے۔

Browse More Urdu Literature Articles