Arif Shafiq, Munfarid Usloob Ke Inqalabi Shayar Hum Se Bichar Gaye - Article No. 2218
عارف شفیق، منفرد اسلوب کے انقلابی شاعر ہم سے بچھڑ گئے۔۔۔تحریر : محمد عبداللہ - تحریر نمبر 2218
من حیث القوم ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم تخلیق کار کے فن کو بھی سیاسی، سماجی اور مذہبی وابستگی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔عارف شفیق کی سیاسی وابستگی کی بدولت ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے۔ان کی شاعری میں معاشرے کے عام فرد کے مسائل اور تکالیف کی جھلک دکھائی دیتی ہے
پیر 16 دسمبر 2019
(جاری ہے)
غربت، لاچاری اور بے کسی کی بدولت فاقہ کشی پر مجبور انسانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عارف شفیق قلم طراز ہو ئے کہ غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ارباب بست و کشاد کی ریشہ دوانیوں کی بدولت کراچی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر کئی بار خون کی ہولی کھیلی گئی۔
اپنی گندی سیاست کو چمکانے کے لیے ہر سیاسی جماعت نے کراچی کے باسیوں کے سامنے مہاجر، پٹھان، سندھی اور پنجابی ہونے کی بین بجائی اور اپنا الو سیدھا کیا۔سیاست، مذہب، زبان اور قومیت کا لبادہ اوڑھ کر، کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے والے نسان نما درندے عارف شفیق کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ ملی ہو جو کسی کا گھر جلا کر لگا دو آگ ایسی روشنی کو اک فتویٰ پھر آیا ہے یہ غاروں سے کافر کہہ کر مارا جا سکتا ہے مجھے عارف شفیق ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے شاعری کے علاوہ کوچہ صحافت میں بھی آبلا پائی کی۔وہ ہفت روزہ سینٹرل نیوز، ماہ نامہ وقت ایشین آرٹ اور ماہنامہ اردو مورچہ کے چیف ایڈیٹر رہے۔وہ ماہنامہ ادبی دنیا اور کرائم سٹوری کے ساتھ بھی چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔قومی اخبار، روزنامہ ایکسپریس میں ادبی کالم اور روزنامہ جرات اور پرچم میں سیاسی کالم لکھتے رہے۔عارف شفیق قومی آواز اور پرچم میں قطعات لکھتے رہے۔ ان کے 9 شعری مجموعے اندھی سوچیں ، گونگے لفظ، سیپ کے دیپ، جب زمین پر کوئی دیوار نہ تھی، احتجاج، سر پھری ہوا، میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا، میرا شہر جل رہا ہے، یقین اور میری دھرتی میرے لوگ شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری کی دنیا کے دمکتے ماہتاب عارف شفیق انقلاب کے علمبردار تھے۔وہ ایام جوانی سے لے کر تادم مرگ ایم کیو ایم سے وابستہ رہے۔من حیث القوم ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم تخلیق کار کے فن کو بھی سیاسی، سماجی اور مذہبی وابستگی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔عارف شفیق کی سیاسی وابستگی کی بدولت ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے۔ان کی شاعری میں معاشرے کے عام فرد کے مسائل اور تکالیف کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ محبت، جدائی، وفا، جفا، پھول، کانٹے، انسان، کائنات، زندگی کی بے ثباتی اور خدا ، عارف شفیق کی شاعری کے موضوعات تھے۔ عارف حسین دھوکا سہی اپنی زندگی اس زندگی کے بعد کی حالت بھی ہے فریب منفرد اسلوب کے انقلابی شاعرعارف شفیق کافی عرصے سے فالج اور سانس کی بیماری میں مبتلاتھے۔وہ 14دسمبر2019ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ انقلابی شاعری میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی وفات سے انقلابی شاعری میں ہونے والا خلا شائد صدیوں بعد پورا ہو۔Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez