Pashaymani K Ansu - Article No. 1737

Pashaymani K Ansu

پشیمانی کے آنسو - تحریر نمبر 1737

حضرت امیر معاویہ آرام فرما رہے تھے کہ اچانک کسی نے آپ کو بیدار کردیا حضرت امیر معاویہ نے ادھر ادھر دیکھا تو ان کو کوئی شخص نظرنہ آیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ ایک شخص دروازے کی آڑ میں اپنا منہ چھپائے کھڑا ہے۔ آپ نے دریافت کیا: ”تو کون ہے؟“

منگل 31 جولائی 2018

حضرت امیر معاویہ آرام فرما رہے تھے کہ اچانک کسی نے آپ کو بیدار کردیا حضرت امیر معاویہ نے ادھر ادھر دیکھا تو ان کو کوئی شخص نظرنہ آیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ ایک شخص دروازے کی آڑ میں اپنا منہ چھپائے کھڑا ہے۔ آپ نے دریافت کیا: ”تو کون ہے؟“اُس نے جواب دیا: ”میرانام ایک زمانہ جانتا ہے۔ میں بدبخت ابلیس ہوں۔“آپ نے فرمایا: ”اے ابلیس تُو نے مجھے کیوں جگایا؟“ اس نے کہا: ”اے امیر!نماز کا وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔

آپ کو مسجد کی طرف جلد دوڑ کر جانا چاہیے۔ قبل اس کے کہ وقت نکل جائے۔“آپ نے فرمایا: ”ہر گز یہ غرض تیری نہیں ہو سکتی کہ تُو خیر کی طرف کبھی رہنمائی کرے۔ میرے گھر میں چور کی طرح گھس آیا اور کہتا ہے کہ میں پاسبانی کرتاہوں بھلا میں چور کی بات پر کیسے یقین کر سکتا ہوں اور تو میرا بہی خواہ کب ہو سکتا ہے“۔

(جاری ہے)


ابلیس نے کہا: ”ہم کبھی فرشتوں میں شامل رہے ہیں اور اطاعت کے راستے کو دل و جان سے طے کر چکے ہیں۔

۔۔۔۔ سفر کرتے ہوئے کوئی خواہ کہیں چلا جائے وطن کی محبت اس کے دل سے کب جا سکتی ہے۔ ہم بھی خدا کے دریائے رحمت سے پانی پی چکے ہیں اور اس کی رضا کے باغ کی سیر کر چکے ہیں کبھی ہم بھی اس کی درگاہ کے عاشق تھے۔ اگر اس کے دریائے کرم نے مجھ پر عتاب کیا تو پھر کیا ہوا“۔
حضرت امیر معاویہ نے فرمایا”اے راہزن مجھ سے بحث مت کر تجھ کو میرے اندر گمراہ کرنے کا راستہ نہیں مل سکے گا۔
میرے اندرراستہ مت ڈھونڈ سچ سچ بتا کہ تو نے مجھے نما زکے لیے کیوں بیدار کیا تیرا کام تو گمراہ کرنا ہے۔ اس خیر کی دعوت میں کیا راز ہے ۔ جلد بتا!!!“ابلیس نے کہا: ”بدگمان آدمی تو سچی بات کو سو دلیلوں کے باوجود تسلیم نہیں کرتا میرا قصور صرف یہ ہے کہ ایک بدی کر بیٹھا اور دنیا میں بدنام ہوگیا۔ حضور!اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کی نماز فوت ہو جاتی تو دنیا آپ کی نگاہوں میں تاریک ہوجاتی توآپ شدید غم اور صدمہ سے رو رو کر نڈھال ہو جاتے آپ کی یہ آہ وزاری دل کا سوز و گداز اور دردونیاز سو نمازوں کے ثواب سے بڑھ جاتا۔
آپ کے قربِ اعلیٰ کے خوف اور حسد نے مجھے آپ کو بیدار کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ بھلا مجھ کو یہ کب گوارا تھا کہ آپ اس قدر زیادہ ثواب حاصل کر لیں آُ کو جگانے کا باعث میرا یہی جزبہ حسد تھا۔ میں نے اسی خوف سے آپ کو بیدار کر دیا تا کہ آپ کی آہ وبقا ء مجھے جلا نہ دے ۔ میں انسان کا حاسد ہوں میں اس کا بھلا کیسے سوچ سکتا ہوں اسی حسد سے میں نے ایسا کیا ہے۔
میں انسان کا دشمن ہوں میرا دل یہ کیسے گوارا کرے کہ اسے کوئی فائدہ پہنچے“۔
گفت اکنوں راست گفتی صادقی
از تو ایں آید تو ایں را لا ئمی
حضرت امیر معاویہ نے فرمایا: ”ہاں اب تو نے اصل بات بتائی۔ دراصل تو نہیں چاہتا کہ میں خلوص اور درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاؤں اور اپنی آنکھوں سے ندامت اور پشیمانی کے آنسو بہاؤں کیونکہ اس آہ و فغاں کا حق تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا درجہ ے“۔
درسِ حیات: شیطان، انسان کا کھلا دُشمن ہے اس لئے ہر لمحہ اس سے چوکنے رہو!

Browse More Urdu Literature Articles