Bimar Badshah Aur Ghareeb Kamhar - Article No. 1279

Bimar Badshah Aur Ghareeb Kamhar

بیمار بادشاہ اور غریب کمہار - تحریر نمبر 1279

ایک دفعہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا۔

پیر 17 اپریل 2017

ایک دفعہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا۔
سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا، اسی دوران ایک کمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا ۔
اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس! سو اس نے اعلان کر دیاکہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارے گا۔
بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی اور وعدے کے مطابق کمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا، اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا، کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور اسکو کہا کہ اٹھو اور اپنا حساب دو۔

(جاری ہے)

اس نے کہا بھائی حساب کس چیز کا میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے !
فرشتے اس کا جواب سن کر جانے لگے لیکن پھر ایک دم رکے اور بولے ذرا اس کا نامہ اعمال کھول کر دیکھیں اس میں کیا ہے ، بس پھر کیا تھا،سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ہاں بھئی فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا، اس نے جواب دیا ہاں، فوری طور پر حکم ہوا کہ اسکو سو درے مارے جائیں،اسکی خوب دھنائی شروع ہو گئی۔

اسکے بعد پھر فرشتوں نے سوال کیا اچھا یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لاد کر اسکو مارا تھا، اس نے کہا کہ ہاں پھر حکم ہوا کہ اسکو دو سو درے مارے جائیں، پھر مار پڑنا شروع ہوگئی۔ غرض صبح تک اسکو مار پڑتی رہی۔
صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں۔جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو اس کمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی، لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں، تو اس نے جواب دیا، او بھائیوں پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو پوری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے ۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ہم نے بھی حساب دینا ہے اور پتہ نہیں کہ کس کس چیز کا حساب دینا پڑے گا جو شاید ہمیں یاد بھی نہیں ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles