Dilkash Waadi Ka Dilnasheen Shair - Ahmad Satti - Article No. 2571

Dilkash Waadi Ka Dilnasheen Shair - Ahmad Satti

دلکش وادی کا دلنشیں شاعر ۔۔احمد ستی - تحریر نمبر 2571

احمد ستی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو کائنات کی ہر ایک شے کو تعمیر ہوتا، بنتا اور سنورتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ شاعری کا مطالعہ جہاں گہرائی، گیرائی اور لطافت سے مزین و آراستہ ہے

Luqman Asad لقمان اسد جمعہ 1 اکتوبر 2021

ماں میرے زخموں پر دعاؤں کا مرہم کر دو
مجھے کل اینٹیں اٹھانی ہیں بیلچہ چلا نا ہے
یقینا یہ اصولِ فطرت ہے کہ کوئی بھی شخص جب پوری لگن ، وثوق اور محنت کے ساتھ اپنے کام میں مگن ہوجاتا ہے تو قدرت اسے لازوال کامیابیوں اور کامرانیوں سے سرفراز کر دیتی ہے۔ کہوٹہ کی سرسبز و شاداب سرزمین اور اس مردم خیز خطہ سے تعلق رکھنے والے منفرد لب و لہجے کے نوجوان مقبول شاعر احمد ستی بھی انہی ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں۔
احمد ستی کا طرزِسخن جدا گانہ ہے ۔آپ لگی لپٹی کے بغیر اپنا مدعا شفاف انداز میں نہایت عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ شعری پیرائے میں بیان کرنے پر بھرپور مہارت رکھتے ہیں ۔
اجڑے ، اجڑے سے کیوں ہیں شجر سوچا جائے
ہرے ہیں جو، اُن پر بھی نہیں ثمر سوچا جائے
احمد ستی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو کائنات کی ہر ایک شے کو تعمیر ہوتا، بنتا اور سنورتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

شاعری کا مطالعہ جہاں گہرائی، گیرائی اور لطافت سے مزین و آراستہ ہے وہاں قاری کو نئی سوچ، جذبے اور زندگی اور امید کی طرف کھلتے نئے راستوں سے روشناس کراتا ہے۔ اپنے خوابوں کے اندر ایسی سچائی کے متلاشی ہیں جو فطرتی ہو۔ شاعر ادیب ہو تخلیق کار یا لکھاری ا س کا دل معاشرے کی نا ہمواریوں پر کڑھتا رہتا ہے اور وہ ہر انسان کے دکھ کو اپنا ذاتی مسئلہ خیال کرتا ہے۔

احمد ستی کی یہ آزاد نظم ملاحظہ کیجیے
”میرا حق“
انکل وزیراعظم
جو آپ کے بچے کھاتے ہیں
میں وہ نہیں مانگتی
مگر
مجھے وہ کتاب پڑھنی ھے
جو
آپ کے بچے پڑھتے ہیں
احمد ستی وادی کہوٹہ کے گاؤں ”بڑوہی“ میں 13اپریل1977ء کو پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں ہی سے حاصل کی اور1966ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بڑوہی سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔
پھر نا مساعد مالی حالات و مشکلات کے سبب ایک طویل مدت تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہا ۔ 2003ء میں پرائیویٹ طور پر راولپنڈی بورڈ سے ایف اے کرنے کے بعد 2008ء میں علامہ اقبال یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں بی-اے کی ڈگری حاصل کی۔2009ء میں گورنمنٹ ملازمت حاصل کی اور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے اور ساتھ ہی تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 2021ء میں علامہ اقبال یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا ۔
زمانہ طالب علمی سے ہی آپ شعرو سخن کی طرف راغب ہوئے اور شاعری میں ڈاکٹر عتیق الرحمن سے باقاعدہ طور پر اصلاح لیتے رہے ۔ آپ کی اردو شاعری پر مشتمل ایک کتاب ”آدھا پاگل“ 2019ء میں منظرِ عام پر آئی جسے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ہر وہ شاعر ادیب اور تخلیق کار قدرت جس کی قسمت اور نصیب میں مقبولیت اور شہرت لکھ دیتی ہے اس کے قلم سے ضرور کوئی ایسی شاہکار نظم ، غزل یا افسانہ اور ناول تحریر ہوتا ہے جو اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔
احمد ستی کی اس غزل نے انھیں شہرت کے بامِ عروج پر پہنچایا ۔
وہ شخص مجھے پیارا ہے اسے کہنا
وہی جینے کا سہارا ہے اسے کہنا
سب لوگ پیارے ہیں مجھے لیکن
وہ سب سے پیارا ہے اسے کہنا
رکھے ہیں سرخ پھول ہم نے تیرے خط میں
یہ ایک اشارہ ہے اسے کہنا
محبتیں ، عداوتیں ، شکایتیں اس کی
مجھے سب گوارا ہے اسے کہنا
وہ دل مانگے یا مجھ سے جاں مانگے
کب کہا خسارہ ہے اسے کہنا
کچا گھڑا ہے اور میں تھکا ہوا
بڑی دور کنارا ہے اسے کہنا
ہیں چاہنے والے اور بھی احمد ستی لیکن
یہ دل بس تمہارا ہے اسے کہنا
دنیاے شعرو ادب میں احمد ستی ایک تسلسل کے ساتھ اپنی پُر تاثیر تخلیقات کا سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں دعا ہے کہ وہ یوں ہی تادیر جہانِ سخن کی آبیاری کرتے رہیں۔
آپ کے اس خوب صورت شعر کے ساتھ اختتام ۔
حصولِ جنت کا ایک یہ بھی انداز ہے
ماں کے قدموں تلے سر رکھ دو

Browse More Urdu Literature Articles