Rutba Behtar Libas Nehin Behtar Ilm Se Hota Hai - Article No. 1013

Rutba Behtar Libas Nehin Behtar Ilm Se Hota Hai

رتبہ بہتر لباس نہیں بہتر علم سے ہوتا ہے - تحریر نمبر 1013

حجرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز قاضی کی عدالت میں کس علمی مسئلہ پر گفتگو ہورہی تھی اس دوران ایک مفلوک الحال درویش عدالت میں داخل ہوا اور مناسب جگہ پر بیٹھ گیا۔

بدھ 24 فروری 2016

حکایات سعدی رحمتہ اللہ علیہ:
حجرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز قاضی کی عدالت میں کس علمی مسئلہ پر گفتگو ہورہی تھی اس دوران ایک مفلوک الحال درویش عدالت میں داخل ہوا اور مناسب جگہ پر بیٹھ گیا۔ حاضرین محفل نے اس کی ظاہری حالت سے اس کی معمولی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اسے اس جگہ سے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔
وہ درویش اس رویہ سے دلبر داشتہ ہوا مگر خاموش رہا۔ اس وقت جس عملی مسئلہ پر گفتگو ہورہی تھی کوئی بھی اس مسئلہ کا مناسب حل بتانے سے عاجزرہا۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ غصہ میں بھر گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کی گردنوں کی رگیں پھول گئیں اور منہ سے جھاک نکلنا شروع ہوگیا۔
وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔

(جاری ہے)

قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔اس درویش نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلہ کوبیان کردیا اور اس کاجواب سن کر سب حیران رہ گئے۔ حاضرین محفل کو اس درویش کی عملی قابلیت کااندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال درویش کوئی بہت بڑا عالم ہے۔ قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کراس درویش کودی اور کہنے لگاکہ صدافسوس ! ہم آپ کے علمی مرتبہ سے آگاہ نہ ہوسکے۔
آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔
درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کردیا اور یہ کہہ کروہاں سے چل دیا کہ میں غروروتکبر کی اس نشانی کو ہرگزاپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یادرکھو کہ انسان کارتبہ بہترلباس نہیں بہتر علم سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صرف سر بڑا ہونے کی وجہ سے عالم نہیں بن جاتا اور کدوکاسر سب سے بڑا ہوتا ہے۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں علم کی فضلیت بیان کررہے ہیں اور یہ واقعہ انہی کا ہے اور وہ مفلوک الحال درویش آپ رحمتہ اللہ علیہ خود تھے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے علم کی فضلیت کے متعلق اس حکایت کو اپنی تصانیف” بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ عالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ عالم ہی ہو اور ہر اچھا لباس پہننے والا سردار نہیں ہوتا۔ یہ شرف اس کا حاصل ہوتا ہے جو بہترین اوصاف کاحامل ہو۔ سردار کا بیٹا سردار ہو یہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles