Sadqat Wasul Na Kiye - Article No. 1984

Sadqat Wasul Na Kiye

صد قات وصول نہ کئے - تحریر نمبر 1984

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘اے ثعلبہ! کیا تیرے پیش نظر میری زندگی نہیں ہے ۔کیا تو اس بات پر خوش نہیں ہے کہ تیری زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جیسی ہو

جمعرات 28 مارچ 2019

نذیر انبالوی(ایم ۔اے)
حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ بن حاطب رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے تھے ۔ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا‘یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ! آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘اے ثعلبہ! تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرتا ہے اس زیادہ مال سے اچھا ہے جس کا تو شکر ادا نہیں کر سکتا۔ثعلبہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ضرور میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مال کی دعا فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘اے ثعلبہ! کیا تیرے پیش نظر میری زندگی نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

کیا تو اس بات پر خوش نہیں ہے کہ تیری زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جیسی ہو ‘اللہ کی قسم! اگر میں چاہوں کہ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلیں تو اللہ تعالیٰ میرے لئے ایسا کر دے ۔
جناب ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا ہے اگر آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مال کی دعا فرمائیں تو میں اس مال میں سے ہر حق دار کو اس کا پورا حق دوں گا اور میں اپنے کہے پر ضرور عمل کروں گا اور لازماً ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی کروں گا ۔
چنانچہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے بضد ہونے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو مال عطا فرما۔
زبان ترجمان حق سے نکلے ہوئے دعائیہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں فوراً مقبول ہو ئے۔ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے بکریاں خریدیں اور بکریوں کی تعداد اس قدر بڑھی کہ جیسے زمین کے کیڑے بڑھتے ہیں ۔

جناب ثعلبہ رضی اللہ عنہ اس قدر کثیر تعداد بکریوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر مدینہ طیبہ کے نزدیک ایک وادی میں چلے گئے ۔حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ جو کہ ہر نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے اپنے مال ودولت میں اس قدر مشغول ہوئے کہ تین نمازیں چھوڑ کر صرف دو نمازیں ظہر اور عصر جماعت کے ساتھ پڑھنے لگے ۔بکریوں کی تعداد میں جب اور اضافہ ہو گیا تو یہ جگہ بھی تنگ ہو گئی ۔
چنانچہ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ وہاں سے مزید کچھ دور آگے کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ وہ صرف نماز جمعہ میں ہی شریک ہوتے ۔بکریوں کی تعداد برابر بڑھتی جارہی تھی اور جناب ثعلبہ رضی اللہ عنہ ان میں اس قدر مشغول ہوئے کہ مصروفیت کی وجہ سے جمعہ کی جماعت بھی جاتی رہی اور وہ جمعہ کے روز مدینہ منورہ سے آنے والے سواروں سے مدینہ منورہ کے حالات دریافت کر لیتے ۔

ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ثعلبہ بن حاطب کا کیا حال ہے ؟لوگوں نے عرض کیا‘یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثعلبہ کی بکریاں اس قدر تیزی سے بڑھیں کہ ان کے لئے مدینہ طیبہ میں رہنا دشوار ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی لوگوں نے ان کے تمام حالات بتائے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر ارشاد فرمایا ‘اے ثعلبہ ! افسوس ‘افسوس اے ثعلبہ۔

اور پھر وہ وقت آیا جب قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
ترجمہ :ان کے مال سے صدقہ لیجئے ان کو ظاہر اور باطن سے پاک کیجئے ان کے صدقات اور ان کے لئے دعا کیجئے ‘بے شک آپ کی دعا ان کے لئے تسکین ہے ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل فرمائی اور بنو سلیم اور جہینہ کے دو افراد کو مسلمانوں سے صدقات کی وصولی کے لئے مقرر فرمایا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو صدقات کے احکامات اور صدقات کی وصولیابی کی اجازت لکھ کر مرحمت فرمائی اور روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اور مسلمانوں سے صدقات کی وصولی کرکے لانا۔
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ دونوں افراد سب سے پہلے ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا تا کہ ثعلبہ بکریوں کی زکوٰة ان کے حوالے کر یں‘
ثعلبہ نے یہ سنا تو کہایہ تو ٹیکس ہے ‘ہاں ہاں یہ تو ٹیکس ہے ‘یہ تو ٹیکس ہے ‘یہ تو ٹیس ہی کی ایک شکل ہے تم اس وقت جاؤ اور جب اس کام سے فارغ ہو جاؤ تو پھر واپسی پر میرے پاس آجانا ۔
یہ دونوں افراد اس کے بعد بنو سلیم کے اس شخص کے پاس گئے جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی ۔
اس کو بھی انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا اس نے سن کر کوئی ترددنہ کیا وہ فوراً اٹھا اور اس نے اپنے اعلیٰ نسل کے اونٹوں کے پاس جا کر ان میں سے صدقہ کے لئے چند اونٹ الگ نکال دیے اور ان کو لے کردونوں افراد کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔
ان دونوں نے جب یہ اچھی قسم کے اونٹوں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ تمہارے لئے ضروری نہیں کہ تم یہ اونٹ ہی دو اور نہ ہی تم سے ہم عمدہ اور اعلیٰ نسل کے اونٹوں کو لینے کے لئے آئے ہیں ۔اس شخص نے جواب دیا‘آپ ان کو لے جائیے میں برضا و رغت ان کو دیتا ہوں میرا دل اسی طرح خوش ہوتا ہے اور میں آپ ہی کو دینے کے لئے انہیں لے کر آیا ہوں ۔
آپ قبول فرمائیں۔

اسی طرح صدقات کی وصولی کرتے ہوئے یہ دونوں افراد جب فارغ ہو گئے تو واپسی پر دوبارہ ثعلبہ کے پاس آئے اور صدقات کے بارے میں سوال کیا ‘ثعلبہ اس قدر مال ودولت آجانے پر بھی مطمئن نہیں ہورہا تھا وہ مختلف حیلے بہانے کرنے لگا کہ کسی طرح صدقات دینے سے بچ جاؤں ۔گفتگو کے دوران ثعلبہ نے ان سے کہا کہ مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دکھاؤ تا کہ میں اسے دیکھو ں ۔
فرمان نامہ جب ثعلبہ کے حوالے کر دیا گیا تو اس نے پڑھ کر کہا یہ تو واقعی ٹیکس ہی کی ایک شکل ہے لہٰذا تم اس وقت جاؤ ۔میں اس معاملے میں غور کرکے پھر کچھ کروں گا۔صاف نظر آرہا تھا کہ ثعلبہ زکوٰة کی دائیگی سے انکار کر رہا ہے لیکن منہ سے واضح انکار نہیں کررہا تھا۔
جب یہ دونوں افراد ثعلبہ کی طرف سے مایوس ہو کر واپس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا‘اے ثعلبہ افسو س ۔
اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ بنی سلیم کے اس شخص کے لئے دعا فرمائی ۔پھر ان دونوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثعلبہ اور بنو سلیم کے اس شخص کے سارے حالات ووقعات بتائے۔روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب ثعلبہ کے بارے میں قرآن پاک کی یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں ۔
ترجمہ :اور ان میں سے بعض وہ ہے کہ جس نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمائے گا تو ہم صدقہ دیں گے اور صالحین میں سے ہوں گے ۔
پس جب ان کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا کیا تو انہوں نے بخل کیا مال کے ساتھ اور پھر گئے اور منہ پھیرنے والے ہیں ‘پس نفاق ان کے دلوں میں قیامت کے روز تک اثر دے گیا بہ سبب اس کے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف کیا اور بسبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
جس وقت قرآن پاک کی یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کا ایک عزیز بیٹھا ہوا تھا اس نے جب ثعلبہ کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کریمہ کو سنا تو اسی وقت مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر سیدھا ثعلبہ کے پاس گیا اور اس سے کہا‘اے ثعلبہ ! تیری ماں مرے‘تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیات نازل کی ہیں ۔
پھر اس نے ثعلبہ کو آیات سنائیں ۔ثعلبہ نے جب یہ سنا تو دوڑتا ہوا فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور صدقہ قبول کر لینے کی درخواست کی ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اے ثعلبہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہار اصدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے ۔ثعلبہ یہ سن کر رونے لگا اور بڑی آہ و زاری کی۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘اے ثعلبہ ! تیرے فعل کا نتیجہ ہے میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا لیکن تم نے میری بات نہیں مانی تھی ۔
ثعلبہ نے بڑی منت سماجت کی لیکن حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور ثعلبہ مایوس ہو کر چلے گئے ۔وقت اسی طرح گزرتا رہا جناب ثعلبہ نے صدقات دینے کی بڑی کوشش کی لیکن شرف قبول نہ ہوا حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا پھر جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ اپنے صدقات لے کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن انہوں نے بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا ۔

وقت کا دھارا یونہی بہتا رہا اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آگیا ثعلبہ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے لیکن انہوں نے بھی ان کے صدقات لینے سے انکار کر دیا۔دور فاروقی رضی اللہ عنہ بھی گزر گیا یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے ۔اس دور میں بھی ثعلبہ کے صدقات وصول نہ کئے گئے اور پھر اسی دور میں ثعلبہ انتقال کر گئے۔

Browse More Urdu Literature Articles