Domeli - Article No. 2053

Domeli

ڈومیلی (حصہ اول ) - تحریر نمبر 2053

ڈومیلی کا قصبہ جہلم سے 32کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ یہ قصبہ قلعہ روہتا س سے 16کلو میٹر اور کوہستان نمک سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے اور ڈومیلی ضلع جہلم میں واقع ایک یونین کونسل ہے

Anwaar Ayub Raja انوار ایوب راجہ جمعرات 16 مئی 2019

پچھلے تین ہفتوں سے میں ایک کمرے میں بند اپنے اگلے سفر کی تیاری میں مشغول تھا ، اس بار سفر پر جانے سے پہلے میں نے اپنے سفری سامان میں میرے محترم استاد ولی موسی کشمیری کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کی ڈائری رکھ لی ، جہاں میں بیٹھا ہوں یہ سو سال پرانی عمارت ہے جو دو کاؤنٹیز ( اضلاح ) کے ملاپ پر موجود ہے . یہاں سے کچھ فاصلے پر واروک شائر کا آغاز ہوتا ہے جہاں ولیم شیکسپیر کی جائے پیدائش ہے ، یہ عمارت اب میرا گھر ہے ، اس گھر کی تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ کوئی سو سال پہلے یہاں مسٹر ولیم تھامس نے آ کر پہلا بسیرا کیا اور تب سے اب تک اس کی ملکیت تین لوگوں کے نام ہوئی ، آج میں یہاں رہتا ہوں آنے والے کل کوئی اور آباد ہوگا مگر یہ عمارت کہیں نہیں جائے گی . یہ عمارتیں، یہ شہر ، ان شہروں کے قلب سے گزرنے والی شاہراہیں اور ان کے کنارے پر آباد عمارتیں ، جو کبھی گھر بنتی ہیں تو کبھی مکان . کچھ ایسی ہی کہانی ملکوں ، خطوں اور ادوار کی ہے . ایک دور کی تبدیلیاں دوسرے دور کو جنم دیتی ہیں اور انسان ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا وہ واحد جاندار ہے جس نے اپنی ضرورتوں اور اپنی طاقت کا رعب منوانے کے لیے حادثاتی طور پر یا منصوبہ بندی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں اور پھر انہیں وسعت دیتا دیتا عظیم مملکتوں کا شہنشاہ بن بیٹھا . ان سب کی فتوحات اور لشکر کشی میں یہی عمارتیں ، قلعے اور زمینی ڈھانچے ان کے مسکن تھے جنھیں اب ہم آثار قدیمہ اور ماضی کی فوجی چھاؤنیوں کے بطور جانتے ہیں . میرا کمرہ گھر کے سامنے کے حصے میں ہے اور یہاں سے ایک مصروف شاہراہ نظر آتی ہے آ س پاس گھر ، کچھ تعلیمی ادارے ، ایک سابقہ عدالت کی عمارت اور برمنگھم کا عالمی ہوائی اڈہ ہے ، پورا دن چہل پہل میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے اور اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم سے پہلے کے لوگ جب یہاں آئے اور آباد ہوئے تو ان کا پیش منظر کیا تھا .
عامر شاہد کیانی میرے ایک دوست ہیں جو وہ اکثر مجھ سے اپنے تجربوں کی بنیاد پر ایک صحت مندانہ مباحثہ کرتے ہیں جو میرے لیے بہت مفید ہوتا ہے . کچھ روز پہلے میں نے ان سے ان کے آبائی علاقے دینہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی تاریخ کے بارے میں پوچھا . یہ علاقہ مجھے ذاتی طور پر اس لیے دلچسپ لگتا ہے کیونکہ بچپن سے جب بھی میں نے راولپنڈی سے میرپور کا سفر کیا تو مجھے ترکی کی خشک پہاڑیوں کے پیچھے اپنے کشمیر کے پہاڑ نظر آتے تو بے ساختہ سوچ کچھ ایسی ہوتی .
اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا
جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں
