Aik Qatra Aur - Article No. 1150

Aik Qatra Aur

ایک قطرہ اور - تحریر نمبر 1150

عرفان پانی کی بوتل کھلی کھڑکی میں سے باہر انڈیل رہا تھا۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے پانی کے چھینٹے نہ جانے کہاں کہاں جاکر گررہے تھے ۔اچانک عرفانہ نے اسے ڈانٹا ” عرفان کے بچے ! یہ کیا کررہے ہو پانی ضائع کررہے ہو ۔

جمعرات 19 جنوری 2017

حامد مشہود :
عرفان پانی کی بوتل کھلی کھڑکی میں سے باہر انڈیل رہا تھا۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے پانی کے چھینٹے نہ جانے کہاں کہاں جاکر گررہے تھے ۔اچانک عرفانہ نے اسے ڈانٹا ” عرفان کے بچے ! یہ کیا کررہے ہو پانی ضائع کررہے ہو ۔
وہ اپنا کام کرتے ہوئے بولا ’پانی ختم نہیں ہونے لگا نصیحت بھری بہن !
پانی ختم بھی ہوسکتا ہے جناب !
عرفانہ صاحبہ ! یہ کوئی صحرا نہیں ․․․․․․․ کراچی ہے کراچی ۔
ایک طرف چنگھاڑتا ہوا دریائے ۔ سندھ ہے تو دوسری طرف موجیں مارتا ہوں بحیرہ عرب ہے ․․․․․․․ پانی ہی پانی لہریں ہی لہریں ۔
تم خدا پاک کی نعمت کی حفاظت پر مامور ہو۔
عرفان ! شرم کرو۔ عرفانہ نے اسے پھر ڈانٹا۔
مگر عرفان نے شرم نہ کی اور ایک بوتل خالی ہونے پر دوسری بوتل کاصاف پانی باہر گرانے لگا۔

(جاری ہے)

پھر اس نے جب تیسری بوتل پر ہاتھ صاف کرنا چاہاتو عرفانہ نے اس کی کمر پرپوری طاقت سے گھونسامارا۔

جواب میں عرفان نے اسے گدھے کی طرح دولتی جھاڑی اور پھر کھلی جنگ کاآغاز ہوگیا ۔ اچانک ان کی امی وہاں آن پہنچیں اور انہوں نے اس جنگ میں ثالث بن کرمداخلت کی۔ انہیں ایسی جنگیں ختم کرانے کا تجربہ تھا انہوں نے دونوں بچوں کو دودو تھپڑرسید کئے اور یوں جنگ بند ہوگئی ۔
ان کی امی نے ان دونوں کے کان کھینچے تو وہ دونوں اپنی اپنی صفائی پیش کرنے لگے ، دلائل دینے لگے ۔
ان کی امی نے ان کی بحث سن کر عرفانہ پر خوب غصہ کیا کہ وہ پانی کیوں ضائع کررہا تھا۔ وہ منہ بسور کر بولا آپ بھی غسل خانے میں چلائے رکھتی ہیں بغیر کسی معقول وجہ کے کیا اس وقت پانی ضائع نہیں ہوتا َ؟
اس سے پہلے کہ ان کی امی جان بھی اپنی غلط روش کا کوئی درست بہا نہ تراش لیتیں ،اچانک ان کے ابو ساجد صاحب دفتر کے کمرے میں سے بتی بجھا کر باہربرآمد ہوئے اور بولے ” لوجی کام ختم ہوگیا ہے ہم تین دن آرام کریں گے ۔

ان کے اس اعلان پر سب نے خوشی کااظہار کیااور کیوں نہ کرتے ۔ آخر وہ ان کے انتظار میں شام ساڑھے سات بجے سے وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ساجد صاحب دفتر کے کاغذات کے انبار میں سے برآمد ہوں تو وہ ان کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے جائیں ۔ اس کے ساتھ ہی تفریحی مقامات کیلئے تجاویز دینے کااعلان ہوگیا ۔
عرفان نے کہا ” کلفٹن ۔
عرفان نے کہا ” ہاکس بے “
عرفانہ بولی ” سوات ۔

