Aah Dr Jameel Jalibi Bhi Rukhsat Hue - Article No. 2022

Aah Dr Jameel Jalibi Bhi Rukhsat Hue

آہ! ڈاکٹر جمیل جالبی بھی رخصت ہوئے - تحریر نمبر 2022

ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ،برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا

Muhammad Sohaib Farooq محمد صہیب فاروق پیر 22 اپریل 2019

2018ء کاسورج پاکستان کے مایہ نازادیبوں ،سخنوروں،شاعروں اورمصنفوں کاداغ مفارقت دے کرغروب ہوااردوزبان وادب کے صف اول کے جن درخشندہ ستاروں سے ہم محروم ہوگئے ان میں رساچغتائی ،منوبھائی ،ساقی فاروقی ،مشتاق احمدیوسفی ،شاہدحمید،پروفیسرحنیف شاہد،مظہرکلیم ،محمدعمرمیمن،یوسف حسن ،محمدسعیدشیخ ،ڈاکٹرسلیم آغاقزلباش ،پروین عاطف ،فہمیدہ ریاض ،الطاف فاطمہ ،ڈاکٹرعطش درانی ،ابصارعبدالعلی ،ڈاکٹرسلیم اخترشام تھے ۔
ہنوز سال گذشتہ کے گہرے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ 2019کے آغازمیں اردوزبان وادب کی خدمات میں حوالہ کے طورپرپہچانی جانے والی عظیم ادبی شخصیت ڈاکٹرجمیل جالبی کاسانحہ ارتحال بجلی کی طرح آن پڑا۔قحط الرجال میں ان نابغہ روزگارعبقری شخصیات کی محرومی کاخلاکبھی پُرنہیں ہوسکتا ،بہرحال موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے ہرنفس کوواسطہ پڑناہے لیکن اپنے اوپرمشقت برداشت کرکے دوسروں کے لئے سامان راحت وفرحت مہیاکرنے والے امرہوجاتے ہیں ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ،برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)

ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ ان کے آباء و اجداد مشہورپشتون قبیلہ یوسف زئی سے تعلق رکھتے تھے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کی ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک جبکہ میرٹھ کالج سے انٹر اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کوپروفیسر کرار حسین ، ڈاکٹر شوکت سبزواری، اورپروفیسر غیور احمد رزمی جیسے یکتائے روزگار اساتذہ ملے جن کے زیرسایہ آپکی ادبی صلاحیتیں پروان چڑھیں ۔
ڈاکٹرجمیل جالبی کے داد ا اوراردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ سید جالب دہلوی آپ کے آئیڈیل تھے لہذا انہی کے نام کی نسبت سے اپناتخلص جالبی رکھا۔
تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے بھائی کے ہمراہ پاکستان کے شہرکراچی میں سکونت پذیرہوگئے ۔
بعد ازاں جمیل جالبی بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں بطور ہیڈ ماسٹرکام کرنے لگے۔ جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اس کے بعد1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اْردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راوٴ پدم راوٴ پر ڈی لٹکی ڈگریاں حاصل کیں۔
بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ قبل ازیں انہوں نے ماہنامہ” ساقی“ میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ” نیا دور “بھی جاری کیا۔

ڈاکٹرجمیل جالبی اردوادب کی ایک کثیرالجہت شخصیت تھے آپ ایک نامور اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی موٴرخ تھے و ہ چیئرمین ادارہ فروغ قومی زبان اور صدر اردو لْغت بورڈ کے علاوہ سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کے عہدہ پربھی فائز رہے آپ کا سب سے اہم کام قومی انگریزی اردو لغت کی تدوین اور تاریخ ادب اردو، ارسطو سے ایلیٹ تک، پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ جیسی اہم کتاب کی تصنیف و تالیف ہے
ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں ادارہ فروغ قومی زبان کے چیئرمین تعینات ہوئے۔
اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔
جالبی صاحب نے فقط بارہ سال کی عمر میں اپنی پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو کے ذریعہ سے اپنے آپ کو متعارف کروایا انکی یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کی گئی۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ آپ نے جارج آرول کے ناول کا ترجمہ ”جانورستان“ کے نام سے کیا۔
جبکہ ’تاریخ ادب اردو “اور” پاکستانی کلچرقومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے “آپ کاایک لازوال تاریخی کارنامہ ہے ۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں مثنوی کدم راوٴ پدم راوٴ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، تنقید و تجربہ، نئی تنقید،ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش ،جرء ت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل ، قدیم اردو کی لغت بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں،ارسطو سے ایلیٹ ، جانورستان، ایلیٹ کے مضامین تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں ر خوجی اور حیرت ناک کہانیاں ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں بیسیوں اعزازات وانعامات سے نوازاگیاآپ کو 1964ء، 1973ء، 1974ء اور 1975ء میں داوٴد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل،1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارہ امتیاز اور1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے 89 سال 10 ماہ 6 دن کی عمر میں18 اپریل 2019ء کو کراچی میں وفات پائی۔

Browse More Urdu Literature Articles