ایک روز معمول کے مباحثے کے دوران کیانی صاحب سے میں نے ڈومیلی کی اہمیت اور کچھ تاریخوں پہلوؤں پر بات کی ، اس گفتگو کی وجہ جناب سلمان راشد صاحب کا ایک انٹرویو تھا جو میں نے دیکھا اور روز نامہ ڈان میں ان کا ایک انگریزی کا مضمون تھا ، اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں ڈومیلی کے ماضی کی تلاش میں نکل پڑا. اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے دیکھتے جب میں تک گیا تو ایک روز اٹھا ٹکٹ بک کروایا اور اسلام آباد جا اترا اور اپنے محسن استاد ولی موسی کشمیری کے پاس چلا گیا . میرے لیے سال کا یہ وقت ہمیشہ اہم ہوتا ہے جب میں گھر جاتا ہوں اور جسم و روح پھر سے ایک نئی امنگ کے ساتھ واپس لوٹتے اور اگلے سال کے منتظر ہو جاتے ہیں .
تحقیق میں سب سے بڑا مسئلہ مستند حوالوں اور صاحب علم و دانش تک رسائی ہے . آج گو کہ بہت سی کتابیں دستیاب ہیں ، انٹرنیٹ پر حوالہ جات مل جاتے ہیں مگر مقامی لوگوں سے بات کرنا اور ان سے یہاں کی لوک داستانوں میں چھپے کرداروں میں تاریخ کی کھوج ایک تکلیف دہ کام ہے مگر میرے محسن دوست اور اتالیق ولی موسی کشمیری نے یہ مسئلہ حل کر دیا اور میں نے ڈومیلی لکھنا شروع کیا .
میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور کچھ کتب خریدنے کا فیصلہ کیا . مجھے لاہور پاکستان میں موجود ایک پبلشر کی ویب سائٹ پر سلمان راشد صاحب کی ایک کتاب ملی جس کی بارے میں اور کچھ اور کتب کے بارے میں میں نے انہیں پیغام بھجوایا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں ان سے سلمان راشد صاحب کی تمام کتب خریدوں تو وہ مجھ سے کیسا برتاؤ کریں گے . میرے تجربے میں جب آپ ایک پبلشر سے کافی ساری کتابیں خریدیں تو وہ آپ کو نہ صرف رعایت دیتے ہیں بلکہ وہ آپ کو اپنے بک کلب کا ممبر بھی بنا لیتے ہیں مگر یہاں معاملہ کچھ اور تھا . کتب کی قیمت سترہ ہزار روپے تھی مگر پبلشر کا نمائندہ جواب دینے سے قاصر تھا ، اس نے مجھے انتظار کرنے کو کہا . میرے اس پیغام بھجوانے اور پبلشر کے نمائندے کا جواب آنے کے دوران میں نے اپنی تحقیق جاری رکھی . مجھے ایک ویب سائٹ پر جناب سلمان راشد صاحب کا ایک انٹرویو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے اپنے علمی سفر اور اس سفر میں آنے والی تکالیف کا ذکر کیا اور ایک جگہ انہوں نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہا کہ اکثر لوگ اس لیے جاہل ہیں کیونکہ وہ پڑھتے نہیں ہیں . اب میرے لیے اپنی جہالت کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں ان کے پبلشر کا جواب موصول ہوتے ہی ان کی کتابیں پڑھوں اور فاضل لوگوں کی صف میں کھڑا ہو جاؤں . اس کے ساتھ ساتھ میں نے ڈان میں چھپا ان کا ایک مضمون بھی پڑھا جو ڈومیلی کی تاریخ کا خاکہ تھا .
کچھ گھنٹوں بعد مجھے پبلشر کے نمائندے کا پیغام آیا . یہ شخص میرے خیال سے صرف سیلز ایجنٹ تھا کیونکہ اس نے کسی منتظم سے کتابوں کی ترسیل کے بارے میں پوچھنے کے بعد مجھ سے میرا پتہ پوچھا اور جب میں نے اسے بتایا کہ میں برطانیہ میں رہتا ہوں تو وہ کچھ دیر کے لیے پھر مجھے انتظار کرنے کا مشورہ دے کر چلا گیا اور جب واپس آیا تو اس نے میرے فضیلت حاصل کرنے کے تمام در بند کر دیے . اس کے پیغام کے مطابق کتب سترہ ہزار سے اٹھاون ہزار روپے کی ہو گئیں تھیں اور مجھے بتایا گیا کہ یہ فیصلہ منتظمین کا تھا یعنی وہ منہ دیکھ کر تھپڑ مارتے ہیں . میں چاہتا تھا کہ سلمان صاحب سے رابطہ کروں اور ان کو بتاؤں کہ لوگوں کے جاہل رہنے کی وجہ یہ پبلشر لوگ ہیں جو کتاب عام قاری کے لیے نہیں چھاپتے ہیں اور جو کتاب چھاپتے ہیں وہ اسے سونے کے بھاؤ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی عام قاری کبھی فضیلت کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکے اور کبھی اپنے ماتھے سے جہالت کا لیبل نہ اتار سکے . کچھ دیر یہی سوچتا رہا کہ اب میں فاضل کیسے بن سکتا ہوں . میں اسی ذہنی الجھن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور کونٹری یونیورسٹی میں ملازمت کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے چلا گیا . اس یونیورسٹی کے استادوں کو لگتا تھا کہ میں بھی استاد بن سکتا ہوں لہٰذا بالغان کو ثقافت کے ساتھ ساتھ بنیادی زبان سکھانے کے ایک کورس کی تین منازل کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد مجھے یونیورسٹی نے ایک صفر گھنٹوں کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بلوایا تھا ، یعنی جب میری ضرورت ہوئی مجھے کام پر بلوایا جائے گا مگر انہوں نے چار ماہ بہت شفقت سے بغیر کچھ فیس لیے بس ایک انٹرویو اور ماضی کے تجربے کی بنیاد پر مجھے یہ تربیت مہیا کی . میں معاہدے پر دستخط کر رہا تھا مگر سوچ وہیں اٹکی تھی ، '' میں فاضل کیسے بنو؟ ''.
اس شام میں یونیورسٹی کی کافی شاپ میں بیٹھا تھا ، میں کتھارسس کرنا چاہتا تھا اور میں نے ڈاکٹر وقار ارشد کو کال کی ، وقار ایک نوجوان ڈاکٹر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور پکے پوٹھواری ہیں . میں نے اور ڈاکٹر وقار نے کافی پی اور پھر ہم کار پارک کی طرف چل پڑے میں ڈاکٹر وقار کو پبلشر والی واردات سناتا چل رہ اٹھا . ڈاکٹر وقار بھی میری طرح یہاں اس گروپ میں شامل ہیں کہ جنھیں استاد بننے کا شوق تھا اور ہم نے کوئی چار ماہ اکھٹے تربیت حاصل کی . جب ہم کار پارک کی جانب جا آرہے تھے تو سامنے ایک پرانی کتابوں کی دکان کا دروازہ کھلا تھا اندر سے پرانی کتابوں اور ردی کی مہک آ رہی تھی . میں ڈاکٹر وقار کو لیکر اس دوکان میں داخل ہو گیا . یہاں ہم نے کوئی آدھ گھنٹہ گزارا ، میں نے پانچ کتابیں خریدیں اور اس دوکان میں داخل ہونے سے پہلے جو جہالت کا بوجھ میرے کندھوں پر تھا اب اتر چکا تھا ، اس دوکان کی ایک شیلف میں مبلغ سات پاونڈ میں مجھے سلمان راشد صاحب کی وہ کتاب مل گئی جس کی مجھے تلاش تھی . اس کتاب کو حاصل کرنا تو خود میں فاضل بننے کی سند تھی ہی مگر اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ جس صاحب یا صاحبہ نے یہ کتاب اس اولڈ بک شاپ پر بیچی تھی اسے یہ کتاب صاحب کتاب نے دی تھی کیونکہ کتاب کھولتے ہی لکھا تھا Compliments from the author- Salman Rashid . اب میرے پاس اس تجربے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے کہ کیسے جن کو فضیلت گھر میں ملتی ہے وہ اسے چوراہوں کی نظر کر دیتے ہیں اور مجھ سے کیسے کتاب کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کے دستخط بھی خرید لیتے ہیں اور وہ بھی مبلغ سات پاونڈ میں ، یعنی پبلشر حضرات کے لیے حضرت علامہ محمد اقبال کے الفاظ سو فیصد درست ہیں کہ ؛
شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
دنیا کا قدیم ترین آباد قصبہ ڈومیلی جسے بوجہ گزیٹر آف پنجاب اور محکمہ آثار قدیمہ نے کوئی اہمیت نہ دی اور نہ ہی اسکا ذکر کیا ۔

