Dhoop Ki Pehli Barish - Article No. 2370
دهوپ کی پہلی بارش - تحریر نمبر 2370
سنگ مرمر کے فرش پر پہلی بار چندہ نے قدم رکها تها، کانپتے ہوئے ہاتهوں سے اس نے دروازے کا ہینڈل پکڑا تها. یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تها، وہ شاید روز ہی یہ منظر اپنے خوابوں میں دیکها کرتی تهی
ارمان شہریار پیر 15 جون 2020
وہ رات بھی بڑی لمبی، بے خواب اور خوفناک تھی۔
(جاری ہے)
بلآخر تین بجے کے قریب اسے نیند آئی تھی اور اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔لیکن وہ اس بار بھی نہیں سو سکی۔ کئی بار طاری ہونے والی وہ کیفیت آج پھر اس پر سوار ہونے لگی تھی۔ اس کا لاشعور آج بھی نہایت بیدار تھا اتنا بیداد کہ اسکا شعور بھی اسے مکمل تاریکی میں نہیں لے جا پایا تھا۔ وہ اس کمرے میں رکھی ہر چیز، گھڑی کی سوئیوں کی آواز اور یہاں تک کہ اپنی سانسوں تک کو سن سکتی تھی۔ اسکی آنکھیں بند تھیں اسکا وجود پسینے میں شرابور تھا اور اب وہ چاہتے ہوئے بھی اس کیفیت سے نکل نہیں سکتی تھی۔
اچانک سے کمرے میں اسے کسی کی آہٹ سنائی دی اب وہ اندر ہی اندر کانپنے لگی تھی وہ اپنے ہاتھ ہلا کر خود کو یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ بیدار ہے مگر یہ تاریکی اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔۔انجان وجود دھیرے دھیرے اسکے ٹھنڈے ہوتے وجود کے قریب آرہا تھا اور اسکی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔
جونہی وہ وجود اسکے بیڈ کے قریب پہنچا، ایک پل کو اسکی سانس رک سی گئی تھی۔وہ یہ وجود، یہ خوشبو، یہ لمس اچھی طرح پہچانتی تھی، یہ اسکے لاشعور کی وجودی شکل تھی، یہ اسکی ماں تھی جسے اس نے ہمیشہ خوابوں اور خیالوں میں ہی دیکھا تھا۔
"ناراض ہو مجھ سے؟" انہوں نے پوچھا تھا۔ اسکے ساکت وجود سے آواز آئی تھی "آپ سے نہیں خالا سے"۔
"وہ بھی تو میں ہی ہوں۔۔۔" اچھا یہ بتائو کیا بات یے؟" ان کی مسکراہٹ اور اپنے سر پہ پھرتا انکا ہاتھ اسے ایک عجیب سی ٹھنڈک پہنچارہا تھا، جس کے لیے شاید وہ ہمیشہ ترستی رہی ہے۔ "آپ نے انکا رویہ دیکھا ہے؟ دو سال سے مجھ پر ایسے سختی کرتی ہیں جیسے میں انکی ملازمہ ہوں۔۔۔پہلے اس چھوٹے سے گندے سے مکان میں رکھا ہوا تھا، میں نے وہ برداشت کرلیا لیکن یہ رویہ میں برداشت نہیں کرسکتی بس۔۔۔" وہ بلکل ایک چھوٹے سے بچے کی طرح اپنی خالا کی شکایت ان سے کررہی تھی۔ "میرا چندہ! کبھی تیز دھوپ میں ہوتی بارش کو دیکھا ہے؟ پہلے تو عجیب لگتی ہے مگر بعد میں موسم کتنا خوشگوار کردیتی ہے.." انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔۔۔"کبھی کبھار انسان بھی جب تیز دھوپ جیسی آزمائیشوں سے گزرتا ہے تو یہ بارش ہونی ضروری ہوتی ہے۔۔شروع میں اپنوں کو عجیب لگتی ہے مگر بعد میں وہ زندگی کا موسم خوشگوار کردیتی ہے۔۔" انہوں نے اب اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔۔۔"لیکن اپنوں کا کام یہ ہوتا ہے وہ اس کیفیت کو ذرا سمجھیں۔۔ میری چندہ جس دن تم مجھ کو اپنی خالا میں ڈھونڈھنا شروع کردوگی تب تم خود ہی سب کچھ سمجھنے لگو گی۔۔سمجھیں؟"
"جی!" چندہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا تھا۔ مگر نہ اس کے سر کے نیچے وہ گود تھی اور نہ ہی اسکے پاس وہ وجود۔۔ سامنے کھڑکی کے باہر اجالا ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ مکمل تر تھیں۔۔۔"لیکن وہ میرے پاس ہی ہیں۔۔" اس نے اپنی آنکھوں کی نمی پوچھتے ہوئے کہا۔۔اور "خالا!" کہتی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez