Bejoor Rishte - Article No. 2368

Bejoor Rishte

بے جوڑ رشتے - تحریر نمبر 2368

نازنین کب سے یونہی بیٹھی ہوئی تھی اور اسی سوچ میں غرق تھی کہ وہ کیا کرے کے اس کے اماں اس سے ناراض نہ ہو اور اس کی ماں جو زبردستی اس بےجوڑ رشتے کو جوڑنے پر تلی تھی اس سے بچ سکے۔

ثناء ناز ہفتہ 13 جون 2020

نازنین کب سے یونہی بیٹھی ہوئی تھی اور اسی سوچ میں غرق تھی کہ وہ کیا کرے کے اس کے اماں اس سے ناراض نہ ہو اور اس کی ماں جو زبردستی اس بےجوڑ رشتے کو جوڑنے پر تلی تھی اس سے بچ سکے۔
وہ اماں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی وہ بہت محبت کرتی تھی اپنی اماں سے۔لیکن اسکی اماں کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی اب۔
وہ کیا کرے کس سے مدد مانگے ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کہ اسی وقت اس کی اماں کمرے میں داخل ہوئی اور کہا دیکھو نازنین پتر تو زیادہ مت سوچ میری بات مان لے اور میرے بھائی کے بیٹے یاسر سے شادی کرلے میں جانتی ہوں کہ تجھے اور اچھے رشتے بھی مل جائیں گے لیکن میں اپنے بھائی کو ناراض نہیں کرسکتی پہلے تیری بڑی بہن نے انکار کردیا تھا وہاں رشتے سے اب تو کررہی ہے۔
ایسا مت کر پتر۔

(جاری ہے)


میں جانتی ہوں وہ اتنا اچھا بھی رشتہ نہیں ہے پر پتر میں اپنے بھائی کو انکار نہیں کرسکتی تو سوچ لے شام تک تیرا ابا آتا ہے تو اس کے سامنے انکار مت کرنا راضی رہنا۔
اماں یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی انہوں نے یہ تک نہ دیکھا کے نازنین کتنی دکھ بھری نظروں سے اپنی اماں کو دیکھ رہی تھی کے وہ اپنی بھائی کی محبت میں اتنی مبتلا تھی کے اپنی بیٹی کے دکھ کا اندازہ تک نہ ہوا تھا۔


نازنین پانچ وقت کی نمازی تھی پڑھی لکھی تھی صورت وسیرت میں بھی اچھی تھی اسکے بھی خواب تھے کے جب وہ بیاہی جائے تو اچھی جگہ بیاہ کرجائے لیکن ماموں کا گھر اسے بلکل پسند نہ تھا اس کے ماموں عجیب سوچ رکھتے ہیں آگے ان کی اولاد بھی ویسی ہی تھی انکی پرورش ماموں نے بلکل اچھی نہ کی تھی ۔انکے علاوہ انکی اولاد نشہ تک کرتی تھی اور یاسر کی بھی پچھلی زندگی اتنی اچھی نہ تھی کہ وہ اس سے شادی کرسکے۔

اور یہی بات وہ اپنی اماں کو سمجھا چکی تھی کئی بار۔ لیکن بھائی کی محبت کے آگے انہیں کچھ نظر ہی نہ آرہا تھا۔
اور آج اس فیصلے کا آخری دن تھا اس کے اماں نے یہ ٹھان لیا تھا کے وہ نازنین کی شادی اپنے بھائی کی طرف ہی کرے گی
نازنین کو اپنی باقی کی ساری زندگی برباد ہوتے نظر آرہی تھی اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے صبح سے رو رو کر اسکی آنکھیں سوج چکی تھی اور اسکا دماغ سن ہوچکا تھا پر کوئی بھی اسکی بات سمجھنے کو راضی نہ تھا۔

ایک دم سے نازنین اٹھی اور الماری سے جاکر اپنے ابا کی نیند کی گولیوں کی شیشی اٹھا لائی اور اللہ سے مخاطب ہوکر بولی میں جانتی ہوں اللہ تعالی جی خودکشی حرام ہے پر تیرے دنیا کے بندے مجھے جینے نہیں دیتے مجھے معاف کردینا پر میں اس رشتے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہ ساری نیند کی گولیاں کھا گئی۔
جب انسان پر اسکی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو وہ اس قدر اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے کے ہمیشہ کی ابدی نیند میں سونے کو بہتر سمجھتا ہے
نازنین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ اپنی زندگی سے اور زبردستی کے رشتوں کے بوجھ تلے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند جاسوئی تھی۔
اور پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ہمیشہ کے لیے پچھتاوا چھوڑ گئی تھی

Browse More Urdu Literature Articles