Bina Maan K Betiyaan Kaise Jeeti Hain - Article No. 2305

Bina Maan K Betiyaan Kaise Jeeti Hain

بن ماں کے بیٹیاں کیسے جیتی ہیں؟ - تحریر نمبر 2305

''ایک بیٹی کیلیئے دنیا میں سب سے بہترین سنگی ساتھی اسکی ماں ہوتی ہے'' میں نے ایک دفعہ اپک قریبی ساتھی (جسکی ماں اس دنیا میں کب کی رخصت ہو چکی) سے پوچھا جن کے ماں مر جاتی ہے وہ کیسے جیتے ہیں

Saleem Saqi سلیم ساقی پیر 13 اپریل 2020

''ایک بیٹی کیلیئے دنیا میں سب سے بہترین سنگی ساتھی اسکی ماں ہوتی ہے''
میں نے ایک دفعہ اپک قریبی ساتھی (جسکی ماں اس دنیا میں کب کی رخصت ہو چکی) سے پوچھا جن کے ماں مر جاتی ہے وہ کیسے جیتے ہیں
وہ بولی ساقی جن کی مائیں مر جائیں نا وہ جیتے نہیں ہیں وہ صرف زندگی کے دن کاٹتے ہیں صرف زندگی گزارتے ہیں جینا تو اسے کہتے ہیں نا جب آپ باہر پڑھنے یا جاب پر جائیں واپسی پر گھر کی دہلیز کے اندر پاؤں پڑا ہی کہ سامنے چارپائی پر بیٹھے ماں نظر آتے ہی سارے دن کی تھکاوٹ دور ہو گئی جینا تو یہ ہے یہ بھی کوئی جینا کہ صبح اٹھے ناشتہ کیا بن ماں کی دعائیں لیئے کام پر نکل گئے جاب پر جا بیٹھے کہتے ہیں نا ماں کی دعا زندگی بڑھا دیتی ہے اور اگر دعا دینے والی ماں ہی نہ ہو تو ایسی ''بےپران'' زندگی کو لیئے جینا بھی کوئی جینا ہے؟
بظاہر اگر ہم دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ بیٹا ماں کے اور بیٹی باپ کے ذیادہ قریب ہوتی ہے اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے مگر اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ایک بیٹے کو ایک باپ کے سایہ شفقت کی اور ایک بیٹی کو ماں کے آنچل کی ضرورت نہیں ہرگز ایسا نہیں
ماں کے بنا بیٹیاں جیتے جی مر جاتی ہیں بظاہر کھلکھلا کر ہنسنے والی ایسی بیٹیاں اندر سے کس قدر رورہی ہوتی ہیں یہ کوئی چاہ کر بھی جان نہیں سکتا کچھ باتیں بیٹیوں کی زندگی سے ایسی بھی منسلک ہوتی ہیں کچھ حالات ایسے بھی بیٹیوں ہر گزرتے ہیں جو صرف اور صرف ایک ماں سمجھ سکتی ہے باپ چاہے جتنا پیار کرنے والا لاڈ لڈانے والا ہو چاہ کر بھی ایک بیٹی کیلیئے اسکی ماں ثابت نہیں ہو سکتا
جیسا کہ پنجابی کے مشہور صوفی شاعر ''میاں محمد بخش'' کی لکھی سیف الملوک کا ایک بہت ہی خوبصورت شہر میں یہاں ضرور پیش کرنا چاہوں گا وہ کیا فرماتے ہیں
''باپ سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں''
ماں کی گود واقع میں زیست کے نشیب و فراز کی گرم ترین لو میں مانوں کے ایک ٹھنڈا چھاتہ ہے جہاں اگر انسان زندگی کی تلخیوں سے تھکا ہارا آ کر چند پل کیلیئے لیٹ جائے تو مانوں کے سکون سا آجاتا ہے
اب سوچو جس بیٹی کے سر پر یہ چھاتہ ہی نہ ہو وہ اپنی تھکن اتارنے کہاں جاوے؟ پھر ماسوائے اس کے کہ بند کمرے میں کسی کونے میں چھپ کر سر گھٹنوں میں دیئے دن رات انسو بہانے یا ماں کی تصویر کو سینے سے لگائے دن رات ماں کی تصویر سے گلے شکوے کرنے کے سوا ایسی نصیب کی ماری بیٹی کے پاس کوئی اور چارا نہیں ہوتا
ایسی بیٹی کا دکھ کوئی چاہ کر بھی بانٹ نہیں سکتا جس بیٹی کے سر پر ماں کا آنچل نہ ہو ایسی بیٹیوں کے پاس چند پل بیٹھ کر اگر انھیں اندر سے پھرول کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ بظاہر ہنستی کھیلتی گڑیا اندر سے کس دکھی،کس قدر غموں کا بوجھ دل پہ لیئے ہوئے جی رہی ہے کس قدر کرب ناک شب و روز یہ بیٹی بیتا رہی ہے یقین جانوں سن کر آپکا دل خون کے آنسو روئے گا
ایک گلاب کا پودا ہے نا بظاہر بہت ہی خوشبودار دل لبھانے والا اگر اس پودے کو گرم تپتی دھوپ میں بن پانی کے چھوڑ دیا جائے نا تو وہ چند دن کے اندر مرجھا جائے گا بن ماں کے بیٹیوں کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے اگر اس ننھی کلی کو ماں کے آنچل کی چھاؤں و پانی نہیں مل پائے گا نا تو یہ ننھی کلی مرجھا جائے گی بالکل اس گلاب کے پودے کی طرح بس فرق اتنا ہو گا گلاب کا پودا اوپری سطحی بظاہر نظر آنے والا مرجھائے گا جبکہ یہ ننھی کلی اندر سے سوکھ کر مرجھا جائے گی جسے زیست کی تلخیوں کی کرخت و جھلسا دینے والی آندھیاں بکھیر کے رکھ دیں گی
''خدا کبھی کسی سے بھی اسکی ماں مت چھینیں''
یقین جانوں ماں کے آنچل کی ٹھنڈی ہوا آج کے جدید دور کے لگے دو ٹن کے اے سی سے بھی ذیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور اگر یہ آنچل موت کی ہوا سے اڑ کر تہہ خاک چلا جائے نا تو یہ بظاہر رنگین نظر آنے والی دنیا پھیکی پڑ جاوے ہے
ایک بن ماں کے بیٹی اگر بیاہ دی جائے نا بظاہر جسمانی طور پر وہ سسرال میں چلی جاتی ہے مگر اسکا روحانی پن اپنی ماں کی یادوں کیساتھ ماں کی قبر کے سرہانے رہ جاتا ہے
اسکی ساری خوشیاں و غمیاں اپنے ماں کے کمرے میں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جسکا کواڑ پھر نجانے اس دکھوں کی ماری پر کب کھلے خبر نہیں
ماں کی ممتا گویا کہ اولاد کیلیئے تو ایسے بھی ایک انمول نعمت ہے کوئی شک نہیں مگر خاص طور پر بیٹی کیلیئے یہ اک انمول نگینہ ہے اک ایسا انمول ہیرا جسے کوئی بیٹی چاہ کر بھی گنوانا نہیں چاہے گی مگر جہاں تقدیر آڑے آ جائے وہاں انسان بے بس ہو جاتا ہے پھر اس انمول نگینے کو بیٹیوں کے ہاتھوں کھونس کر تہے خاک دفنانا پڑتا ہے سلانا پڑتا ہے
آخر میں
میں اپنے ماں باپ کی نافرمان اولاد سے درخواست کروں گا خدارا اس انمول نگینے کو حفاظت سے رکھا کرو خیال رہے تمہاری تلخ باتوں کی خراش تک بھی اس سے مس نہ ہونے پائے وگرنہ یہ بکھر جائے گا ٹوٹ جائے گا بن کچھ بولے بن کچھ کہے بن کچھ محسوس کروائے دل ہی دل میں ہزاروں باتوں ہزاروں شکووں کے بوجھ لیئے اس دنیا فانی سے کوچ کر جائے گی اور تم چاہ کر بھی اسے لوٹ کر نہیں لا پاؤ گے
کبھی ماں کو خود سے روٹھنے مت دینا یارو جانتے ہو
جن کی مائیں روٹھ جائیں نا ان سے خدا روٹھ جاتا ہے اور جس سے خدا روٹھ جائے نا ان کیلیئے دنیا و آخرت میں سوائے زلت و خواری کے کچھ نہیں بچتا۔
۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles