Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 3 - Article No. 2385

Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 3

بچپن کے دن بھی کیا دن تھے۔ قسط نمبر 3 - تحریر نمبر 2385

Arif Chishti عارف چشتی ہفتہ 4 جولائی 2020

چھٹی کلاس کی پڑھائی زور و شور سے شروع ھوگئی. سکول کے بعد والد محترم کی ٹیوشن شروع ھو جاتی تھی. معاشرتی علوم خواجہ صاحب پڑھاتے تھے. انتہائی خوش مزاج اور پیار کرنے والے استاد تھے. انکی کلاس میں 1958 کا کیلنڈر لٹکا ھوا تھا جس پر اسکندر مرزا کی تصویر بنی ہوئی تھی. بعد میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا تھا اور اب انکی تصویر والا کیلنڈر لگا دیا گیا تھا.
علاقے میں خوب صفائی و ستھرائی ھو رھی تھی جو خلاف ورزی کرتا اسکو پکڑ کر جیل بھیج دیتے. انتہائی سختی ھو رھی تھی. دکانداروں نے دوکانوں کو جالیاں لگا تھیں تاکہ مچھر اور مکھیوں سے بچائو ھوسکے. راشن کیونکہ کارڈز پر ملتا تھا اسلئے تمام اشیاء کی خرید کے لئے قطاریں لگ گئی تھیں. سڑکوں پر آرمی کے ٹرک دن رات گشت پر مامور تھے. زندگی میں شاید سب سے سخت مارشل لاء تھا.
کیونکہ کئی نامور شخصیات کو گرفتار بھی کر لیا تھا. غنڈوں اور اوباش لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور پٹائی بھی خوب ھو رھی تھی.
سکول کے دوستوں میں مزید ایک دوست کا اضافہ ھوگیا. عبدالغفور جسکی بچپن میں ایک آنکھ ضائع ھو گئی تھی. ریاضی میں وہ بہت قابل تھا اور ذھین بھی بہت تھا، اسلئے اس سے دوستی پکی ھوگئی. اسکا لہجہ دیہاتی تھا کیونکہ وہ کسی گاؤں سے ھڈیارہ بس سروس پر آتا جاتا تھا جو برکی روڈ پر چلتی تھی.
اسی سال پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا تھا. اس وقت لاھور کو محفوظ کرنے کے لئے دریائے راوی پر کوئی بند تعمیر نہیں کیا گیا تھا. جمعرات کی جھڑی تھی. سات روز تک مسلسل بارش ھوتی رھی. زیادہ تر مکانات مٹی سے تعمیر شدہ تھے، اسلئے پہلے انکی چھتیں رسنا شروع ھو گئیں. پھر درجنوں کے حساب سے مکانات منہدم ھونا شروع ھو گئیے. ھمارے سامنے کے چار مکان بھی زمین ھوگیے تھا اور انکے مکینوں کو پرانی گھاس منڈی منتقل کر دیا گیا تھا.
ھمارے اپنے گھر کی ایک چھت گر گئی تھی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا. پکی اینٹوں اور شہتیروں سے بنے دو بڑے ڈبل سٹوری کمرے بھی رسنا شروع ھو چکے تھے. گلیاں اور بازار نہروں کا منظر پیش کر رھے تھے. گھروں میں چولہے وغیرہ کے جلانے کا سوال ھے پیدا نہ ھوتا تھا. دفاتر اور سکولوں کالجوں میں چھٹیاں دے دی گئی تھیں. ایک روز میں اپنے والد کے ساتھ نیکر پہن کر سر پر گوندھا آٹا کنالی گونڈے میں ڈال کر تندور پر روٹیاں لگوانے جا رھا تھا پانی میری کمر تک تھا.
راستے میں مٹی دلدل بن چکی تھی. عین تندور کے قریب پہنچ کر میرے پائوں پھسل گیے اور میں گر گیا. کنالی کونڈا ٹوٹ گیا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا لیکن آٹا تندور والے نے بچا لیا. میرے انگوٹھے سے بے تحاشہ خون جاری تھا. والد صاحب نے اپنے رومال سے اسے دبا رکھا تھا تاکہ خون رک جائے.میں نے رو رو کر برا حال کر لیا. خوش قسمتی سے علاقے کے معروف ڈاکٹر نثار کا کلینک کھلا تھا.
اس نے فوری طور پر ایسی دوا لگائی کہ خون رک گیا اور انگوٹھا سن ھو گیا. پھر شاید ٹانکے لگائے تھے یا صرف مرھم پٹی کر دی تھی. گھر آکر دادی اماں نے والد صاحب کی سرزنش کی اور میں کئی دنوں تک مرھم پٹی کراتا رھا. ادھر دریائے راوی نے شاھدرہ، قصور پورہ، قلعہ لچھمن سنگھ، فیض آباد، مصری شاہ، شاد باغ، وسن پورہ، چاہ میراں، یکی گیٹ اور قرب و جوار کے تمام علاقوں میں زبردست تباھی مچا دی تھی.
دس دس بارہ بارہ فٹ پانی نے ان علاقوں کو ڈبو دیا تھا. مقبرہ جہانگیر بھی ڈوب چکا تھا. پرانا بڈھا دریا بھی بیپھر کر تباھی مچا رھا تھا. ان علاقوں کے مکین اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر دن رات گزار رھے تھے. کیونکہ ھر طرف پانی ھی پانی تھا. کئی مکین مکانات گرنے سے ھلاک ھو گئیے تھے. پانی میں سانپ بھی بہت تھے، جنکے کاٹنے سے درجنوں اموات ھوئیں. کئی لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے درختوں پر چڑھ گئے تھے لیکن بھوک اور پیاس کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے.
اور ھڈیوں کے ڈھانچے بن گئے تھے. ھمارے عزیزوں میں سے دو گھرانے شاد باغ رھتے تھے. انکے گھر پکے بنے ھویے تھے. گراؤنڈ فلور کے تمام گھر کم از کم دس دس فٹ ڈوب چکے تھے. سیلن کے نشانات کئی کئی سالوں تک انکی دیواروں اور چھتوں تک نظر آتے رھے. اس سیلاب سے ھزاروں لوگ موت کا شکار ھویے تھے. اللہ اللہ کرکے بارشیں رکیں پانی اترنا شروع ھو گیا. یوں یہ تباھی پھیلانے والا سیلاب پنجاب کی تاریخ کا حصہ بن گیا.
بعد میں ایوب خان کے دور میں ھی دریائے راوی پر پہاڑ نماں بند بنا دیا گیا، جس سے لاھور شہر تو محفوظ ھوگیا لیکن شاھدرہ اور اس کے ملحقہ علاقے سیلاب کی زد میں آتے رھے. سندھ طاس منصوبہ کے تحت ویسے بھی دریائے راوی کا پانی انڈیا نے بند کر دیا، لیکن پھر بھی خطرہ موجود رھا. بڈھا دریا تو سرے سے ختم ھو گیا، لیکن گھریلو استعمال کا گندھا پانی اس میں ڈال دیا گیا.اسی سال ھمارے ایک ھمسایہ نے ریڈیو فلکو کمپنی کا خریدا جو ایک اچنبھا تھا.
پرانے بزرگوں میں ایک سقہ جو گلیوں کی صفائی کے دوران مشکیزہ سے پانی ڈالتا جاتا تھا، اسکا تبصرہ بڑھا انوکھا تھا. وہ بھنگی جمعدار کے ساتھ ساتھ نالیوں میں پانی بھی ڈالتا اور کہتا جاتا 'ھن تے گھر گھر منڈوے بنن گے، نالے کنجریاں ناچیں گیں' اسکا مطلب تھا کہ مستقبل میں ھر گھر سینما ھائوس بن جائے گا اور ناچ گانے کی آوازیں آیا کریں گیں. اس ماشکی بزرگ کی بات بالکل سچ ثابت ھوئی.
آج ھر گھر میں ٹی وی، ایل سی ڈی، ٹیبلٹ اور طرح طرح کے موبائل موجود ھیں. بلکہ چلتے پھرتے ھر انسان ھاتھ میں سینما ھائوس رکھتا ھے.
اسی طرح ٹیبل، پیڈسٹل اور سیلنگ فینز متعارف ھوئے. محلہ میں سب پہلا سیلنگ فین ھمارے چچا کے گھر لگا لوگ آکر دیکھتے تھے اور حیران ھوتے تھے. اور مختلف تبصرے کرتے تھے، کیونکہ پہلے چھتوں پر ٹاٹ یا موٹے کپڑے کو لکڑی کی چپٹی میں لگا کر لٹکا کر رسی باندھ کر جھولانے سے ھوا لی جاتی تھی.
گرمیوں میں درمیان میں چارپائیاں بچھا کر دونوں طرف پیڈسٹل فینز لگا دیتے تھے، اس طرح پورا خاندان پنکھوں کی ھوا سے مستفید ھوتا تھا اور رات سکون سے کٹ جاتی تھی. البتہ آندھی اور بارش کی آمد پر افراتفری پڑ جاتی ھر کوئی اپنی چارپائی اٹھا کر کمروں کا رخ کرتا. آج بھی غرباء ایسا ھے کرتے ھیں.
والدین کی محبت تو بے مثال ھوتی ھے لیکن بعض عزیز و اقارب و دوست بھی محبت کا پیکر ھوتے تھے.
بچپن میں مجھے بہت محبت ملی. رشتہ میں چچا غنی ھجرت کے بعد ھمارے ساتھ ھی ڈرائنگ روم میں رھتے تھے. شادی شدہ تھے وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے کیونکہ میں انکے پاس ھی بیٹھ کر سکول کا کام کرتا تھا اور پاکستان بننے کے چار ماہ بعد پیدا ھوا تھا. دراصل انکے خمیر میں نرمی، قوت برداشت اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. ادھر کھوئے اور دودھ کی قلفیاں بیچنے والا بھیا آتا تھا.
میرے لیے ایک قلفی وہ لیکر دیتے تھے. دودھ کی قلفی ایک اور دو پیسے اور کھوئے کی بڑی قلفی ایک آنہ اور اس سے ڈبل دو آنہ کی ھوتی تھیں. اسکے علاوہ ایک بڑے میاں چمن کے انگور، ایک کپڑے کے بنے طوطے، میٹھی چورن کی پڑیاں، ایک بڑے میاں چھوٹے بانس میں لپٹا میٹھا گٹا اور چینی کے رنگین لچھے بیچنے آتے تھے، حاجی ملا ابلے مکئی کے بھٹے اور جیرا ابلے آلو چھولے کی چھابڑیوں میں بیچنے آتے تھے.
بچوں کی تفریح کے لئیے سپیرے، بندر و بکری اور ریچھ کا تماشہ دیکھانے والے مداری اور بچوں کے چھوٹے گھومنے والے جھولے لیکر عموماً آتے تھے اور مجمع اکٹھا کرنے کے بعد تماشہ دیکھاتے تھے.
بچے گھروں سے آٹا یا روٹی لا کر دیتے تھے کیونکہ نقد پیسے بچوں کے پاس نہ ھوتے تھے.ایک روز چچا غنی صاحب اپنی اور اپنے دوست کی فیملی کے ھمراہ پاکستانی فلم 'نوکر' جس میں اداکارہ سورن لتا اور انکے شوھر نذیر نے کام کیا تھا، جا رھے تھے، والد صاحب سے اجازت لیکر مجھے بھی ساتھ لے لیا. بڑی درد بھری فلم تھی. خاص طور اس فلم کی لوری ' راج دلارے میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں' بہت پر سوز تھی جو دل پر نقش ھو گئی.
آج بھی سنیں تو دل میں کچھ کچھ ھوتا ھے. اسکے علاوہ بچپن اور لڑکپن میں جنہوں نے سچی محبت کی ان میں چیدہ چیدہ نام اب بھی ذھن میں منقش ھیں. آر اے بازار کے بابابٹھل، اماں تالیعاں، اماں بالی، چچا منیر، چچا رمضان، بابا مولا بخش ڈاکٹر ھیومیو پیتھک، بابا عبداللہ لوھاری والے، پھوپھا عبدالرحیم، منیر احمد، پاجی عبدالحمید اللہ والے.
بدلتا ھے آسمان رنگ کیسے کیسے یہ تو آپ نے سنا ھی ھوگا.
محلہ کے دوستوں میں ایک انو پھڑیا بھی تھا جو کہ تعلیم میں کورا تھا وہ سقہ فیملی سے تعلق رکھتا تھا اور وہ انڈیا سے ھجرت کرکے آیے تھے. اسکو گھڑی سازی کا شوق بچپن سے ھی تھا، اسلئے اس نے صدر مین بازار میں ایک ایکسپرٹ گھڑی ساز کی شاگردی کر لی. چند ماہ گھڑی سازی کا کام سیکھنے کے بعد اس نے گھر کے دروازے پر چوھدری انو کی تختی لگا تھی. حالانکہ اسکے خاندان کا چوھدری برادری سے کوئی تعلق نہ تھا.
بعد میں ڈرائیوری سیکھ لی اور تختی بدل کر ملک انو بن گیا. دراصل وہ انتہائی کمتری کا شکار تھا. دولت اکٹھی کرنے کی اسکو دن رات فکر لگی رھتی تھی. ویسے دل کا کھرا تھا اسلئے لنگوٹیا ھی تھا.پڑھائی زور شور سے جاری تھی. اب اخراجات بڑھ رھے تھے. فیس معافی کی درخواست منظور ھوگئی، آدھی فیس معاف ھو گئی. اب سوجھ بوجھ اور رکھ رکھائو میں بھی تبدیلی انا شروع ھوگئی تھی، کیونکہ کچھ دوست آرمی آفیسرز، کچھ وکلا اور کچھ اساتذہ کے بچے تھے، (جاری ہے) �

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles