Teen Musafiron Ka Qissa - Article No. 1043

Teen Musafiron Ka Qissa

تین مسافروں کا قصہ - تحریر نمبر 1043

سفر کے دوران ایک یہودی‘ ایک نصرانی اور ایک مسلمان ہم سفر ہوئے۔ راستہ میں ان کو حلوہ ملاتو یہودی اور نصرانی نے چالاکی کے ساتھ مسلمان کو اس حلوے سے محروم رکھا۔

منگل 19 اپریل 2016

حکایات رومی رحمتہ اللہ علیہ:
سفر کے دوران ایک یہودی‘ ایک نصرانی اور ایک مسلمان ہم سفر ہوئے۔ راستہ میں ان کو حلوہ ملاتو یہودی اور نصرانی نے چالاکی کے ساتھ مسلمان کو اس حلوے سے محروم رکھا۔اللہ عزوجل کو ان کی یہ چالاکی پسند نہ آئی اور اس نے ایسا بندوبست کیاکہ وہ حلوہ مسلمان کو ملا۔ اس سیدھے سادے مسلمان پر اللہ عزوجل کی رحمت ہوئی۔

اس قصہ کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ چالاکی سے بچو کہ کہیں آزمائش میں مبتلا نہ ہو۔ ان تینوں کا ہم سفر بننا ایسا تھا جیسے پنجرے میں بے جوڑ پرندے رکھے ہوئے ہوں یاقید خانے میں مختلف اقسام کے لوگ یکجاہوتے ہیں۔ یہی مثال اس دنیا کے عام انسانوں کی ہے۔راستہ کھلنے پر پڑاؤ کے مسافر اپنی اپنی راہ اختیار کر لیتے ہیں یاپنجرہ کھلتے ہی پرندے اپنی جنسوں کی جانب محوپرواز ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے پرندے وطن کے شوق میں پر پھیلائے ہوئے ہیں لیکن اڑنے کاراستہ نہیں ہے۔ انسان جو کہ راہ کے طلبگار ہیں آنسوؤں اور آہوؤں کے پرکھولے راہ کی تلاش میں گم ہیں اور اللہ عزوجل کی یاد میں پرکھولتے ہیں۔ جس طرف سے آنسو اور سوزش آئی جب موقع ملا اس طرف چلنا شروع کردیا۔
کچھ اپنے جسم کے اجزاء پر غور کرکہ کہاں کہاں سے آکر تمہارے جسم کاجزو بنتے ہیں۔
یہ اجزاء اپنے مرکز کی جانب منتقل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسااسی وقت ہوتا ہے جب تک حضرت حق کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔ جب جلال خداوندی کی گرمی پڑے تو سب چیزیں حاضر ہوجائیں گی۔
جب ان تینوں مسافرکا پڑاؤ آیاتو ایک مہمان نوازان کے لئے حلوہ لے آیا۔ وہ اس فرمان خداوندی سے واقف تھاجو قرآن مجید میں ہے کہ جب حضورنبی کریم ﷺ سے میرے بندے میرے تعلق پوچھیں گے تو ان سے کہہ دینا کہ میں ان کے نزدیک ہوں۔
وہ میزبان مسلمان تھے اور محض اللہ عزوجل کی خوشنودی کے لئے مسافروں کے لئے حلوہ لے کر آئے تھے۔ یہودی اور نصرانی کاپیٹ بھرا ہواتھا اس لئے کہا کہ اس کو رکھ دیں اور صبح کھائیں گے۔ مسلمان چونکہ دن کے وقت روزہ سے تھا اس لئے اسے بھوک لگی تھی اس نے کہا کہ میں بھوکا ہوں اسے تقسیم کرلیں کیونکہ میں اسے سارا کھانا چاہتا ہوں۔
نفسانی غرض کے بغیر کی گئی تقسیم اچھی ہوتی ہے۔
انسان بھی اللہ عزوجل کی ملک ہے اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے افعال کو تقسیم کرلے تو کچھ اللہ عزوجل کے لئے اور کچھ لوگوں کے لئے تو گویاوہ مشرک ہے۔ ان دونوں نے اس کی بات نہ مانی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس مسلمان کو رات کو بھی بھوکارکھا جائے۔ مجبوراََ اس مسلمان کو ان کی بات ماننا پڑی۔ صبح اٹھ کر سب نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق اللہ عزوجل کو یاد کیا اور ایک دوسرے کی جانب رخ کرکے بیٹھ گئے اور کہا کہ ہر شخص اپنا اپنا خواب بیان کرے جس کا خواب اچھا ہوگا وہ اس حلوے کوکھائے گا۔
جس کا خواب بہتر ہوا اس کی عقل بھی بہتر ہوئی یقینا اس کی روح پر نور ہوگی اور ایسے بزرگ کی خدمت میں اپنا حصہ اسے کھلانا باعث برکت ہے۔
یہودی نے سب سے پہلے اپنا خواب سنایا اور کہاکہ میں جارہاتھا کہ میری نظر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہ طور پرپڑی۔ ایک نورکی تجلی ظاہر ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہِ طور اس میں چھپ گئے۔ اس نور کی تجلی سے کوہ طو ر کے تین ٹکڑے ہوئے۔
ایک ٹکڑا سمندر میں گراتو اس کازہریلا پانی شیریں ہوگیا۔ دوسرا ٹکڑا زمین میں دھنس گیا تو اس میں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا جو بیماروں کے لئے باعث شفاعت ہوا۔ تیسرا ٹکڑا خانہ کعبہ کے پاس پہنچ گیا اور عرفات کا پہاڑ وجود میں آگیا۔ اب کوہ طور کا دوسرا تغیر شروع ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدموں میں آسمان سے گرنے والی یخ کی طرح نرم ہوگیا۔
اس کے بعد میرے حواس درست ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہِ طور کو اپنی اصل حالت میں دیکھا۔ یہ عجب چیز تھی کہ کوہِ طور کادامن عجیب چیزسے پرہے۔ ہر شخص کے ہاتھ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا عصا ہے اور اس کے بدن پر ان جیسا خرقہ ہے۔ وہ سب خراماں خراماں کوہِ طور کی جانب جارہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر دعا کی کہ اے اللہ! مجھے مردوں کو زندہ کرنا دکھا دے اب میں سمجھا کہ یہ انبیا علیہ السلام کا مجمع ہے اور انبیاء علیہ السلام اپنی دعوت میں متحد ہیں۔
پھر مجھے فرشتوں کی ایک جماعت نظر اائی جیسے وہ برف بنے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی ایک دوسری جماعت بھی میں نے دیکھی جو آتشیں معلوم ہوتی تھی۔
اس خواب پر حیران نہ ہو کہ اس یہودی کاانجام بخیر ہوااور اس نے مرتے وقت شرک سے توبہ کرلی۔ کسی کافر کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہوسکتا ہے کہ اسے آخروقت میں توبہ نصیب ہوجائے۔
یہودی کے بعد عیسائی نے خواب سنایااور کہا کہ سب جانتے ہیں کہ آسمان کی چیزیں زمین سے افضل واعلیٰ ہیں۔
میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چوتھے آسمان پرتھا اس لئے اس حلوے کو کھانے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔
مقصود بیان:
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ چالاکی سے بچو کہ کہیں تم آزمائش میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ اللہ عزوجل کے طلبگار بنواور اپنی زندگیوں کا مقصد اس مقصود حقیقی کوبنالو۔ اللہ عزوجل نے حضور نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ جب لوگ آپ ﷺ سے میرے تعلق دریافت کریں تو انہیں کہہ دیں کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے نزدیک ہوں۔ پس طلب سچی ہوتو یقینا مقصود مل جاتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles