Posheeda Raaz - Article No. 1703

Posheeda Raaz

پوشیدہ راز - تحریر نمبر 1703

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک شریف النفس اور کمزور آدمی تھا۔ اللہ کے حضور یہ دعا کرتا رہتا تھا کہ مجھے غریب بے سہارا کو غیب سے روزی عطا فرما اور مجھے محبت و مشقت میں نہ ڈال

بدھ 16 مئی 2018

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک شریف النفس اور کمزور آدمی تھا۔ اللہ کے حضور یہ دعا کرتا رہتا تھا کہ مجھے غریب بے سہارا کو غیب سے روزی عطا فرما اور مجھے محبت و مشقت میں نہ ڈال۔ مریل گدھے پر گھوڑوں اور اونٹوں کا بوجھ نہیں لادا جا سکتا۔۔۔ پاؤں والا تو چل کر روزی پیدا کر سکتا ہے اور جس کے پاؤں نہ ہوں اس کو تیرا ہی آسرا ہے۔ اے اللہ سب کی سننے والے! میں منہ سے ہی تجھ سے مانگ سکتا ہوں لیکن مشقت کرنے کی طاقت نہیں۔
۔۔۔۔ بس یہی ورد و وظائف اس کے دن رات کی مصروفیت تھی۔ اس کا یہ عمل ہر عام و خاص میں مشہور ہو چکا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ خدا نے ہر شخص کی روزی محنت و مشقت کے راستے اتاری ہے لیکن اسے دیکھو ہاتھ پیر ہلائے بغیر خدا سے اپنا رزق طلب کرتا ہے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔ پیغمبر خدا کو دیکھو جنھیں اللہ نے معجزے عطا کئے۔ خوش الحان ایسے کہ جن و انس چرند پرند تو ایک طرف پہاڑ بھی متاثر ہوتے ہیں باوجود اتنی شان کے وہ بھی بغیر مشقت کے روزی حاصل نہیں کرتے مگر اسے دیکھو یہ ناکارہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے بیٹھے بٹھائے خزانہ مل جائے اور کوئی کسب نہ کرنا پڑے۔