(جاری ہے)

تاریخ دانوں نے بھی مشرق و مغرب کو باہم ملانے والی عظیم شاہراہ پر واقع اس بستی پر نظرنہ ڈالی جو تدیبر اتی لحاظ سے انتہائی اہم درے کی محافظ ہے۔گکھڑوں سے پہلے اس علاقے میں کون آباد تھے تاریخ اس پر بھی خاموش ہے۔ ڈومیلی کا قبرستان گواہی دیتا ہے کہ مشرق و مغرب کو ملانے والی اس شاہرا ہ پر واقع یہ قصبہ دور قدیم کا اہم عینی شاہد اور یہاں سے گزرنے والے لشکروں اور قافلوں کی آماجگاہ رہا ہے ۔
ترکی کے تنگ درے سے گزرنے والے لشکروں نے انسانی خون کا نذرانہ دیکر ہی جہلم کے پتن تک رسائی حاصل کی اور پھر پانی پت تک اُن کی یلغار نہُ رک سکی۔
سکندر اعظم کا لشکر اتنا بڑا تھا کہ اُس کے آگے ترکی کا دفاع کرنے والے پورس کے دستے بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہلم دریا کے اس پار دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبو ر ہوگئے ۔ سکندر کے جرنیلوں نے ترکی کو اپنی ذد میں رکھا اور ڈومیلی کے شمالی گاؤں رواتلا اور پنچور سے ہوتے ہوئے دریائے جہلم کے کنارے منگلا کی بستی سے گزرتے پنڈی ملاں جا رکے ۔
رواتلا کے عین سامنے مشرق کی جانب ایک چوٹی کا نام 'شی بکری ناں نکا' ہے ۔'شی ' سے مراد شیر اور 'نکے' کامطلب چوٹی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب سکندر کا لشکر یہاں سے گزرا تو جنگلوں سے شیروں اور جنگلی حیات نے اس چوٹی پر پناہ لی۔ گکھڑ اس علاقے میں کب آباد ہوئے اس کی کوئی مستند تاریخ نہیں ۔کچھ مصنفین کا کہنا ہے کہ قلعہ روہتاس نے ڈومیلی کی اہمیت کو کم کر دیا اور کھوجیوں نے بھی ڈومیلی کی تاریخ اور اس کی عسکری اور انتظامی اہمیت پر توجہ نہ دی ۔

ڈومیلی کا قصبہ جہلم سے 32کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ یہ قصبہ قلعہ روہتا س سے 16کلو میٹر اور کوہستان نمک سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے اور ڈومیلی ضلع جہلم میں واقع ایک یونین کونسل ہے ۔
ڈومیلی کے عین سامنے کہان دریاکے دوسری طرف چار کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے پہاڑ پر قدیم کارواں سرائے موجود ہے ۔
سوہاو ہ کی طرف آئیں تو پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ برساتی نالے کے کنارے حضرت نیلی بابا سرکار ؒ کا مزار ہے جوسوہاوہ سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق کی سمت واقع ہے۔ نیلی بابا ؒ کے دربار سے مشرق کی جانب ترکی پہاڑ پر واقع درے پر کارواں سرائے ہے جہاں ایک بڑ ا حوض ، بارہ دری اور دیگر تعمیرات کے آثار سے انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں تقریباً دو سو آدمیوں کی رہائش کا بندوبست ہے۔
یہ سرائے سنگ تراشی کا عمدہ نمونہ پیش کر تا ہے اور طرز تعمیر مغلیہ دکھائی دیتا ہے۔
کاروان سرائے تک دونوں جانب سے کوئی راستہ یا سٹرک نہیں اور نہ ہی کسی قدیم سٹرک کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ دربار حضرت نیلی بابا سے سرائے کا فاصلہ تقریباً چار کلو میٹر ہے اور راستہ انتہائی مشکل اور عمودی ہے ۔ سرائے سے کہان نالے کا فاصلہ بھی چار سے پانچ کلومیٹر ہے اور ڈومیلی گاؤں تقریباً سات کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

