Badalte Rang - Article No. 2437

Badalte Rang

"بدلتے رنگ" - تحریر نمبر 2437

مصطفٰی تم یہاں کیوں آگئے ۔تم سے ملنے آ یا ہوں اتنے دن ہوگئے تمہیں دیکھے ہوئے۔ شاہدہ کو پیار بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے بولا۔

شمائلہ ملک جمعرات 24 ستمبر 2020

مصطفٰی تم یہاں کیوں آگئے ۔تم سے ملنے آ یا ہوں اتنے دن ہوگئے تمہیں دیکھے ہوئے۔ شاہدہ کو پیار بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے بولا۔
خبردار مجھے شاہدہ نہ بلانا ۔کیا ہو گیا ہے حیرت زدہ ہو کر مصطفٰی بولا ۔
شاہدہ جھنجھلاتے ہوۓ کچھ نہیں تم بس یہاں سے فورًا جاؤ میری کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے۔
شاہدہ کا بدلہ ہوا رویہ نظر انداز کرتے ہوۓ گراؤنڈ پر بیٹھ کر فیروزی شاپر سے سرخ اور کالے رنگ کی چوڑیاں نکالتے ہوۓ دیکھو میں تمھارے لیے کیا لایا ہوں۔

شاہدہ فل غصے میں آکر یہ کیا پاگل پن ہے ۔مجھے کچھ نہیں چاہیۓ ۔تم بس خدا کے لیے جاؤ یہا ں سے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولی ۔
مصطفٰی کندھے پر رکھے رومال سے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوۓ ۔
دو منٹ رکو مجھے پتہ ہے تم مجھ سے اس لیئے ناراض ہو کہ میں نے آنے میں دیر کر دی۔

(جاری ہے)

بہت مجبور تھا ۔روز ٹھیکیدار سے پیسے مانگتا اور وہ کام نہ دینے کی دھمکی دے کر مجھے چپ کروا دیتا تھا۔


شیریں بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ what a rubbish؟
مصطفٰی مسکراتے ہوۓ کچھ بولی تم ؟
نہیں
دوپٹہ گلے میں کیوں لیا ہوا ہے مجھے اچھا لگتا ہے جب تم دوپٹہ سر پر لیتی ہو ۔
شاہدہ یہ تمھارا پنڈ نہیں ہے مصطفٰی صاحب شہر ہے ۔یونیورسٹی ہے ادھر سب ایسے پھرتے ہیں ۔
تمہیں نظر نہیں آ رہا کیا ؟
مصطفٰی بات کو گھماتے ہوۓ اچھا چھوڑو تمہیں چُنری اور پازیب پسند تھی نا تمہارے لیے لایا ہوں ۔

یہ دیکھو دوبارہ سے شاپر کھولنے پر فورًا سے شاہدہ تمہاری عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا ؟
تمہیں کہا ہے نہ کہ مجھے کچھ نہیں چاہیۓ بے وقوف انسان۔
اتنے میں دو لڑکے ایک لڑکی آ گے شیریں تم ادھر ہو ؟
چلو
آؤٹنگ پر چلتے ہیں ۔حمزہ اپنی گاڑی لایا ہے۔
We are getting late ماریہ بولی
Yes exactly
شیریں بولی مصطفٰی کی طرف نفرت انگیز نگاہوں سے تکتے ہوۓ دوستوں کے ساتھ خوشی خوشی چلی گئ۔

مصطفِی ان پڑھ ضرور تھا پر نا سمجھ نہیں۔وہ شیریں کا بدلہ ہوا چہرہ دیکھ کر ہی ساری صورتحال بھانپ گیا تھا۔ٹوٹے دل سے گھر واپس آ یا بار بار
شاہدہ جس نے اپنا نام شیریں بنا رکھا تھا کا بدلہ ہوا چہرہ نظروں کے سامنے گھومتا رہا۔
آ گۓ تم اتنا جلدی؟
شاہدہ کے ساتھ تم نے تو سارا دن گزارنا تھا اسے شاپنگ کروانی تھی ۔
میری بچی خوش تو ہوئی ناں تمہیں دیکھ کر ۔
تمھارے بغیر وہ کتنا اداس ہوتی ہوگی۔
غم دل چھپاتے ہوۓ جی خالہ بہت خوش ہوئی ۔
دل کوقابو کرتے ہوۓ پر خالہ ۔
جی جی کیا ہوا میرا لال۔
خالہ ہچکچاتے ہوۓ ۔بیٹا میرے دل کو کچھ ہونے لگا ہے جلدی سے بتاؤ کیا ہوا۔یوں پہیلیاں نہ بجھواؤ۔
خالہ آپ بیٹھیں کرسی پر ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوۓ مصطفٰی بولا۔
شاہدہ پڑھ لکھ گئ ہے۔ہم اس کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا تلاش کریں۔
میں اس کے لائق نہیں ہوں۔
یہ تم کہہ رہے ہو جو بچپن سے اس کی ہر خوشی کا خیال رکھتے آۓ ہو ۔بیٹا مانا کہ والدین کے انتقال کے بعد تم اکلوتے وارث ہو ۔میں ہر حال میں شاہدہ کے والد سے تمھاری جائیداد واپس دلواؤں گی۔اور شاہدہ سے شادی بھی کروایں گی۔
خالہ آپ مجھ پر احسان کرنا چاہتی ہیں تو شاہدہ کو پڑھائیں اور اسے اپنے فیصلے کرنے دیں۔
ہوا کیا ہے تم اچانک ایسے کیسے بدل سکتے ہو۔

خالہ زارہ کی عمر زیادہ ہو رہی ہے اور سانولی رنگت زیادہ عمر کی وجہ سے رشتے والے انکار کر دیتے ہیں۔
خالہ لوگ بہت اندھے ہو چکے ہیں ۔چاہے میں بھی ہوں ۔ظاہری خوبی کے پیچھے چھپی ہوئی خوبیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔میں سمجھی نہیں بیٹا۔خالہ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑ زہرہ کا رشتہ مانگتا ہوں ۔ماں کے خوشی سے آنسو نکل آۓ ۔
بات پکی ہونے پر شاہدہ کو بتایا گیا وہ گھر آ گئی شادی کے سب فنگشنز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اتنا ایمانداری سے چاہنے والے شخص کے کھو جانے پر اسے ذرہ بھی افسوس نہ تھا ۔الٹا جان چھوٹ جانے کی خوشی سے ہواؤں میں تھی۔
رخصتی کے وقت شاہدہ کمرے سے زارہ کے لیے گفٹ اٹھانے آتی ہے کہ موبائل پر Whtsap pics دیکھتے ہی اس کے پاؤں تلے جیسے زمیں ہی نکل جاتی ہے۔یہ تصاویر حمزہ کے نکال کی ماریہ بھیجتی ہے ۔
وہ حمزہ جس کی خاطر ماریہ نے ایک sincereانسان کو دھوکہ دیا۔
اس صدمے میں شاہدہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔
زارہ مصطفِی کی رخصتی ہو جاتی ہے ۔اب ہر روز شاہدہ کو مصطفٰی کے خیال آئیں ۔کہ کیسے شاہدہ کی تکلیف میں پریشان ہو جاتا تھا۔اس کے آنسو نہ نکلنے دیتا تھا۔
ہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں شاہدہ کی خوشی تلاش کرتا تھا۔
پر اب مصطفٰی نے اپنے دل اور گھر کے دروازے شاہدہ کے لیے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔
مصطفٰی نے زارہ سے کہا کہ شاہدہ کو روک دے میری نظروں کے سامنے نہ آیا کرے پھر یوں شاہدہ نے غیروں کی جھوٹی محبت میں آکر ایک سچے انسان کو اپنے ہاتھوں سے کھو دیا۔

Browse More Urdu Literature Articles