Dunya Ka Lamba Tareen Insan - Article No. 1127

Dunya Ka Lamba Tareen Insan

دنیا کا لمبا ترین انسان - تحریر نمبر 1127

فرعون کے دریائے نیل میں غرق ہونے کے بعد جب بنی اسرائیل کی قوم کو اس کے ظلم وجبر سے نجات مل گئی تو اس کے کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ملک شام کی سرزمین سے ظالم و جابر لوگوں کو نکال د واور خداکے دشمنوں سے جہاد کرو اور اپنی قوم میں سے بارہ افراد کو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر سردار مقرر کردو تاکہ یہ سب اپنے سرداروں کے تابع رہیں اور اللہ کے احکام کی پابندی کرتے رہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پران میں سے بارہ افراد کو سردار مقرر کردیا۔

ہفتہ 17 دسمبر 2016

ضمیر الدین کوثر:
فرعون کے دریائے نیل میں غرق ہونے کے بعد جب بنی اسرائیل کی قوم کو اس کے ظلم وجبر سے نجات مل گئی تو اس کے کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ملک شام کی سرزمین سے ظالم وجابرلوگوں کو نکال د واور خداکے دشمنوں سے جہاد کرو اور اپنی قوم میں سے بارہ افراد کو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر سردار مقرر کردو تاکہ یہ سب اپنے سرداروں کے تابع رہیں اور اللہ کے احکام کی پابندی کرتے رہیں۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پران میں سے بارہ افراد کو سردار مقرر کردیا۔
اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام جہاد کے لئے اپنے سرداروں اور قوم کے ہمراہ جب کنعان کے مقام پر پہنچے تو اپنے سرداروں کوحکم دیا کہ وہ ملک شام جاکر وہاں کے ظالم اور جابرلوگوں کے حالات معلوم کریں۔

(جاری ہے)

جب یہ لوگ وہاں پہنچے اور وہاں حالات معلوم کیئے تو انھوں نے وہاں ایک بہت بڑے قد وقامت والا انسان دیکھا جس کانام عوج بن عنق تھا۔ (یہ شخص حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت موسیٰ کے زمانے تک زندہ رہا)۔ اس کی ماں کانام صفورہ اور باپ کانام عنق تھا۔ طوفان نوح علیہ السلان سے یہی شخص بچا تھا۔ اپنے دراز قد کی وجہ سے یہ شخص سمندر کے پانی میں بھی نہیں ڈوب سکتاتھا او رسمندر کی تہہ سے مچھلی پکڑ کر اپنی لمبائی کے سبب اسے سورج کی تپش سے بھون کرکھاتا تھا ۔

