Asar E Hazir Ka Shair BePanah Ahmad Atta Ullah - Article No. 2463
عصرِ حاضر کا شاعرِ بے پناہ ۔۔۔۔۔احمد عطاء اللہ - تحریر نمبر 2463
بلاشبہ احمد عطاء اللہ کو قدرت نے بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ان کے شعر کہنے کی رفتار اس قدر ہے، گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس دنیا کو شاعری کی مہکتی خوشبوؤں سے معطرکرنے کیلئے آئے ہوں
لقمان اسد منگل 1 دسمبر 2020
بلاشبہ احمد عطاء اللہ کو قدرت نے بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ان کے شعر کہنے کی رفتار اس قدر ہے، گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس دنیا کو شاعری کی مہکتی خوشبوؤں سے معطرکرنے کیلئے آئے ہوں ۔اس برق رفتاری کے ساتھ شعر کہنے کے باوجود ان کی شاعری کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا بلکہ جتنی رفتار بڑھتی جاتی ہے رنگ اتنا ہی کھِلتا اور نکھرتا جاتا ہے ۔اس کمال ،وصف اور اس بے نظیر عطاء کا کوئی جواب نہیں ،یہ لاجواب ہے۔
(جاری ہے)
ان کے اشعار پڑھتے ہی ذہن کی لوح میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔روانگی ،تسلسل اور اندازِ بیاں منفرداوربے مثل ہے ۔
رونے والوں کو زیادہ نہیں پوچھا جاتا
منتوں سے کبھی رشتے نہیں قائم رہتے
جانے والوں کو دوبارا نہیں پوچھا جاتا
جانے والوں کو جتاتے نہیں بھولے وعدے
آنے والوں سے بھی رشتہ نہیں پوچھا جاتا
بس محبت ہے جسے لکھتے ہیں دونوں ملکر
ترکِ الفت کا تو املا نہیں پوچھا جاتا
کوفہ والوں کو بتاتے نہیں دل کی حالت
اہلِ لاہور سے رستہ نہیں پوچھا جاتا
احمد عطاء اللہ کی شاعری میں گہری سوچ رکھنے والوں کیلئے وسعت ہے ۔اتنی وسعت کہ جتنا گہرائی میں جا کر وہ سوچ سکیں ،ان کے اشعار، ان کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں گے۔ جوقاری زیادہ گہرائی تک جانے والے نہیں ہوتے انہیں بھی وہ تنہا نہیں چھوڑتے ۔ان کی شاعری ہر زاویہ اور ہر نقطہ نگاہ سے مکمل ہے۔احمد عطاء کا، اندازِ سخن اور منفرد شعری لب و لہجہ انھیں " شاعرِ کامل" کے درجے پر فائز کرتا ہے۔
وہ زندہ دل شخصیت ہیں ۔مایوسی اور تنہائی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتے ۔احمد عطاء اللہ خود اعتمادی کیساتھ شعر کہتے ہیں ۔بڑے دبنگ انداز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں ۔ان کی شاعری کا حسن یہ بھی ہے کہ وہ سادگی اور شفافیت سے بھرپور ہے۔
میں منافق تو نہیں کھل کے حسد کرتا ہوں
سن ہی سکتا نہیں اک لفظ محبت کے خلاف
اس میں اب دل کی دلیلوں کو بھی رد کرتا ہوں
جو بھی عجلت میں ہو دے دیتا ہوں اس کو رستہ
میں تو صحراؤں میں مجنوں کی مدد کرتا ہوں
عمر تحصیلِ ہوس میں میری گزری ہے عطاء
اب تو جاری میں محبت کی سند کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن کب عشق کی قامت کے برابر آیا
رفتہ رفتہ تُو محبت کے برابر آیا
پھول کی شکل مِرے زخم سے ملنے لگی تھی
چاند اک روز مِری چھت کے برابر آیا
میں بھی کہتا تھا کہ ہو عشق تو ہو جاتا تھا
دو برس میں تیری قدرت کے برابرآیا
لوگ اعمال کے بدلے میں طلب کرتے ہیں
تیرا گلگشت بھی جنت کے برابر آیا
میرے انکار کی ضد میں کہیں موجود ہے تُو
میرا تو کفر شہادت کے برابر آیا
حُسن تخلیق ہوا عشق کی پسلی سے عطاء
مرد اک روز تو عورت کے برابر آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری وحشت سے نہ ڈر جائیں آپ
اچھے بچے ہیں تو گھر جائیں آپ
آپ کہتے ہیں مگر لگتا نہیں
اس جدائی سے ہی مر جائیں آپ
اب یہ رخسار چمکتا رہے گا
چاہے دنیا میں جدھر جائیں آپ
اس سے آگے ہے وفا کا گلگشت
چلتی گاڑی سے اُتر جائیں آپ
ہم سے ٹیڑھے ہیں مثالوں کیلئے
مت یہ کہنا کہ سدھر جائیں آپ
احمد عطاء اللہ کا تخلیقاتی سفر جاری و ساری ہے۔دُعا ہے کہ تادیر ا ن کا قلم اسی برق رفتاری سے سخن کی دنیا سنوارتا رہے۔ان کے اشعار صفحہ قرطاس پر یونہی جگنو ؤں کی طرح چمکتے دمکتے رہیں ۔ ان کے پرستاراوراہلِ علم و ادب اُن کے دلکش شعری اسلوب و بیاں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez