Dhoop Ki Pehli Barish - Article No. 2370

Dhoop Ki Pehli Barish

دهوپ کی پہلی بارش - تحریر نمبر 2370

سنگ مرمر کے فرش پر پہلی بار چندہ نے قدم رکها تها، کانپتے ہوئے ہاتهوں سے اس نے دروازے کا ہینڈل پکڑا تها. یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تها، وہ شاید روز ہی یہ منظر اپنے خوابوں میں دیکها کرتی تهی

ارمان شہریار پیر 15 جون 2020

سنگ مرمر کے فرش پر پہلی بار چندہ نے قدم رکها تها، کانپتے ہوئے ہاتهوں سے اس نے دروازے کا ہینڈل پکڑا تها. یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تها، وہ شاید روز ہی یہ منظر اپنے خوابوں میں دیکها کرتی تهی. شاید اس سی کئی زیادہ بہتر، پرسکون، اور حیرت انگیز منظر بهی اس نے دیکها ہو...وہ اس وقت یہی سوچ رہی تهی. اس نے حیرت سے اپنے کانپتے ہاتهوں کو دیکها تها، انہیں اس طرح کانپتا دیکھ وہ کچھ ڈر سی گئی تهی. اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے کانپتا ہوا دائیاں ہاتھ پکڑا تها.وہ اندر ہی اندر اپنی اس کیفیت پہ حیران بهی تهی اور اسے غصہ بهی آرہا تها..."یہ سب تو میری زندگی کا حصہ ہے...میں تو یہ سب روز ہی دیکهتی ہوں بلکہ اس زندگی کو تو جیا ہے میں نے..تو پهر میں اتنی حیران کیوں ہورہی ہوں؟" اس نے خود سے سوال کیا تها...اسکا دائیاں ہاتھ بهی اسے کانپنے سے روک نہیں سکا تها..."یہ کیا کررہی ہوں میں؟ میں انہیں صحیح کیسے ثابت کرسکتی ہوں؟ وہ یہ سمجهتی ہیں کہ مجهے یہ زندگی دے کر انہوں نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتیں کہ میں تو پہلے ہی اس سب کی عادی ہوں..ان کے اس کچے، چهوٹے سے مکان میں رہ کر بهی میں نے اس عیش و سکون کی زندگی کو بهرپور جیا ہے جہاں سوائے دکهوں کے اور کچهھ نہ تها..." اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی تهی. "لیکن اگر میں یہ سب پہلی مرتبہ نہیں دیکھ رہی تو اس طرح کانپ کیوں رہی ہوں....؟" اب کہ اس نے سخت لہجے میں خود کو مخاطب کیا تها، اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تها...اس نے اس لکڑی کے خوبصورت دروازے کو کهول کر آگے بڑهنا شروع کیا. لائونج میں رکهے خوبصورت صوفے دیکھ کر وہ بے اختیار ان کی طرف بڑهی تهی مگر اس کی انا نے اس بار بهی اس کے قدم روک دیئے تهے. اب وہ اپنے بیڈروم کی طرف بڑهہ رہی تهی "ایک کام کرتی ہوں پہلے انکا کمرہ دیکهتی ہوں...دیکهوں تو کہ اس عمر میں کیسا سجایا ہے انہوں نے اپنا کمرہ.." اس نےرک کر سوچا اور وہ خالہ کے کمرے کی طرف بڑهہ گئی. کمرے کا دروازہ کهولتے ہی وہ حیرانی کے ایک سمندر میں اتر چکی تهی، لکڑی کا خوبصورت ماسٹر بیڈ جس پر لال رنگ کی ڈجیٹل ڈیزائن کی بیڈ شیٹ بڑے سلیقے سے بچهی تهی، سائڈ میزوں پر لال ہی رنگ کے خوبصورت لیمپس اور تازے پهولوں کے گلدستے رکهے تهے، چهوٹے سے روم فریج کے برابر میں کالے اور لال رنگ کا ایک پردہ لگا تها جس کو ہٹا کر اس نے اندر جهانکنے کی کوشش کی تهی. اندهیرے کی وجہ سے اسے کچهہ نظر نہیں آیا تها،آگے بڑھ کر اس نے دائیں ہاتھ کی دیوار پر بجلی کا سوئچ ٹٹولا تها جو اسے مل گیا تها، پیلے رنگ کا بلب جلتے ہی اس کے سامنے ایک چهوٹا سا کمرہ تها جس کے چاروں طرف لکڑی الماریاں اور آئینے لگے تهے. وہ یہ تمام مناظر بغیر کوئی تاثر دئیے دیکھ رہی تهی...اس کا چہرہ بلکل خالی تها اور بدن اب ٹهنڈا ہورہا تها. باہر آ کر اس کی نظر سامنے کی دیوار پر لگے بڑے سے ٹی وی پر پڑی تهی.اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ اٹها کر اس دیوار پررکها تها جس پہ گہرا گلابی رنگ کیا گیا تها،کچھ سیکنڈ اس ٹهنڈی دیوار پر ہاته پهیرتے ہوئے وہ جیسے کسی گہری بے تاثر سوچ میں مبتلاء رہی پهر یکدم اسے ہوش آیا تها اس نے فوری اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا کر اسے زور سے جھٹکا تھا جیسے اسے اس عمل کا پچهتاوہ شدت سے ہورہا ہو...کچھ پل اس کا چہرہ پهر اسی طرح بے تاثر ہوگیا تها، نہ جانے وہ کمرہ اتنا خاموش تها یا یہ اس کی ذات کی خاموشی تهی جو کمرے میں گونج رہی تهی...

وہ رات بھی بڑی لمبی، بے خواب اور خوفناک تھی۔

(جاری ہے)

وہ پہلی مرتبہ چاہتے ہوئے بھی سو نہیں پارہی تھی جیسے کوئی اس کی آنکھوں کو کھولے بیٹھا ہو، وہ اپنی آنکھیں بند کرنا چاہتی تھی اور انہیں بند ہی رہنے دینا چاہتی تھی لیکن اس کا اختیار اپنے آپ پر سے ختم ہوتا چلا جارہا تھا۔

بلآخر تین بجے کے قریب اسے نیند آئی تھی اور اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔لیکن وہ اس بار بھی نہیں سو سکی۔ کئی بار طاری ہونے والی وہ کیفیت آج پھر اس پر سوار ہونے لگی تھی۔
اس کا لاشعور آج بھی نہایت بیدار تھا اتنا بیداد کہ اسکا شعور بھی اسے مکمل تاریکی میں نہیں لے جا پایا تھا۔ وہ اس کمرے میں رکھی ہر چیز، گھڑی کی سوئیوں کی آواز اور یہاں تک کہ اپنی سانسوں تک کو سن سکتی تھی۔ اسکی آنکھیں بند تھیں اسکا وجود پسینے میں شرابور تھا اور اب وہ چاہتے ہوئے بھی اس کیفیت سے نکل نہیں سکتی تھی۔

اچانک سے کمرے میں اسے کسی کی آہٹ سنائی دی اب وہ اندر ہی اندر کانپنے لگی تھی وہ اپنے ہاتھ ہلا کر خود کو یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ بیدار ہے مگر یہ تاریکی اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔
۔انجان وجود دھیرے دھیرے اسکے ٹھنڈے ہوتے وجود کے قریب آرہا تھا اور اسکی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔
جونہی وہ وجود اسکے بیڈ کے قریب پہنچا، ایک پل کو اسکی سانس رک سی گئی تھی۔وہ یہ وجود، یہ خوشبو، یہ لمس اچھی طرح پہچانتی تھی، یہ اسکے لاشعور کی وجودی شکل تھی، یہ اسکی ماں تھی جسے اس نے ہمیشہ خوابوں اور خیالوں میں ہی دیکھا تھا۔
"ناراض ہو مجھ سے؟" انہوں نے پوچھا تھا۔
اسکے ساکت وجود سے آواز آئی تھی "آپ سے نہیں خالا سے"۔
"وہ بھی تو میں ہی ہوں۔۔۔" اچھا یہ بتائو کیا بات یے؟" ان کی مسکراہٹ اور اپنے سر پہ پھرتا انکا ہاتھ اسے ایک عجیب سی ٹھنڈک پہنچارہا تھا، جس کے لیے شاید وہ ہمیشہ ترستی رہی ہے۔ "آپ نے انکا رویہ دیکھا ہے؟ دو سال سے مجھ پر ایسے سختی کرتی ہیں جیسے میں انکی ملازمہ ہوں۔۔
۔پہلے اس چھوٹے سے گندے سے مکان میں رکھا ہوا تھا، میں نے وہ برداشت کرلیا لیکن یہ رویہ میں برداشت نہیں کرسکتی بس۔۔۔" وہ بلکل ایک چھوٹے سے بچے کی طرح اپنی خالا کی شکایت ان سے کررہی تھی۔ "میرا چندہ! کبھی تیز دھوپ میں ہوتی بارش کو دیکھا ہے؟ پہلے تو عجیب لگتی ہے مگر بعد میں موسم کتنا خوشگوار کردیتی ہے.." انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
وہ چپ چاپ سنتی رہی۔۔۔"کبھی کبھار انسان بھی جب تیز دھوپ جیسی آزمائیشوں سے گزرتا ہے تو یہ بارش ہونی ضروری ہوتی ہے۔۔شروع میں اپنوں کو عجیب لگتی ہے مگر بعد میں وہ زندگی کا موسم خوشگوار کردیتی ہے۔۔" انہوں نے اب اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔۔۔"لیکن اپنوں کا کام یہ ہوتا ہے وہ اس کیفیت کو ذرا سمجھیں۔۔ میری چندہ جس دن تم مجھ کو اپنی خالا میں ڈھونڈھنا شروع کردوگی تب تم خود ہی سب کچھ سمجھنے لگو گی۔
۔سمجھیں؟"
"جی!" چندہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا تھا۔ مگر نہ اس کے سر کے نیچے وہ گود تھی اور نہ ہی اسکے پاس وہ وجود۔۔ سامنے کھڑکی کے باہر اجالا ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ مکمل تر تھیں۔۔۔"لیکن وہ میرے پاس ہی ہیں۔۔" اس نے اپنی آنکھوں کی نمی پوچھتے ہوئے کہا۔۔اور "خالا!" کہتی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles