Qissa Maroot Aur Haroot Ka - Article No. 1153

Qissa Maroot Aur Haroot Ka

قصہ ماروت اور ہاروت کا - تحریر نمبر 1153

حضرت آدم علیہ السلام وحضرت حواعلیہ السلام کو جب زمین پر بھیجا گیا اور پھرنسل انسانی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونا شروع ہواتو فرشتوں نے انسانوں کے گناہ دیکھتے ہوئے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کی اور کہا کہ یاباری تعالیٰ ! یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں تونے اپنی زمین میں اپنا نائب بنایااور۔۔۔

جمعہ 20 جنوری 2017

حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
حضرت آدم علیہ السلام وحضرت حواعلیہ السلام کو جب زمین پر بھیجا گیا اور پھرنسل انسانی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونا شروع ہواتو فرشتوں نے انسانوں کے گناہ دیکھتے ہوئے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کی اور کہا کہ یاباری تعالیٰ ! یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں تونے اپنی زمین میں اپنا نائب بنایااور وہ قتل وغارت گری کرتے ہیں ‘ زناکرنے تے ہیں ‘ جھوٹ بولتے ہیں اورتیرے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ۔
اے اللہ ! اگر تو ہمیں اپنی زمین میں نائب بناکر بھیجتا تو ہم ہر حال میں تیری عبادت کرتے اور تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ۔ اللہ عزوجل نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ میں تمہیں اب زمین پر اتارتا ہوں تم اپنے چند نمائندہ پیش کرو جوزمین پر جا کر وہاں کے حالات کامشاہدہ کرسکیں ۔

(جاری ہے)

چنانچہ فرشتوں نے تین فرشتوں کا ایک گروہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کیا جنہیں زمین پر بھیجا جانا تھا۔

جب یہ تین فرشتے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش ہوئے توایک فرشتے نے عاجزی کااظہار کیا جس کے بعد دوفرشتے جن کے نام ہاروت اور ماروت منقول ہیں انہیں اللہ عزوجل نے اسم اعظم سکھا کر ‘ ان میں نفسانی خواہشات پیدا فرماکر ملک بابل میں اتاردیا۔
ہاروت اور ماروت بابل میں بادشاہ کے محل کے نزدیک ایک اجڑے ہوئے محل میں اتارے گئے ۔ یہ اجاڑ محل آسیب زدہ مشہور تھا اور اس سے بے شمار واقعات کو منسوب کیا جاتا تھا۔
ہاروت اور ماروت جو کہ انسانی شکل میں اتارے گئے تھے انہوں نے اپنا قیام اسی اجاڑ محل میں کیا۔ ہاروت اور ماروت سارا دن شہر میں گھومتے رہتے اور رات اس محل میں آکر قیام پذیر ہوتے۔ ہاروت اور ماروت کو انسانی زندگی نہایت عجیب لگی کہ صبح ہوتے ہی ہر شخص اپنے پیٹ کی خاطر بھاگ دوڑ شروع کردیتا ۔ ہاروت اور ماروت جس وقت بابل میں اترے اس وقت بابل پرشداد خاندان کی حکومت تھی ۔
بادشاہ بت پرست تھا اور اس کی بے شمار بیویاں تھیں ۔ بادشاہ کی اول بیوی سے ایک حسین وجمیل بیٹی تھی جس کے علاوہ بادشاہ کی اور کوئی اولادنہ تھی ۔ شہزادی کانام بطروقہ تھا جواکثروبیشتر بیمارہتی تھی ۔ایک روز شہزادی بطروقہ محل میں صحیح سلامت سوئی ہوئی تھی کہ حسب معمول صبح کے وقت کنیزیں اسے اٹھانے کے لئے آئیں ۔ جب انہوں نے بطروقہ کے کمرے کادروازہ کھٹکھٹایاتواس نے دروازہ نہ کھولا۔
ان کنیزوں نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ شہزادی اپنے کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہی ۔ بادشاہ نے اپنے وزارء کے مشورہ سے شہزادی کے کمرے کادروازہ توڑنے حکم دے دیا۔ جب کمرے کادروازہ توڑاگیا توبادشاہ اور دیگر اصحاب کے ہمراہ بڑے معبدکی کاہنہ شمرطی بھی شہزادی بطروقہ کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ جب یہ لوگ شہزادی کے بستر پر پہنچے تو دیکھا کہ شہزادی کی آنکھیں کھلی ہیں ا وراس کے دل کی دھرکنیں رک چکی ہیں۔
شہزادی کا جسم گرم تھا اور مردہ انسان کی طرح سخت نہیں تھا۔ بادشاہ اور اصحاب نے رونا شروع کردیا۔ جب یہ خبرشہر میں پھیلی توبے شمار طبیب شاہی محل میں اکٹھے ہوگئے مگر کوئی بھی شہزادی کی بیماری کو سمجھ نہ پایا۔ تمام طبیبوں کامتفقہ خیال تھا کہ شہزادی مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے ۔ چنانچہ وقفہ وقفہ سے شہزادی کے منہ میں سیال خوراک ٹپکائی جانے لگی ۔
جب کافی دن گزرنے کے بعد بھی شہزادی کی حالت میں کچھ بہتری نہ آئی توبادشاہ نے دنیا کے کونے کونے میں اپنے ہرکارے دوڑائے جودنیا کے بہترین حکماء کولے کر بادشاہ کے پاس آئے ۔ یہ تمام بھی شہزادی کے مرض کو سمجھنے سے قاصر رہے اور انہوں نے اس بات کابھی خدشہ ظاہر کیاکہ اگر شہزادی کی یہ کیفیت ختم نہ ہوئی تو وہ چالیس روز بعد مر بھی سکتی ہے ۔ بادشاہ نے شہر میں منادی کروادی کہ جو کوئی شہزادی کاعلاج کرے گاوہ اسے انعام واکرام سے نوازے گا۔

بادشاہ کایہ اعلان ہاروت اور ماروت نے بھی سنا ۔ ہاروت نے ماروت سے کہا کہ ہمیں بادشاہ کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے بہترین موقع ملا ہے ہم شہزادی کاعلاج اسم اعظم سے کرسکتے ہیں۔ ماروت نے ہاروت کی بات کی تائیدکی اور پھردونوں بادشاہ کے محل میں جاپہنچے ۔ محل میں جانے سے پہلے دونوں نے منصوبہ بنایا کہ اول وہ تین چار روز تک عام طریقے آزماتے رہیں گے پھر اسم اعظم پڑھ کر پھونک دیں گے جس سے شہزادی تندرست ہوجائے گی۔
ہاروت اور ماروت نے اپنا بھیس طبیبوں سابنایااور ہرن کے سینگھوں والی مالا گلے میں پہن لی۔ ان کے ہاتھ میں طبیبوں کی طرح دواؤں کاتھیلا بھی تھا۔ جب یہ دونوں بادشاہ کے پاس پہنچے توانہوں نے اپنا تعارف ملک یونان کے حکماء کے نام سے کروایا جوبادشاہ کا اعلان سن کرشہزادی کاعلاج کرنے تشریف لائے ہیں۔ بادشاہ ان دونوں کولے کرشہزادی بطروقہ کے کمرے میں پہنچا۔
ہاروت اورماروت نے شہزادی بطروقہ کامعائنہ کیا اور بادشاہ سے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزادی سکتہ میں ہے۔ شہزادی کوسکتہ کیوں ہوا اس کے لئے ہمیں حاضرات کاعمل کرنا ہوگا۔ بادشاہ نے انہیں علاج کرنے کی اجازت دے دی تودونوں نے بادشاہ کو عمل حاضرات سے متعلق کچھ چیزیں لکھ کردیں جوانہیں مہیا کردی گئیں ۔ جب تمام چیزیں ہاروت اور ماروت کو مہیا کردی گئیں تو انہوں نے محل کے ایک اندھیرے کمرے کاانتخاب کیاجہاں ایک بڑی میزپرگول شیشہ نصب تھا۔
ہاروت اور ماروت نے اس کمرے کی تمام مشعلیں بجھادیں اور کمرے میں عودوعنبر کی دھونی دے کر کمرے کو خوشبودار بنادیا۔ جب کمرہ عمل کے لئے تیار ہوگیا تو دونوں نے عمل حاضرات کے کلمات دہرانا شروع کردیئے ۔ جیسے ہی کلمات ادا ہوئے شیشہ روشن ہوگیااور اس میں شہزادی بطروقہ کی خوابگاہ دکھائی دینے لگی ۔ شہزادی اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی اور اس کے دائیں جانب کادریچہ کھلاہوا تھا۔
اس دریچہ میں سے جنگل کامنظر نمایاں نظرآرہا تھا جس میں ایک بڑے سے درخت پرسیاہ رنگ کاناگ پھن لہرائے بیٹھا تھا۔ یہ سیاہ ناگ دھیرے دھیرے شہزادی کے کمرے میں اس دریچہ سے داخل ہوااور شہزادی کے پہلو میں پہنچ کر شہزادی کو تیز نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔ پھرسیاہ ناگ دھیرے دھیرے شہزادی کی مسہری پر چڑھا اور شہزادی کے منہ پر اپنامنہ رکھ دیا۔
شہزادی کی سانسیں معدوم ہوناشروع ہوگئیں اور کچھ دیر بعد جب سیاہ ناگ اپنا منہ ہٹاکردوبارہ جنگل میں چلاگیا توشہزادی کی چلتی سانس رک چکی تھی ۔
ہاروت اور ماروت جب یہ عمل کررہے تھے ان کے ساتھ بادشاہ اور چند کاص وزراء بھی اس کمرے میں موجودتھے جواپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کرسکتے میں آگئے ۔ ہاروت نے بادشاہ سے کہا کہ اے بادشاہ ! اس ظالم ناگ نے آپ کی بیٹی کاسانس پی لیا ہے ۔
بادشاہ نے چلانے کے انداز میں کہا کہ کیااب میری بیٹی کبھی ٹھیک نہ ہوگی ؟ ہاروت نے کہا کہ شہزادی یقینا تندرست ہوگی ۔ پھرہاروت اور ماروت نے کمرے میں دھونیاں تیز کردیں اور زور زور سے منتر پڑھنا شروع کردیئے ۔ اس دوران ایک دم دھونی میں سے آگ کاایک شعلہ بلند ہوا اور دریچے کی جانب لپکا۔ بادشاہ اور وزراء نہایت حیرانگی کے ساتھ ساری کاروائی دیکھ رہے تھے ۔
آگ کا شعلہ جنگل کی جانب لپکا اور اس درخت کی جانب بڑھا جہاں وہ سیاہ ناگ پھن لہرائے بیٹھا تھا۔ ناگ نے جب آگ کا شعلہ اپنی جگہ بڑھتے دیکھا تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن آگ کے شعلے نے اسے جالیا جس سے وہ جل کر راکھ ہوگیا۔ ہاروت اور ماروت نے سیاہ ناگ کے جلنے کے بعد بادشاہ کو مبارک باددی اور کہا کہ ہم نے شہزادی کے علاج کا پہلا مرحلہ طے کر لیا ہے ۔
اب ہم انہیں کچھ دوائیں دیں گے جس سے وہ عنقریب صحت یاب ہوجائے گی ۔
اگلے روز ہاروت وماروت نے چاندی کی چار پتیلیاں منگوا کران کے پیندوں میں سوراخ کیااور انہیں ایک سٹینڈ کے اوپر لگا کرشہزادی کے چہرے کے اوپر نصب کردیا۔ ان پتیلیوں کے سوراخ سے دوا کے قطرے شہزادی کے منہ میں ٹپکائے جانے لگے ہاروت وماروت برابرشہزادی کے سرہانے موجود رہے ۔
اس دوران بادشاہ کچھ دیر کے لئے آتا اور ان کو دیکھ کردچلاجاتا۔ چوتھے روز ہاروت وماروت نے عود عنبر کی دھونیاں سلگائیں اور کمرے میں اس کی دھونیاں دینے لگے دھونی دینے کے ساتھ ساتھ ہاروت شہزادی کے سہرانے اور ماروت شہزادی کے پاؤں کی جانب کھڑے ہوکر منتر پڑھنا شروع ہوگیا۔ ہاروت وماروت بظاہرمنتر مگر اسم اعظم پڑھ رہے تھے انہوں نے اسم اعظم پڑھنے کے بعد شہزادی کے جسم کو ہاتھ لگایا توشہزادی کاجسم تڑپناشروع ہوگیا۔ ہاروت وماروت نے اسم اعظم جاری رکھا۔ شہزادی کچھ دیر تڑپنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ بادشاہ نے خوشی سے جھومتے ہوئے بیٹی کوگلے سے لگالیا۔

Browse More Urdu Literature Articles