۔۔ لوگ سو سو باتیں کرتے لیکن وہ شخص اپنی آہ و زاری میں لگا رہتا۔
خدا سب کی دعائیں سنتا ہے اور مرادیں پوری کرتا ہے۔۔۔ اس شخص نے دعاؤں اور رونے دھونے کی حد کر دی تو رحمت خدا وندی جوش میں آگئی۔ اور اس کی مراد بر آئی۔ زار سے دروازہ کھُلا اور ایک گائے اس کے گھر میں گھس آئی۔ اس نے فوراً گائے کو پکڑا ٹانگیں باندھ کر بے تامل حلق پر چھری پھیر کر ذبح کر ڈالا، پھر قصاب کو بلایا کہ اس کو کاٹ کر بوٹیاں بنا دے۔
۔۔۔۔ گائے کا مالک گلی کوچوں کی خاک چھانتا ہوا ادھر آ نکلا، دیکھا کہ گائے ذبح ہو چکی ہے اور قصائی اس کی بوٹیاں کرنے میں مصروف ہے۔ اس نے رونا دھونا اور چلانا شروع کر دیا۔ ”ارے ظالم! یہ کیا غضب کیا یہ گائے تو میری تھی، تجھے بھلا کیا حق تھا اسے پکڑ کر ذبح کرنے کا۔“ دعا مانگنے والے نے جواب دیا سنو بھائی زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں میں برسوں سے اس دعا میں مصروف تھا کہ اے اللہ تعالٰی میرا رزق میرے پاس پہنچا دے اس نے دعا قبول کی ۔
میں نے اسے خدا داد سمجھ کر ذبح کر ڈالا۔۔۔۔۔ یہ جواب سن کر گائے کے مالک کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی ۔ اس نے پہلے تو درویش کو خوب مارا اور پھر پکڑ کر حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں لے گیا اور سارا ماجرا بیان کر ڈالا۔
لوگوں نے گائے کے مالک کی باتیں سنیں تو اسی کو حق پر قرار دیا۔۔۔۔ درویش نے اس بے بسی کی حالت میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا اے خدائے رحمان و رحیم تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں نے اپنی آرزو کی تکمیل کے لئے سینکڑوں روز و شب آہ و زاری کرنے اور دعا مانگنے میں صرف کر دئیے۔
اور میں نے روز الست جو خواب دیکھا تھا اسی نے مجھے تیری بندگی میں مست کر رکھا تھا، میں نے جب اپنی مراد پائی تو یہ مجھے تیرا بندہء نافرمان سمجھ کر شیطان کی طرح کوس رہا ہے۔ اے اللہ! میں تیرے حضور دعا کرتا ہوں کہ میری فریاد کو پہنچ کر میری پردہ پوشی فرما اور مجھے ذلیل ہونے سے بچا لے۔
گائے والے نے جھلا کر کہا: ابے اُدھر آسمان کی طرف کیا دیکھتا ہے ؟ ادھر میری طرف دیکھ اور حقیقت کا سامنا کر، کیا تُو سمجھتا ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کو فریب میں مُبتلا کر کے صاف نکل جائے گا؟ دُعا مانگنے والے نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اور رو کر بولا: اے خدائے ذوالجلال اپنے اس بندے کو رسوا نہ کر میں بے شک بُرا ہوں خطا کار ہوں تُو تو عیبوں کو ڈھانپنے والا ہے اور اس نازک وقت میں میری مدد فرما۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا مانگنے والے سے پوچھا: تم اپنی صفائی میں کیا کہتے ہو؟ تو اُس نے عرض کیا: اے پیغمبر خدا! اس شہر کے سبھی لوگ مجھے جانتے ہیں۔ آج تک کسی کا مال چوری نہ کیا اور نہ ناجائز طور پر کسی کو پریشان کیا، میرا گزشتہ کئی سال سے یہ معمول ہے کہ شب و روز بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کرتا ہوں کہ بغیر محنت و مشقت کے مجھے روزی عطا کر۔
آخر مسلسل دعاؤں کے بعد اللہ تعالٰی نے میری فریاد رسی کی اور یہ گائے خود بخود میرے گھر میں گُھس آئی۔ میری آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی نور آ گیا اور حق تعالٰی نے میر دعا قبول فرمائی۔ اور رزق حلال بغیر محنت کے مل گیا۔ میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور گائے کو ذبح کر ڈالا۔ یہ شخص نہ جانے کہاں سے شور مچاتا آ گیا اور کہنے لگا گائے میری ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسی معقول دلیل دے جس کی بنا پر تُو نے گائے کو ذبح کیا۔
تیرے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ گائے تجھے مالک نے دی نہ تُو نے خریدی۔
دعا مانگنے والے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ”اے پیغمبر خُدا آپ بھی وہی کہنے لگے جو دوسرے کہہ رہے ہیں“
ایک آہِ دردناک اس کے دل سے نکلی اور اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہا: اے میرے دل کا درد جاننے والے تُو حضرت داؤدؑ کو روشنی عطا فرما۔ انھیں حقیقت حال سے آگاہ فرما۔
یہ کہہ کر دھاڑیں مار مار رونے لگا اس کی آواز میں ایسا درد تھا کہ نہ صرف سنگ موم ہو گئے بلکہ حضرت داؤدؑ کا دل بھی دہل گیا۔ انھوں نے گائے کے مالک سے کہا کہ اس کا فیصلہ ایک دن کے بعد کیا جائے گا۔ انھوں نے گائے کے مالک سے کہا کہ اس کا فیصلہ ایک دن بعد میں کیا جائے گا۔
پیغمبرِ خدا اپنے حجرے میں داخل ہوئے اور اپنی عبادت گاہ کا دروازہ بند کر دیا۔
ذکر و ازکار کے بعد اللہ عزول کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے علیم و خبیر آقا! مجھے حقیقت ِ حال سے آگاہ فرما۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی پر اسرار و رموز کھول دئیے۔
دوسرے دن دونوں کو طلب کیا گیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے کے مالک سے کہا کہ اس شخص کا پیچھا چھوڑ دے اور اسے معاف کر دے۔ حق تعالٰی نے تیرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی ہے۔ تُو بھی اس کی تاری کا حق ادا کر اور اپنی گائے کی طرف سے صبر کر۔
حضرت داؤدؑ کا ارشاد سنتے ہی اس بد بخت نے کہا: کیا اب کوئی نئی شریعت نافذ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔؟ آپ کے انصاف کی شہرت تو زمین و آسمان تک پہنچ چکی ہے مگر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ یہ انصاف نہیں ظلم ہے۔
دوسری مرتبہ حضرت داؤدؑ نے فرمایا : اپنا سارا مال اور جائیداد اس مظلوم کے حوالے کر دے۔ ورنہ تیری سخت رسوائی ہو گی اور کچھ عجب نہیں کہ جو ظلم و ستم تو نے کئے ہیں وہ بھی ظاہر ہو جائیں۔

گائے والے نے یہ کلمات سنتے ہی سر پر خاک ڈالنا شروع کر دی گریبان چاک کر ڈالا اور بد حواس ہو کر بولا: اے داؤدؑ! اچھا فیصلہ سنایا ۔ مجھ پر ظلم و زیادتی کی حد کر دی۔ (نعوذ باللہ) مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ تُو اپنے حواس میں نہیں رہا۔ حضرت داؤدؑ نے اسے قریب بلایا اور کہا: اے بدبخت! اس ہنگامے سے باز آ کہیں یہ تیری ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔
تُو نے بویا ہے وہ اب کاٹ۔
اب تیسری مرتبہ حضرت داؤد نے ارشاد فرمایا: تُو اپنے اہل و عیال بھی اس کے حوالے کر دے۔۔۔۔۔ اس پر تو وہ پتھر سے اپنا سر پھوڑنے لگا۔ لوگ حیران تھے کہ حضرت داودؑ یہ کیسا حکم دے رہے ہیں۔
تماشائی پیغمبر خدا کے احکام کی اصل وجہ سے نا واقف تھے۔ ان مین سے ایک دو آدمی کہنے لگے اے اللہ کے نبیؑ آپ کی ذاتِ با بارکات سے ایسا صریح ظلم؟ ہم سب حیرت میں ہیں بے قصور گائے والے پر اتنا عتاب آخر کیوں؟اور جس نے نا حق گائے پکڑ کر ذبح کر ڈالی اسے آپ نے بری کر دیا۔
حضرت داؤدؑ نے فرمایا کہ شائد اب وقت آ گیا کہ حقیقت حال سے پردہ اٹھا دیا جائے۔
حضرت داؤدؑ سب کو دریا کے کنارے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے لے گئے۔ وہ گھنا درخت جس کی شاخیں آپس میں گتھی ہوئی تھیں سورج کی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت داؤد لوگوں سے مخاطب ہوئے: ”کیا تم جانتے ہو کہ اس درخت کے نیچے ایک آدمی کو قتل کیا گیا تھا؟“ تم نہیں جانتے البتہ وہ جانتا ہے جس نے اس زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے۔
حضرت داؤدؑ نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس گائے کے مالک نے اپنے آقا کو قتل کیا۔ یہ شخص اصل میں مقتول کا خریدا ہوا غلام تھا۔ اس نے اپنے آقا کو قتل کر کے اس کے مال و دولت اور جائیداد پر قبضہ کر لیا یہ مظلوم دعا مانگنے والا اسی مقتول کا بیٹا ہے۔ پھر اس بے رحم اور سنگ دل شخص نے اپنے مقتول آقا کے بچوں پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ ان سے سب مال چھین لیا ۔
یہاں تک نمک حرامی پر اُتر آیا اس کے آقا کے بچے دانے دانے کے مختاج ہو گئے۔ اس مردود نے اپنے گناہوں کا پردہ خود ہی فاش کیا اور اے شخص تُو نے شریعت کے مطابق فیصلہ مانگا تھا۔ شریعت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ تُو نے اپنی سفاکی سے اپنے آقا کو چھری سے ذبح کیا جس طرح اس دعا مانگنے والے نے تیری گائے کو ذبح کیا۔ وہ خون آلود چھری راز فاش ہونے کے ڈر سے گڑھا کھود کر تُو نے دفن کر دی تھی۔
۔۔۔۔۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس چھری پر اس کا نام کنندہ ہے۔ حضرت داؤدؑ کے حکم پر جب زمین کھودی گئی تو ایک شخص کی کھوپڑی اور لمبی سی چھری برآمد ہوئی۔ اب گائی والا خوف سے کانپنے لگا۔ تمشائیوں پر سکتے کا عالم طاری تھا۔ لوگوں نے اپنے سروں سے کپڑے اور ٹوپیاں ہٹا دیں ننگے سر ہو کر سامنے آئے اور عرض کرنے لگے، اے خدا کے سچے پیغمبر ہم فطری نابینا ثابت ہوئے ہم نے آپ کی زبان مبارک پر اعتبار نہ کیا۔ آپ ہماری گستاخی معاف فرما دیں۔ آپؑ نے سب کو معاف کر دیا اور گائے والے کے قتل کا حکم دے دیا، اور یوں اسی چھری کے ساتھ قصاص کے طور پر اس کی گردن اڑا دی گئی۔

Browse More Urdu Literature Articles