عون بن عنق نے جب ان سرداروں کودیکھا توان سے دریافت کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جاؤ گے۔ ان سرداروں نے جب اُسے اپناحال بیان کیاتو اس نے ان سب کو پکڑلیا اوراپنی بیوی کودکھانے کے لئے گیا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا۔ دیکھو یہ سب میرے ساتھ لڑنے کے لئے آئے ہیں یہ کہہ کر انھیں زمین پر ڈال دیا اور چاہا کہ چیونٹی کی طرح پیر سے مَل دے تو اس کی بیوی نے کہا ان کو چھوڑ دو یہ کمزور اور ناتواں ہیں خود چلے جائیں گے تجھ کو انھیں مارنے سے کیافائدہ ہوگا۔
چنانچہ یہ سردار ظالموں اور جابروں کی کثرت سے بہت ڈر گئے۔ واپس آکر انھوں نے ملک شام کی باتیں اور دشمن کی قوت کے بارے مین حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تفصیل سے بتایا۔ اور بیان کیا کہ وہاں کے پھل فروٹ بھی بہت بڑے بڑے ہیں گرایک دانہ انار کانکالیں توآدمی سیرہوجائے، اسی طرح انگور بھی بہت بڑا دیکھا کہ اگر ایک دانہ کھالیں تو جیپھر جائے اور دوسرا نہ کھایا جائے ۔
جو پھل فروٹ اپنے ساتھ لائے تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھائے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اپنی قوم کے لوگوں سے شام کے لوگوں اور ان کی قوت کے بارے میں کچھ بیان مت کرنا۔ کیوں کہ یہ لوگ تو پہلے ہی بزدل ہیں اور جہاد سے بھاگ جائیں گے ۔ آپ علیہ السلام کے اس حکم پران بارہ سرداروں میں سے صرف دو سردار اپنے وعدے پر قائم رہے ، ان میں سے دس سرداروں نے عہد شکنی کی اور قوم کے افراد کو وہاں کاسارا احوال جووہاں دیکھا تھا بیان کردیا اور عون بن عنق کے ہات پکڑ جانے کا واقعہ بھی بتادیا۔
جب قوم نے ان سے دشمن کی قوت کے بارے میں سنا تو ہراساں ہوکرجہاد پر جانے سے کترانے لگے اور مصر واپس جانے کی تیاری میں لگ گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے لوگوں! تم مت گھبراؤ اور جہاد سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو میرے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تمہیں ان کافروں پر فتح دوں گا۔ تو قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ وہاں پر توایک شخص ہے جوبہت بڑی قدوقامت والا ہے اور وہ بڑا ہی زبردست ہے ۔
ہم ہرگزوہاں نہیں جائیں گے جب تک وہ شخص وہاں پر موجود ہے ۔
وہ دونوں سردار یوشع بن نون اورکالوت بن قتاََ وہ جواپنے وعدے پر قائم رہے تھے قوم سے کہنے لگے اے قوم ٹھرجاؤ اور ان پر حملہ کرو اللہ تعالیٰ تم کو فتح دے گا اور موسیٰ علیہ السلام نے وعدے کیا ہے کی اللہ ان کو ضرور ہلاک کرے گا جس طرح فرعون کو ہلاک کیاتھا ۔ جب تم لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے۔
قوم نے کہا کہ ہم ساری عمر وہاں نہیں جائیں گے۔ اے موسیٰ علیہ السلام تو اور تیرا رب دونوں جاکر ان سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے غصہ ہوکر ان کے لئے اللہ سے بددعا کی ۔ جس کی وجہ سے شام کی فتح میں چالیس سال کی تاخیر ہوئی۔ اس مدت میں بنی اسرائیل کے نافرمان لوگ جنگلوں میں بھٹکتے رہے ۔
القصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا عصا ہاتھ میں لیکر ملک شام جہاد کے لئے روانہ ہوئے اور جب رات ہوئی توبنی اسرائیل نے واپس مصر جانے کاارادہ کیا، تمام رات چلتے رہے لیکن صبح فجر کے وقت دیکھتے ہیں کہ جہاں سے کوچ کیا تھا اب تک وہیں پرموجود ہیں۔
وہ سمجھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے یہ حال ہوا ہے ۔ تب یوشع بن نون نے ان سے کہا کہ اس میدان میں ٹھہر جاؤ اور صبر کرو اور استغفار پڑھو جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام شام فتح کرکے واپس نہ آجائیں۔ بنی اسرائیل کی قوم کے چھ لاکھ افراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے چالیس سال اس جگہ سے نہ نکل سکے۔ اس جگہ کانام تیہ ہے جو فلسطین ، اُردن اور مصر کے درمیان ایک میدانی علاقہ ہے ۔
الغرض حضرت موسیٰ علیہ السلام جب عوج بن عنق کے شہر کے نزدیک پہنچے تو لوگوں کی مہیب شکلیں دیکھ کرڈرے اور اللہ کو یاد کرکے آگے بڑھے ۔ جب عوج بن عنق نے ان کودیکھا توچاہا کہ پکڑ کر چیونٹی کی طرح مسل دے اور کہنے لگا کہ تو بنی اسرائیل کاوہ سردار ہے جس نے فرعون کو اس کی قوم کے ساتھ دریائے نیل میں غرق کردیا تھا۔ یہ کہہ کراس نے حملہ کردیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر جوابی حملہ کیا آپ علیہ السلام کا قد بھی دس گزاونچا تھا،آپ علیہ السلام نے دس گزاچھل کراپنا عصااتنے زور سے اس کے ٹخنے پرمارا کہ وہ وہیں گرکر مرگیا۔

Browse More Urdu Literature Articles