کاروان سرائے کی برجیوں سے نہ صرف ڈومیلی بلکہ منگلا ڈیم ، قلعہ روہتا س اور جہلم کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جنوبی برجیوں سے چکوال اور کوہستان نمک نظر آتے ہیں ۔ وسطی برجیوں سے ٹلہ جوگیاں اور شمال مغرب کی جانب مارگلہ اور کالا چٹا کا پہاڑی سلسلہ صاف موسم میں نظرآتا ہے۔
کاروان سرائے کو دفاعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مغلیہ یا پھر شیر شاہ سوری کے عہدمیں تعمیر کی جانیوالی فوجی چوکی یا پھر کوئی تقریح مقام نظرآتا ہے۔
اٹک کے قریب دریائے سندھ کے کنارے مسمار شدہ گکھڑوں کے قلعے کے آثار اور روات میں قائم گکھڑوں کا قلعہ طرز تعمیر کے لحاظ مغلیہ طرز تعمیر سے مختلف ہے۔ راولپنڈی اور کہوٹہ کے علاقوں میں بھی گکھڑوں کے قلعوں کے گھنڈرات موجود ہیں جن میں شاہانہ طرز تعمیر کے کوئی آثار نہیں۔ گکھڑوں کے قلعے پناہ گاہوں کی طرز پر تعمیر ہوئے جن میں بڑی سپاہ رکھنے کی گنجائش نہ تھی۔

حوض ،بارہ دریاں ، باولیاں ، زنان خانے اور سرائیں مغلوں کے تعمیراتی ذوق کا حصہ تھیں جہاں بادشاہ ، شہزادے اور شہزادیاں قیام کرتیں اور سیاحت اور شکا ر کا کبھی انتظام کیا جاتا ۔ مغلوں کے بعد انگریزوں نے بھی دفاعی اہمیت کے پیش نظر قلعے تعمیر کروائے جو صرف فوجی مقاصد کے لیے ہی استعمال ہوتے تھے۔ درہ خیبر میں واقع علی مسجد کا قلعہ جسے مغلوں کے بعد افغانوں نے تعمیر کیا ،شاہ گئی قلعے سے مختلف ہے۔
شاہ گئی کے قلعے کی بنیاد بھی مغلوں نے رکھی مگر اسے قابل استعمال نہ بنا سکے ۔ باجوڑ کی لڑائی میں خیبر کی مشہور روحانی شخصیت سیدہ بی بی مبارکہ کا خاوند مغلوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔ بی بی مبارکہ نے مغلوں کے خلاف اعلان جہاد کیا تو باجوڑ سے لیکر تیرہ وادی کے پختون قبائل نے بی بی مبارکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بی بی مبارکہ کے مریدین اور مغلوں کے درمیان طویل عرصہ تک جنگ جاری رہی ۔
بابر کے ابتدائی دور سے شروع ہونے والی یہ جنگ شاہجہان کے دور میں ختم ہوئی ۔ شاہجہان نے قبائلی جرگے سے معافی طلب کی او رسیدہ مبارکہ کے خاوند کے قتل کا قصاص ادا کیا۔ شاہ گئی کا قلعہ قبائلوں نے تباہ کیا جسے انگریزوں نے پھر سے تعمیر کیا ۔ علی مسجد کا قلعہ انگریزوں نے تباہ کیا جسے کسی نے دوبارہ تعمیر نہ کیا۔ ترکی پہاڑ پرقائم کاروان سرائے وقت اور حالات کے ہاتھوں اجڑی مگر آج بھی اپنی بنیادوں پرقائم ہے ۔
کاروان سرائے پر جانے کے لیے ڈومیلی کی جانب سے یکطرفہ راستہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغلوں یا پٹھانوں نے روہتاس قلعے یا پھر ترکی کے درے سے گزرنے والی عظیم جرنیلی سٹرک کی حفاظت کے لیے یہ چھوٹی چھاؤنی قائم کی۔ ایسا ہی انتظام ٹلہ جوگیاں اورکوہستان نمک کی بعض چوٹیوں پر بھی موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چھوٹی چھاؤنیاں تدبیراتی لحاظ سے تعمیر کی گئیں تاکہ سلسلہ کوہ ترکی اور وادی جہلم ،خاص کر قلعہ روہتاس پر حملے کی صورت میں چند میل کے فاصلے پرایک تازہ دم فوج موجود ہو جو دشمن پر دو طرفہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ اکبر کے دور میں منگلا اور رام کوٹ کے مقام پر بھی قلعے تعمیر ہوئے جو آج بھی موجود ہیں۔ (جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles