Chairag Bujhtay Chale Ja Rahe Hain Silsila Waar - Article No. 2076

Chairag Bujhtay Chale Ja Rahe Hain Silsila Waar

چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار - تحریر نمبر 2076

ناصر حسین بلساری ذیابیطس کے مریضِ دیرینہ تھے اور اُن کایہی مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ ناصر حسین بلساری نے بیشمار افراد کی مدد کی مگر خود کسی کا کوئی معمولی سا بھی احسان نہیں لیا

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 15 جون 2019

جمال احسانی نے دُنیا داری میں گم ہم لوگوں کیلئے کیسی حقیقت بیان کر دی ہے ”چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار مَیں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے“۔ چالیس برس اُدھر کی بات ہے کسی مشاعرے کے بعد سامعین میں سے ایک شخص نکل کر آئے اور بڑی محبت سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کئی ذاتی قسم کے سوالات کر ڈالے، کیا کرتے ہو، کہاں رہتے ہو وغیرہ۔
۔۔ یہ شخص ناصر حسین بلساری تھے، پھر اُن سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں اور یہ ملاقاتیں ایک طرح دوستی میں بدل گئیں، عمر میں ہم سے وہ پندرہ برس سے زائد رہے ہوں گے مگر ایسے ملتے تھے جیسے وہ ہم عمر ہوں۔ ممبئی نمبر تین میں بیگ محمد ہائی اسکول، شہر کی ایک پرانی درس گاہ ہے یہاں کے طلبا میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی درسگاہ کا نام روشن کیا اور معاشرے میں اپنے کام اورکردار سے نمایاں ہوئے(بقول پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا) مثلاً ممتاز بزنس مین غلام پیش امام، آصف فاروقی، مشہور قانون داں اور صحافی اے جی نورانی اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ زین العابدین عبد القادر نورانی اور ہمارے دوستوں میں روزنامہ انقلاب کے کالم نگار اور مشہورپروفیسرسید اقبال، ممتاز شاعر افتخارامام صدیقی اورعبد الاحد ساز# اسی اسکول کے طالب علم رہے ہیں، اسی درس گاہ میں ایک اُستاد گزرے ہیں جو علمی وادبی دُنیا میں جالب مظاہری کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں،ابھی جن اشخاص کے نام لیے گئے ہیں ان میں سے کئی بلکہ آخرالذکر حضرات تو جالب مظاہری ہی کے پروردہ ہیں۔

(جاری ہے)

جالب مظاہری اپنی ایک لغت نما(قاموس الادب۔ ناشر: شاہد ندیم) کیلئے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ ناصر حسین بلساری بھی اسی اسکول کے طالب علم رہ چکے تھے اور جالب مظاہری کے شاگردوں میں ان کا نام بھی لیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ناصر حسین بلساری جو گجرات سے تعلق رکھنے کے باوجود اچھی خاصی اُردو بولتے ہی نہیں تھے بلکہ انھیں اُردو زبان و ادب سے جو دلچسپی تھی وہ جالب مظاہری جیسے اساتذہ ہی کی دین تھی۔
پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا ہی نے بتایا کہ جالب مظاہری نے بیگ محمد اسکول کا ترانہ لکھا تھا جس کا ایک مصرع ہے: ”ہم دہر کے ظلمت خانے میں پھیلا کے رہیں گے تنویریں“ ناصر بلساری کاکردار جالب مرحوم کی ایسی ہی ایک تنویر بن گیا تھا۔ بلسار گجرات (Balsar) کا وہ ٹاؤن ہے جو مہاراشٹر سے قریب تر ہے۔ بلسار اپنے آموں کیلئے بھی معروف ہے مگر ہم نے اس ٹاؤن کو ناصر بلساری ہی کی وجہ سے جانا، بلسار کا آم اپنی مٹھاس کیلئے مشہور ہے اور ہمارے ناصر بلساری بھی اپنی گفتار وکردار میں اسی شیرینی کی ایک تجسیم تھے۔
ناصر حسین بلساری ایک بینکر کے طور پر معروف تھے اور اپنے اس عہدے کے ذریعے اُنہوں نے اپنے دوستوں اور احباب کا خاصا حلقہ بنا لیا تھا مگر اس سے اُنہوں نے ذاتی فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان لوگوں سے ضرورت مند دوسرے افراد کی مدد ضرور کروائی۔ ناصر حسین بلساری یقیناً سماجی خدمت کا ایک جذبہ صادق رکھتے تھے مگر وہ آج کے نام نہاد اور پیشہ ور سوشل ورکروں کی طرح ہرگز نہیں تھے، وہ بے لوث لوگوں میں سے تھے، اگر آج کا کوئی سوشل ورکر ہوتا تو ایک ’اِن جی او‘ ضرور بناتا اور پھر اس سیڑھی سے نجانے کہاں کہاں پہنچنے کی کوشش کرتا اور کامیاب بھی ہوتا مگر ناصر بلساری نے نہ کوئی تنظیم بنائی اور نہ ہی کسی ادارے کا پھریرا لہرایا مگر شہر میں سماجی اور فلاحی کام کرنے والے مختلف اداروں اور تنظیموں کے وہ معاون ضرور بنے رَہے۔
ہمیں یاد آتا ہے کہ علامہ سیماب# کے خاندان میں ہمیں یہی ناصر حسین بلساری لے گئے تھے اور محترم اعجاز صدیقی سے ہمارا تعارف بھی انہوں نے ہی کروایا تھا۔ جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ ناصر بلساری کو اُردو زبان وادب سے گہری دلچسپی بلکہ محبت تھی وہ ہر اُردو والے سے قریب ہوجاتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ کئی رسائل اور کئی اُردو کتابوں کی اشاعت میں ناصر بلساری بہر طور معاون رہے اور یہ اعانت کسی بھی لالچ اور کسی بھی غرض کے بغیر ہو تی تھی۔
ممبئی نمبر آٹھ (ناگپاڑے کے علاقے) کا وہ کون شخص ہوگا جو ناصر حسین بلساری کو ان کے اخلاص و اخلاق کے باوصف نہ جانتا ہو۔ اخلاص کی ایک تعریف یہ بتائی گئی ہے کہ ”مخلص وہ سمجھا جائیگا جس کا اخلاص عام ہو۔“ مشہور بینکر،تعلیمی اور سماجی اورسرگرمیوں کیلئے معروف و مشہور شخصیت علی ایم شمسی سے بھی ہمارا تعارف انہی ناصر بلساری کے توسط سے ہوا تھا، علی ایم شمسی جیسے ممتاز شخص بھی ناصر بلساری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اگر ناصر بلساری کسی کا کوئی کام لے کر علی ایم شمسی کے پاس جاتے تھے تو وہ کام بغیر کسی حجت و تاخیر فوراً کیا جاتا تھا، اسی طرح غریب سے غریب غیر شناسا بھی کسی مدد کی طلب میں ناصر بلساری کے پاس پہنچتا تو وہ نامراد نہیں لَوٹتا وہ اپنے کسی نہ کسی شناسا کے پاس لے جاتے اور اس کی مدد کرادیتے تھے۔
ناصر بلساری، سیاسی لوگوں سے قریب ضرور تھے بلکہ یہ بھی کہا جائے توغلط نہیں کہ شہر کے مسلم لیڈر ہی نہیں وہ نا مسلم لیڈر بھی ناصر بلساری کو جانتا تھا جو مسلمانوں کے علاقے یا اُن سے کسی طور قریب ہو، ہم نے کئی منسٹروں کو اس طرح دیکھا کہ ”ارے بلساری، کیسا ہے،تو تو بہت دنوں کے بعد آج دکھائی دِیا، کدھر ہے؟“ اور جواب میں ناصر بلساری کا فطری تبسم کے ساتھ یہ کہنا کہ ”۔
۔۔ صاحب۔۔۔ آپ کیسے ہیں میرے لائق کوئی خدمت!!“ آج کے سوشل ورکر ہوتے تو ان منسٹروں کے ذریعے کچھ اور نہ سہی کارپوریٹر بننے کا راستہ ضرور نکال لیتے مگر ناصر بلساری اپنے اخلاص کے پابند بنے رہے، جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ وہ اُردو والوں سے فوراً قریب ہوجاتے تھے ناصر بلساری کس درجہ سادہ مزاج تھے آپ اس واقعے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُردو کے ایک شاعر باکمال اپنا اوّلین شعری مجموعہ شائع کرانے کی فراق میں تھے ناصر بلساری مل گئے اور اُنہوں نے کسی دوست سے ان کو ایک بڑی رقم بطورقرض دلوا دِی، شعری مجموعہ چھپ گیا اور کچھ مدت بعد جب ناصر بلساری نے شاعر ِباکمال سے قرض لوٹانے کو کہا تو وہ ناصر بلساری پر پلٹ گئے کہ آپ نے تو وہ رقم مجھے عطیہ کی تھی۔
ناصر بلساری ایک بھرے پُرے خاندان کے سربراہ تھے انہوں نے اپنی تنخواہ سے اس شعری مجموعے کا قرض لوٹایا مگر اُن کی زبان پر حرفِ شکایت کبھی نہیں آیا۔ ناصر حسین بلساری کے پاس اگر کوئی مریض پہنچ جاتا تو وہ کسی نہ کسی طور اس کے علاج و معالجے کا ذریعہ تلاش کر کے اُس کی ہر طرح کی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کوشش میں اللہ کی مدد انھیں اسم بامسمیٰ بنا دیتی تھی۔
ناصر حسین بلساری ذیابیطس کے مریضِ دیرینہ تھے اور اُن کایہی مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ ناصر حسین بلساری نے بیشمار افراد کی مدد کی مگر خود کسی کا کوئی معمولی سا بھی احسان نہیں لیا، رمضان کے آخری ایام میں وہ وطنِ مالوف بلسار چلے گئے اور گزشتہ اتوار (9جون)کو اُنہوں نے اپے وطن میں آخری سانس ہی نہیں لی بلکہ اپنے دوستوں او ر احباب کو دو مٹھی مِٹّی کی اور چار قدم زحمتِ شانہ بھی نہیں دِی۔غرض اور لالچ کیاس اندھیرے دور میں ناصر بلساری ایک روشن چراغ تھے، ہم دُعا گو ہیں کہ اللہ اُن کی بے لوثی کے عوض اُن کی لحد کو پُر نور کردے۔ آمین

Browse More Urdu Literature Articles