Bachpan Guzra Aaya Larakpan - Qist 1 - Article No. 2395

Bachpan Guzra Aaya Larakpan - Qist 1

بچپن گزرا آیا لڑکپن ۔ قسط نمبر1 - تحریر نمبر 2395

دوسرے ساتھیوں کو دیکھ کر سائیکل چلانے کا شوق پیدا ھو گیا. فضل اور میں گھاس منڈی میدان میں کبھی کرایہ کی سائیکل کبھی چھٹی والے دن چچا صاحب کی سائیکل سے پریکٹس کرتے تھے

Arif Chishti عارف چشتی جمعرات 16 جولائی 2020

1960 سے مڈل میں درسی گیس پیپرز کا سلسلہ شروع ھوگیا تھا. مالی حالت دگرگوں تھی کیونکہ دیگر بہن بھائی بھی تعلیم حاصل کر رھے تھے، آمدن کم تھی. مہینہ کے آخر میں ادھار پر گزارا ھوتا تھا. اصغر اور عبدالرزاق سے لیکر رات بھر بیٹھ کر درسی پیپرز نقل کرتا رھتا تھا. اب زیڈ کی اور آئی کی نب کی قلم سے چھٹکارا مل گیا تھا. اب ربڑ کی ٹیوب والا پین متعارف ھو چکا تھا.
نچلے حصہ میں اندر ٹیوب ھوتی تھی اور باھر ٹپ کو اوپر نیچے کرکے سیاھی بھر لی جاتی تھی. ھیڈنگ سرخ، بقیہ نیلی سیاھی سے تحریر کرتے تھے. ایگل پین آٹھ آنے میں ملتا تھا. ویسے شیفر پین چچا صاحب نے دیا تھا لیکن استعمال کا طریقہ نہیں آتا تھا بس شو پیس کے طور پر کئی سالوں تک سنبھالے رکھا.

(جاری ہے)


دوسرے ساتھیوں کو دیکھ کر سائیکل چلانے کا شوق پیدا ھو گیا.

فضل اور میں گھاس منڈی میدان میں کبھی کرایہ کی سائیکل کبھی چھٹی والے دن چچا صاحب کی سائیکل سے پریکٹس کرتے تھے. پہلے فریم میں سے پائوں پیڈل تک پہنچا کر دوسری طرف ایک ساتھی سہارا دیتا تھا، (جسے قینچی کی طرح سائیکل چلانا کہتے تھے) اور پھر وہ آگے کو زور لگاتا تھا اور میں پیڈل کو پائوں سے زور لگا کر بیلنس کرتا تھا. لیکن کئی دفعہ گرنا پڑا تھا.
ایک دن ایک صاحب کے چھوٹے بچے کو سائیکل کا پہیہ لگ گیا، اسنے تھپڑ مارنا شروع کر دیے. ایک دن گر کر دائیں ٹانگ زخمی کرلی، جسکا نشان اب بھی باقی ھے. آخرکار سائیکل چلانا سیکھ ھی لی. فضل الرحمن کا دوست محفوظ الرحمان ایک ایجادی دوست تھا انکا گھر گھاس منڈی کے سامنے تھا. اس نے لکڑی کی ڈبیہ پر تانبہ کی تار اور کرسٹل سے ایک آلہ ایجاد کیا تھا.
دو تاروں کو کنکشن دے کر ایک منی سپیکر جوڑ کر ایک خالی ڈبہ یا گلاس میں ڈال کر تانبہ کی تار کو کرسٹل پر رگڑتا تھا، تو ریڈیو پاکستان کے واحد اسٹیشن کی نشریات صاف سنائی جاتی تھیں. مجھے بھی بہت شوق ھوا. جب بھی وقت ملتا اس شوق کو پورا کرتا. فضل کے ھمراہ نسبت روڈ کے کباڑ خانوں سے کرسٹل اور ھیڈ فون لا کر اپنے طور پر تبدیلیاں کرکے ایک منی ریڈیو بنا لیا تھا.
یہ سارے کام پڑھائی سے بچے فالتو وقت میں یا گھر سے بعض اوقات چوری ھوتے تھے. اس شوق کو بھی خوب پورا کیا.
جہاں تک سیر و تفریح کا تعلق ھے، مڈل سے میٹرک تک والد صاحب اور چچا صاحب لے جاتے تھے، سب بہن بھائیوں کے ھمراہ جانا ھوتا تھا. ھر سال 23 مارچ کو شالامار باغ میں مادھو لال حسین کا میلہ ھوتا تھا. گھر سے پیدل ھی سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ھاتھ پکڑ کرچلتے جاتے تھے.
مغلپورہ کے بعد رش بہت ھو جاتا تھا اور پھر کافی تعداد میں سرکس، موت کے کنویں پر جوکروں کے کرتب اور ھیجڑوں کے ڈانس دیکھتے تھے. استاد پیڈرو اور فرزند علی کی ایرانی سرکسوں کی بڑی دھوم تھی. کتلمے اور جلیبیوں کے درجنوں سٹالز لگے ھوتے تھے. والد صاحب نے ایک آدھ دفعہ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل کے کرتب دکھائے تھے. لیکن فضل اور انور کے ساتھ مل کر چوری جا کر سرکس بھی دیکھ لیتا تھا اور مزے اڑاتے تھے.
چچا صاحب کے ھمراہ تانگے پر بیٹھ کر ھر جمعرات حضرت علی ھجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری ھوتی تھی. پاکستان بھر سے قوال آکر قوالیاں کرتے تھے، دھمالیں ھوتی تھیں، خوب چڑھاوے چڑھتے تھے، خوب لنگر تقسیم ھوتا تھا اور ملحقہ مسجد میں پنجاب بھر سے مواعظ اور علماء تقاریر کرنے آتے تھے سننے سے روحانی کیفیت طاری ھو جاتی تھی. علی دھرمپورہیا مستقل کوچوان تھا اسکو تانگہ چچا صاحب نے ھی خرید کر دیا تھا.
دن کو تانگے کے دونوں طرف فلمی اشتہارات کے بورڈ لگے ھوتے تھے اور کبھی اسٹیشن تک کبھی مغلپورہ تک دن کو تانگہ چلاتا تھا.
23 مارچ اور 14 اگست کو ھر سال مٹی کے دیوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر دیواریں کی منڈیروں پر رکھ کر جلاتے تھے خوب رونق لگتی تھی. ھر گھر کے ساتھی مقابلہ بازی کرتے تھے.ھوا سے جو دیا بجھ جاتا، دوبارہ جلانا پڑتا تھا. 14 اگست منانے کے لیے ایک روز پہلے سب مل میدے کی لیٹی بنا کر دھاگے پر پاکستانی پرچم کے جھنڈے چپکاتے تھے اور پھر گھر کی چھت سے لٹکا کر فرنٹ کو سجا دیتے تھے، ریڈیو کے پرانے لمبے چوڑے اینٹینا کی وجہ سے کافی احتیاط کرنا پڑتی تھی، کیونکہ چھت سے گرنے کا اندیشہ ھوتا تھا البتہ خوب محظوظ ھوتے تھے.
بعض اوقات بارش کی وجہ سے مزہ کرکرا ھو جاتا تھا.ھر سال فورٹرس سٹیڈیم میں دن کو ھارس شو اور رات کو ٹیٹو شو کے دوران فوجی نیز بازی، دوڑوں کے مقابلے ، بینڈ کا مظاہرہ اور سلامی پیش کرتے تھے، موٹر سائیکلوں پر مختلف کرتب دکھاتے تھے، اس میں جوکروں کے کرتب انتہائی مزے دار ھوتے تھے. آخر میں رات بارہ بجے سٹیڈیم کی تمام روشنیوں کو بند کرکے رنگ برنگی آتشبازی کا زبردست مظاہرہ ھوتا تھا.
گراونڈ میں مشعل بردار فوجی مشعلوں سے کبھی پاکستان کا جھنڈا، کبھی پہاڑیاں، کبھی پاک فوج زندہ باد اور آخر میں پاکستان زندہ باد بنا دیتے تھے پھر اختتامی ترانہ ھوتا تھا. انتہائی خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے تھے جو آج تک ذھن میں نقش ھیں.
مقبرہ جہانگیر شہر سے باھر دریائے راوی سے ملحق تھا، اس وقت والد صاحب اور انکے دوستوں کے ھمراہ خوب جی بھر کر سیر کی اور فوارے وغیروں سے لطف اٹھایا تھا.
رات کو ایک دوست نے رھائش کا بندوبست کیا تھا، وھاں بار بی کیو کی محفل جمی اور دلیپ کمار اور وجنتی مالا کی انڈین فلم 'نیا دور' ایک پردہ لگا کر دکھائی گئی تھی. بہت ھی مزہ آیا کہ آج تک نہیں بھول سکا. انہی دنوں ماموں احمد علی جو کہ منیلا کے پاکستانی سفارتخانے میں فرسٹ آفیسر تھے، نے کورئیر سروس سے انسورنش کردہ لکڑی کی ڈبیا میں میرے لیے ایک پارکر پین اور سونے کی دس تولے کی چین بھیجی تھی کہ جب میں میٹرک کرلوں تو دونوں تحفے کے طور پر مجھے دے دی جائیں.
حیلے بہانے چلتے رھے لیکن انکی شکل زندگی بھر دیکھنے کو نہ ملی. آسمان نگل گیا یا زمین. چین کی خورد برد کا تو معلوم ھوگیا تھا کہ کس کے پاس ھے، لیکن پین کا پتا نہ چل سکا.انہیں دنوں ایوب خان صدر پاکستان نے پورے ملک میں میٹرک سسٹم رائج کر دیا تھا، کیونکہ امریکہ کا دباؤ بہت تھا. اب ایک روپے کے سو ٹیڈی پیسے تھے. مختلف لوگوں نے ایک پیسہ، دو پیسے، پانچ پیسے، دس پیسے، پچیس پیسے اور پچاس پیسے کے سکے دوکانوں کے باھر کاونٹرز لگا کر بیچنا شروع کر دیے تھے.
ایک روپے کے 95 ٹیڈی پیسے ملتے تھے. پانچ پیسے کاونٹر والے کی کٹوتی ھوتی تھی. عرصہ دراز تک آنے، چونیوں کے حساب سے ٹیڈی پیسوں کا حساب ھوتا رھا. چھوٹے بچوں کا اومنی بس کا کرایہ ایک آنے کی بجائے اب 7 پیسے اور بڑھوں کا کرایہ 13 پیسے ھو گیا تھا. اندازہ لگائیں صرف ایک ٹیڈی پیسہ بچانے کے لئے دو بچوں کا کرایہ 13 پیسے کا ٹکٹ لیکر بچایا جاتا تھا. ھر دوکان پر پیسوں کا جھگڑا ھی رھتا تھا.
ابھی بھی پرانے سکے چل رھے تھے، جو وقت کے ساتھ اختتام کو پہنچے، جب پرانے سکوں کا لین دین بند کر دیا گیا. گز کی بجائے اب میٹر جو کے پیمائش میں گز سے زیادہ تھا رائج ھوگیا. کپڑا بیچنے والوں، درزیوں اور گاہکوں کے لئے بھی کافی مسائل پیش پیدا ھو گئے تھے. گاہکوں اور درزیوں کو تو فٹوں اور گزوں کی پیمائش ازبر ھوتی تھی، اب تو میٹروں کا حساب کتاب کرنا پڑتا تھا.
میرے خیال میں شاید ایک دو دھائیوں تک دوھرا نظام ھی چلتا رھا تھا. دودھ اب سیر کی بجائے لیٹر کے حساب سے ملنا شروع ھو گیا تھا. 250 ملی لیٹر، 500 ملی لیٹر اور 750 ملی لیٹر کے حساب سے لوگ خرید کرتے تھے. اسی طرح دیگر تولنے کی اشیاء پائو، آدھ سیر، پونا سیر اور سیر کی بجائے کلو اور گراموں میں ملنا شروع ھوگئی تھیں. ساتھ ساتھ پرانا نظام بھی کافی عرصہ چلتا رھا.
کیونکہ نیے باٹ ابھی مکمل طور پر متعارف نہیں ھویے تھے، بس آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ چل رھا تھا. کئی سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رھا.
سکول میں حنیف جو یونس ایڈوکیٹ کا بیٹا تھا ایک فینسی سائیکل پر آتا تھا، صدیق کا والد واشر مین تھا. حنیف بہت خوب صورت تھا اور انتہائی ھنس مکھ چہرے کا مالک تھا، اسکے دانت کھلے رھتے تھے جیسے وہ ھر وقت ھنستا دکھائی دیتا تھا.
بعض اوقات اساتذہ غلط فہمی میں اسکی خام خواہ پٹائی کر دیتے تھے کہ تم تمسخر اڑا رھے ھو، لیکن ایسا نہ تھا. ایک دن دو پیرئڈ خالی تھے، ھم تینوں پرانا ایرپورٹ دیکھنے سائیکلوں پر چلے گئے. میں صدیق کی سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھ گیا تھا. پہلی دفعہ جہازوں کو قریب جا کر دیکھا کیونکہ کوئی جنگلہ وغیرہ نہ ھوتا تھا صرف موٹے پائپ لگے ھویے تھے. خوب سیر کی اور پھر آر اے بازار پہنچ گیے، وھاں جا کر حنیف کو شرارت سوجھی کہ یار سگریٹ پی کر دیکھیں کیا مزہ آتا ھے.
شاید چار آٹھ آنے ھی تھے. تین عدد لیمپ کے سگریٹ خریدے اور ٹک شاپ والے کے دیے سے سگریٹ سلگایے. کش لگانا تھا اچھو لگ گیا اور منہہ کڑوا زھر ھوگیا. وہ دونوں خوب کش لیکر سگریٹ پیتے رھے تھوک کی وجہ سے میرا سگریٹ تو آدھا منہہ میں ھی گیلا ھو کر ضائع ھو گیا تھا. زندگی میں پہلی دفعہ سگریٹ کا بھی مزہ لیا تھا. منہہ سے بدبو آرھی تھی اسلئے ایک ایک میٹھی سونف کی پڑیا کھائی اور سکول کی راہ لی.

سکول کے بوٹ پھٹ چکے تھے تلووں کی بجائے پرانی کاپیوں کے گتوں سے گزار چل رھا تھا. موچی بازار میں ایک ھندو موچی کو ناپ تو دیا تھا کہ وہ دو روپے میں بوٹ تیار کر دے گا، لیکن بس طفل تسلیاں ھی ملتی رھیں، بوٹ دوسال بعد جا کر ملے تھے.عبدالسلام صاحب آٹھویں کلاس میں انگلش پڑھاتے تھے وڈ وڑڈ کی poems, idioms, grammer اور جملے رٹنے میں کافی دقت آتی تھی دس دس دفعہ رٹا لگانے کے باوجود ذھن کند ھی رھتا.
بس بھولنا مقدر میں تھا. حنیف اور ذوالقرنین انگلش میں ذھین تھے، انکے گھر کا ماحول پڑھے لکھوں کا تھا. استاد محترم جناب سردار صاحب کی محبت بھری انتھک محنتوں سے مجھے ورنیکلر فائنل کے امتحان کے لئے بھی سلیکٹ کر لیا گیا. 1960 کے امتحانات میں منصور نے پنجاب میں دوسری پوزیشن حاصل کی. اسکی تصویر بھی اخبار میں چھپی تھی. میں پنجاب میں پانچویں پوزیشن لے سکا، انگلش میں کمزور ھونے کی وجہ سے.
سکول کے امتحان میں بھی اچھے نمبروں سے کامیابی ھوئی. دس دنوں کی سیر و تفریح سے خوب محظوظ ھوا چچا صاحب نے پہلے نیلو اور رتن کمار کی فلم"ناگن" دکھلائی کچھ دن بعد چچا منیر تاندلیانوالا سے ملنے آئے، تو سورن لتا اور درپن کی فلم "نور اسلام" جسکی نعت 'شاھے مدینہ یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی' آج بھی لوگوں کے ذھن میں نقش ھے. اب نویں کلاس کی پڑھائی اور بھی سخت مرحلے داخل ھو چکی.

Browse More Urdu Literature Articles