عرفان بولا” کاغان نہ چلے جائیں ۔
اور پھر ان میں زبانی کلامی جنگ کاآغاز گیا ‘ جووالدین کی موجودگی کی وجہ سے عملی صورت اختیار نہ کرسکی۔ مسز ساجد نے کہا ” پہلے کہیں چل کر کھاناتو کھاتے ہیں ۔ آپ ذرایاد کریں آپ نے ہیوی ڈنر کا وعدہ کر رکھا ہے ۔
ہمیں یاد ہے بیگم ! ہم ابھی اپنا وعدہ پورا کئے دیتے ہیں ۔عرفان ! یہ کھڑکی بند کرکے چٹخنی چڑھا دو۔
ساجد صاحب دفتر کے بیونی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولے جو آفس بوائے ان کی فیملی آجانے پر بند کرکے چلاگیا تھا۔ عرفانے کھڑکی بندکردی ۔ پھر وہ تینوں بھی ساجد صاحب کے پیچھے پیچھے دروازے تک جاپہنچے ۔
ساجد صاحب نے دفتر کا بیرونی دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو ناکام رہے ۔ دروازہ بہت مضبوط تھا جس میں ایک مضبوط انٹرنل لاک لگا ہوا تھا جواندر اور باہردونوں اطراف سے چابی کی مدد سے بندہوتا تھا اور کھل جاتا تھا۔
ساجد صاحب لاک کے کی ہول میں بار بار چابی گھمارہے تھے مگر لال کھل نہیں رہا تھا ۔ لاک مختلف اقسام کے ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک بار گھمانے سے کھلتا ہے کوئی دو یاتین باراور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں چابی کو مخالف سمت میں دوبارہ گھمانا پڑتا ہے ۔ مگرساجد صاحب اس وقت ان تمام باتوں کو بھول کر کی ہول میں چابی گھماتے جارہے تھے ایک طرف کوزور لگاتے جا رہے تھے ۔
پھرانہوں نے فرش پر گھنٹے ٹیک کرلاک کوان لاک کرنے کی کوشش شروع کردی ۔
مسز ساجد نے کہا ۔ آپ اس دفتر میں گزشتہ دس سالوں سے کام کررہے ہیں مگر لگتا ہے کہ لاک پہلی بار کھول رہے ہیں ۔
وہ بولے ” دفتر کا دروازہ سارادن کھلارہتا ہے ۔ دفتر کا وقت ختم ہونے پر لاک لگایا جاتا ہے اور یہ کام آفس بوائے کا ہے میرا نہیں ۔
عرفان بولا ” لائیں میں کھولوں ․․․․․․ لاک کھولنے کیلئے ایک کاص تکنیک ہوتی ہے ۔

اس کی بات ادھوری رہ گئی ․․․․․ ساجد صاحب زور سے چابی گھمادی تھی اور پیتل سے بنی ہوئی ڈبلیکیٹ چابی کی ہول میں ٹوٹ گئی تھی ۔ چابی کازیادہ بڑا حصہ کی ہول میں تھا اور اس کا مختصر حصہ ان کی انگلیوں رہ گیا تھااور ․․․․․․․ اور ان کا رنگ زرد پڑگیا تھا ۔
اب کیا ہوگا ؟ مسزساجد نے گھبرا کرپوچھا ۔
ساجد صاحب اٹھ کر بولے ” اب ہمیں تین دن تک یہاں ہی بندرہنا ہوگا۔

مسزساجد بولیں ” توتین دن کل پرسوں اور ترسوں ․․․․․ نہیں نہیں یہ ہوسکتاآپ اپنے دفتر کے کسی اور ملازم کو فون کریں اور دروازہ کھلوائیں ۔
جواب ملا ” دفتر کاٹیلی فون خراب پڑا ہے ۔
اور آپ کا موبائل ٹیلی فون کب کام آئے گا ؟
اس کاآج بیلنس ختم ہوگیا ہے اب میں اس پر کال سن سکتا ہوں ‘ کر نہیں سکتا ۔
اس کے بعد وہاں پر ایک خوفناک خاموشی چھا گئی ۔
کچھ دیر بعد ساجد صاحب نے موہوم سی امید پر دروازے کے ساتھ منہ لگا کہ اونچی آواز میں ہمسایہ دفتر کے افراد کو بھی نام لے لے کر پکارا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہاں پر کوئی نہیں تھا۔ عمارت کے اس فلور پر صرف اور صرف دفتر تھے جو شام کے وقت بند ہوجاتے تھے ․․․․․․․ اور اس وقت رات کے نوبج چکے تھے ۔
ایک مقامی تعطیل تھی دوسری ملکی تعطیل تھی اور تیسری ہفتہ اور تعطیل تھی تین چھٹیاں اکٹھی تھیں جوان کیلئے سوہان روح بن گئی تھیں اس لئے کہ وہ اس دفتر میں قید ہوچکے تھے ۔
سب کے سب فکر مند ہورہے تھے ‘ عرفانہ کی آنکھوں میں آنسو رینگنے لگے تھے اور عرفان اپنی سب خرمستیاں بھول گیا تھا۔
عرفان نے کہا ” ابو ! اس لاک کو توڑ دیتے ہیں ۔
وہ بولے “ اس وقت میرا کمرا کھلا ہے یاباتھ روم ۔ میرے کمرے میں کاغذ ہیں ‘ قلم ہیں فائلیں ہیں اور ایک خالی گلاس ‘ باتھ روم میں صابن ہے اور پانی کی بالٹی ․․․․․․ بولو کس چیز سے لاک توڑدو گے ۔

وہ سب دروازے سے ہٹ کر دفتر کے سنٹرل لاؤنج میں آگئے اور پریشان ہوکر صوفوں پر بیٹھ گئے ۔ ساجد نے گرمی محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ کر اے سی چلا دیا۔ عرفان نے کھڑکی کھول کراپنا منہ باہر نکالااور گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کوآوازیں دیں ۔ مگروہ اس وقت بارہ منزلہ عمارت کے ٹاپ فلور پر موجود تھے آوازیں ہوا میں ہوا بن کررہ جاتی تھیں ۔ آوازیں دے دے کر اس کاگلا خشک ہوگیا۔
اس نے پانی پینے کیلئے ادھر اُدھر دیکھا۔ سامنے میز پر منرل واٹر کی وہ دوخالی بوتلیں پڑی تھیں جو اس نے ابھی ابھی ہوا میں نہایت فخر سے بہادی تھیں ۔ اس نے تیسری بوتل اٹھائی تھی کہ اچانک ساجد صاحب بولے ” عرفان ! پانی نہ پینا ‘ پانی کی صرف ایک بوتل ہے اور ہم چاروں کے سامنے تین دن اور چارراتیں پڑی ہیں ۔
عرفان بولا ” اور پانی نہیں ہے یہاں ؟
وہ بولے ” وہ سامنے ٹرانسپیرنٹ واٹر کولر پڑا ہے جس میں ایک قطرہ پانی نہیں ۔

باتھ روم میں پانی آرہا ہوگا“ عرفان نے اندازہ لگایا ۔
اس عمارت میں باتھ رومز کیلئے زمینی پانی مہیا کیاجاتا ہے جوساحل سمندر کی وجہ سے بہت کوڑا کسیلا ہوتا ہے‘ پینے کے قابل نہیں ہوتا ۔
عرفان نے بے بس ہوکرپانی کی بوتل دوبارہ میز پر رکھ دی ۔ پھراچانک دروازے کی طرف سے تڑ تڑاہٹ کی آواز سنائی دی اور سارے دفتر میں اندھیر اچھا گیا ۔
ساجد صاحب نے انہین بتایا ” دفتر کا برقی نظام تار جلنے سے بے کار ہو گیا ہے اور اب ہم بلڈنگ کے نچلے حصے سے پانی بھی نہیں کھینچ سکیں گے ۔ ہمارا موٹرواٹر پمپ بندہوگیا ہے ۔
یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔ وہ کڑوا اکسیلاپانی کھینچنے سے بھی محروم ہوگئے تھے۔ وہ کراچی میں رہتے ہوئے بھی صحرا میں پہنچ گئے تھے ۔ گرمی اندھیرا اور پاس ․․․․․․ ان تینوں مصائب سے مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے رات گزاری دی ۔
صبح کے وقت انہوں نے ایک ایک گھونٹ پانی کاناشتہ کیااور اللہ کاشکر ادا کیا ۔
وہ بھوک تو برداشت کررہے تھے لیکن پیاس سے جان نکلتی جارہی تھی ۔ عرفان نے اڑھائی اڑھائی لیٹر کی دو بوتلیں ضائع کی تھیں ۔ اگروہ پانی ضائع نہ کرتا تو کیسا آرام رہتا باقی بچنے والی تیسری بوتل نصف لیٹر کی تھی جو ان چاروں کیلئے کافی تھی ․․․․․․ اور باتھ روم میں بھی پانی دوسرے دن ختم ہوگیا تھا ۔

شام کے وقت عرفان نے بہت سے کاغذوں پر اپنا پیغام لکھ کر کھڑکی میں سے باہر پھینکا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ کاغذ نہ جانے کہاں جا کرگرتے رہے ۔ رات کے وقت جب ساجد صاحب کھڑکی میں سے آنے والی مدھم چاندنی کی مدد سے ب کو تھوڑا تھوڑا پانی تقسیم کررہے تھے تو عرفان نے کہا ” ابوذرا پانی اور ڈال دیں ۔
نہیں اور پانی نہیں مل سکتا ۔
ابو ! حلق میں کانٹے اگ آئے ہیں ۔
بارہ گھنٹے ایک گھونٹ پانی پیا تھا۔
مجبوری ہے بیٹا !
” ابو تھوڑا سا اور پانی ․․․․․․ صرف تھوڑا سا ۔
نہیں جی ۔
ایک قطرہ ․․․․․․ صرف ایک قطرہ ۔
قطرہ قطرہ قلزم بنتا ہے اورہمارے پاس قلزم ہے اس کی مقدار بہت محدود ہے سوری ۔
نعمت خداوندی کی قدر اب عرفان کو معلوم ہوئی تھی ۔ اسی لئے وہ ایک ایک قطرہ مانگ رہا تھا ایک ایک بوند کیلئے تڑپ رہا تھا ۔

ان چاروں نے وہاں وہ دن کیسے کاٹے اور راتیں کیسے گزاریں ․․․․․ اس بات کو اور اس حقیقت کو یہاں الفاظ میں سمونا ممکن نہیں ۔ بس صبح شام وہ ایک ایک گھونٹ پیتے تھے وہ بھی بہت چھوٹا سا۔ یعنی چسکی لے کر جیتے تھے ۔ تین دن ان کیلئے تین سال بن کرگزرے اورجب دفتر کھلا تو وہ نہ بے ہوش پڑے تھے اور نہ ہی ہوش میں تھے ۔ بس درمیانی سی حالت میں مبتلا تھے ۔
وہ بات نہیں کرسکتے تھے صرف بڑبڑاسکتے تھے ۔ لوگوں نے انہیں طبی امداد کیلئے ہسپتال پہنچا دیا جہاں انہیں سارا دن گلوکوز پلایا جاتارہا۔
اب توعرفان صاحب پانی پھینک کرلطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ ہی مسز ساجد پانی کانل کھول کر ہنڈیا پکاتی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles