Faisla - Article No. 2420

Faisla

فیصلہ - تحریر نمبر 2420

ایک ہی موٹر سائیکل پرسوار ان دونوں سواروں نے نہ صرف کارکے اندر کی پُرسکون خاموشی کوتوڑا تھا بلکہ اپنی عجیب و غریب حرکات سے مزید اشتعال دلارہے تھے۔

محسن علی بدھ 26 اگست 2020

مانسہرہ سے ناران کے راستے پر سڑک کے بیچ و بیچ کار تیز رفتا ر میں رواں دواں تھی۔بلند و بالا مگر خاموش پہاڑوں کی خاموشی کو توڑتی ہوئی ، ہوا میں ایک بے ترتیب مگر پرزور آواز پیدا کرتی ہوئی گزر رہی تھی۔
یہ کار اور اس میں سوار خاندان کرنل جاوید خان کا تھاجو ہرسال کی طرح اس سال بھی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے شمالی علاقہ جات کا رُخ کررہے تھے۔
لیکن اس سال کرنل جا وید اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث اس سفر میں ان کے ساتھ شریک نہیں تھے۔
راستے کے تیور تو لمحہ بہ لمحہ بدل رہے تھے ۔یا تو ایک طویل سفر یکسر سیدھی سڑک پر ہی گزرتا یا پھر اس قدر پرُپیچ کہ کار کا ڈرائیور ،جو کرنل صاحب کا بڑا بیٹا فیروز تھا،ایک موڑ سے گزرنے کے بعد سنبھلتا ہی تھاکہ اگلا موڑ تیار ہوتا اور کار کا اسٹیئرنگ کسی پنڈولم کی مانند جھولتا۔

(جاری ہے)


اس کے برعکس کار کے اندر کا ماحول قدرے پرسکون تھا۔ کیونکہ گردو نواح کے دل فریب نظارے اور مدہم موسیقی کے باعث ایک سِحر آمیز سُکُوت تھا جسے کوئی بھی توڑنا نہیں چاہتاتھا۔اسی کیفیت میں سفر جاری تھا۔جونہی کار چیک پوسٹ سے چیکنگ کے بعد آگے بڑھی ، کچھ ہی فاصِلَہ طے کرنے کے بعد کارسواروں اور باہر کے دل کش نظاروں کے درمیاں دوموٹرسائیکل سوار حائل ہوگئے۔

ایک ہی موٹر سائیکل پرسوار ان دونوں سواروں نے نہ صرف کارکے اندر کی پُرسکون خاموشی کوتوڑا تھا بلکہ اپنی عجیب و غریب حرکات سے مزید اشتعال دلارہے تھے۔
دونوں نوجوان ہی تھے۔ ایک موٹر سائیکل چلا رہاتھا جبکہ دوسرا پیچھے بیٹھاسب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے مسلسل مختلف قسم کے اشارے کررہاتھا۔پچھلی سیٹ پر بائیں دروازے کی طرف بیٹھی کرنل صاحب کی بیٹی نے ان دوسواروں کی حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے فیروز کو کار تیز چلانے کوکہا۔
فیروز ،جو پہلے ہی ایسا کچھ سوچ رہاتھا،نے کار موجودہ رفتار سے کئی گنا تیزکردی اور موٹر سائیکل سواروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکل گیا۔ چند ہی لمحات کے بعد کار کے اندر ماحول میں پھر ہلچل پیدا ہوئی اور پھرسے تمام سواروں کی توجہ باہر مبذول ہوگئی۔ کیونکہ موٹرسائیکل سوار جو کہ اپنی دھن کے پکے تھے اور کسی ناگزیر مقصد کے تحت کار کے تعاقب میں تھے۔
اور پہلے سے بہت زیادہ رفتار کے ساتھ کار کے ہمراہ موٹر سائیکل دوڑا رہے تھے۔ اور پھر اسی طریقے سے کار سواروں کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے۔ کرنل صاحب کی بیٹی نے اس دفعہ قدرے اکتائے ہوئے لہجے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے سیکورٹی گارڈ کو اس صورت حال سے نپٹنے کوکہا۔
گارڈ خود نوجوانوں کی اس حرکت پر حیران تھا ۔اس نے انتہائی غصے کے عالم میں شیشہ کھولا اور نوجوانوں کو ہاتھ کے اشارے سے باز رہنے کاکہا مگر اس دوران نوجوان کار کے مزید قریب ہو چکے تھے اور اپنے مخصوص اشاروں کی زبان میں اسی تواتر سے کچھ کہہ رہے تھے۔
جب ان کی بات کو کچھ اہمیت نہ دی گئی تو اب کی بار پیچھے والے نوجوان کے ساتھ آگے والے نے بھی اپنے ایک ہاتھ سے اسی قسم کے اشاروں کا سلسلہ شروع کردیا ۔ ان کا شارہ مسلسل کرنل صاحب کی بیٹی کی طرف والے دروازے کوتھا۔وہ کبھی ہاتھ سے ہوا میں گول دائرہ بنا کر اُنگلی سے اس میں ترچھی لکیر کھینچتا تو کبھی اس سے ملتے جُلتے بے ڈھنگ سے زاویے بناتا۔
ان اشاروں کا ان دونوں کے نزدیک توکوئی خاص مطلب تھا ہی مگر کارسواروں کے لیے یہ قطعاًناقابلِ فہم تھے اور وہ ان کو سمجھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کررہے تھے۔
اشاروں ہی اشاروں میں منع کرنے کے اور سیکورٹی گارڈ کے روکنے کے باوجود بھی جب موٹرسائیکل سوار باز نہ آئے تو پچھلی سیٹ پر بیٹھے کرنل صاحب کے چھوٹے بیٹے نجیب نے ایک دفعہ پھر گارڈ کوبھرپور مزاحمت کرنے کاکہا ۔

گارڈ جو ا ب کسی حد تک مُتَنَفّرِ بھی ہوچکا تھا۔ شیشہ نیچے کیا اور ایک غصے بھری نگاہ ان پر ڈالی اور ایک زوردار آواز میں کار سے دور رہنے کاکہا ۔مگر نوجوانوں کے لیے یہ موقع گویاکسی غنیمت سے کم نہ تھا۔
اب کی بار نوجوانوں نے ہاتھ کے اشارے کرنا بند کیے اور موٹر سائیکل ایک تیز رفتار کے ساتھ کار کی طرف بڑھادی ۔ بائیں کھڑکی سے مہرین اور نجیب یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔

نوجوانوں کی اس بے باکی سے وہ اس قدر خفا ہوئے کہ فوراً فیروز کوکار ان کی طرف کرنے کاکہا ۔ او ر ساتھ ہی گارڈ کوان کی طرف بندوق تاننے کا مشورہ دیا ۔ گارڈ جو اسی قسم کے حکم کا مُنتَظِر تھا۔ اس نے فوراً ہاں میں ہاں مِلائی اور کھڑکی کے شیشے سے بندوق باہر نکال کر نوجوانوں پر تان لی۔
نوجوانوں کے لیے یوں اچانک کار کا اپنی طرف حرکت کرناتوحیران کن تھا ہی مگر اپنی طرف تانی گئی بندوق دیکھ کر ان کے اَوسان خطا ہوگئے۔
گارڈ نے دوسرے لمحے بندوق لوڈ بھی کرلیا جس سے نوجوانوں کے رہے سہے ہوش وحواس بھی جاتے رہے ۔ اسی دوران فیروز کار مزید بائیں جانب ، ان کے عین قریب لے آیا تھا۔یہ دونوں حملے نوجوانوں کے لیے اس قدر شدید اور غیر متوقع تھے کہ وہ اپنا مقصد بھول گئے جس کے لیے وہ تعاقب کررہے تھے اوراس قدر ڈٹے ہوئے تھے ۔ اب ان کو اپنی جان کے لالے پڑے گئے تھے ۔اس لیے انہوں نے موٹرسائیکل کی رفتار کم کی اور رکنے لگے۔
دوسری جانب گارڈ ،نجیب اور مہرین کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈانہ ہواتھا اور وہ کسی حد تک فاتحانہ اندازمیں موٹرسائیکل سواروں کی بوکھلاہٹ کو دیکھ رہے تھے۔موٹر سائیکل سوار اب تقریباً رُک چکے تھے۔اور ان کے اڑے ہوئے رنگ بتارہے تھے کہ وہ مزید ان کاپیچھانہیں کریں گے۔گارڈ اور نجیب نے یک زبان ہوکر کار کی رفتارکوبھی کم کرنے کاکہا ۔گارڈنے فیروز کی مشاورت سے نوجوانوں کو مزیددھمکانے کے لیے خالی جھاڑیوں میں فائر کردیا۔

اس دوران فیروزنے ایک جھٹکے سے کار کو ہلکا سابائیں جانب موڑا اور نوجوانوں کو، جو کارسے سے صرف ایک ہاتھ سے فاصلے پر تھے، ہلکی سی ٹکرماردی اور اس کے ساتھ ہی کارمیں قہقہے بلند ہوئے ۔فیروز نے ایک زوردار ہارن دیااور کارسر پٹ دوڑادی۔
خوف و ہراس سے مغلوب نوجوان اس حملے کے متحمل نہ ہوئے اورشدید گھبراہٹ کے باعث موٹرسائیکل کوقابومیں نہ رکھ سکے اور وہ ڈولتی ہوئی سڑک کے عین کنارے پہنچ گئی۔
اور بالآخر بے قابو ہو کر وہ ساتھ کھائی میں جاگری۔
کار کے اندرکاماحول اب یکسر بدل چکاتھا۔اب وہاں اس لطیف خاموشی کی جگہ خوش گپیوں اور قہقہوں نے لے لی تھی۔
” اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔اس قدر بدتمیز بھی کوئی ہوتا ہے؟ بے شرم لوگ۔۔۔۔۔۔“
مہرین نے بوتل سے پانی پیتے ہوئے کہا۔
نجیب بولا : ” اس طرح کے لوگوں کا یہی انجام ہوناچاہیے۔

”کیا کہا؟ صرف یہی ؟ یہی حرکت وہ اسلام آباد میں کرتے تو ان کی خیر نہیں تھی۔میں دیکھتا یہ کیسے بچ نکلتے ہیں۔“ فیروز نے نجیب کی بات کا جواب دیا۔
گارڈ جو اپنی باری کا انتظارکررہاتھا۔ فیروز کی بات ختم ہوتے ہی کَھنکارتے ہوئے بولا : ”یہ تو جی آپ نے کہاتھا کہ محض ڈرانا ہے اور دوسرا ہم سفر میں ہیں تومیں نے لحاظ کیا ورنہ میرا نشانہ ان کمینوں کی بائیک کے پہیے اورانجن تھا ۔
ایک دفعہ مارگراتا اور پھر ان سے دو ہاتھ کرتے۔جونہی گارڈ نے اپنی بات مکمل کی ، اگلے ہی لمحے ایک دھماکے کی آواز آئی اورگاڑی لڑکھڑانے لگی ۔
آواز کی شدت اتنی ذیادہ نہ تھی مگر رفتہ رفتہ کار بے قابو ہورہی تھی۔گارڈ نے بندوق لوڈ کرکے شیشے کی مدد سے پیچھے دیکھا اورفیروز کوبھی ایسا کرنے کاکہا کہ کہیں کوئی حملہ نہ ہواہو مگر کار کے پیچھے دونوں طرف ایساکچھ نہیں تھا ۔

بدقسمتی سے اب راستہ نیچے کی طرف ڈھلوان تھا۔یہی وجہ تھی کہ ایکسیلریٹر سے پیر اٹھانے کے باوجود کارمسلسل اور بل کھاتی ہوئی جا رہی تھی ۔بریک کاواسطہ بھی اب ٹائر سے مُنقَطِع ہوچکاتھا۔
اسی بدحواسی کے عالم میں مہرین کی نظرکار کے بائیں شیشے کی طرف پڑی تووہ چونک گئی کہ کار کاپچھلا ٹائر بُری طرح سے جھول رہاتھا۔اور جوں جوں کار آگے بڑھ ر ہی تھی وہ باہر کو آرہاتھا۔
مہرین نے فوراً گارڈ اور فیروزکوآ گاہ کیا ۔ان دونوں نے باہر دیکھنے کے بعد ایک دوسرے کودیکھا۔بوکھلاہٹ دونوں کے چہرے پہ واضح تھی۔ اس سے پہلے کہ فیروزکچھ کرتا،بالکل سامنے ایک اچانک موڑآگیا۔فیروز نے شدید سراسیمگی کے باوجودکمال مہارت کے ساتھ کار پر قابوپایا اور یہ پُر خطر موڑ کاٹ لیا۔اس تگ ودو کے نتیجے میں ٹائر اورکار کے درمیان تعلق مزید کمزورہوگیا تھااورکسی معمولی سے جھٹکے کابھی متحمل نہ ہوسکتاتھا۔
کار کے ساتھ فیروز خود بھی ابھی اپنے کھوئے ہوئے حواس بحال کرنے نہ پایاتھاکہ ا یک اورموڑ نے آلیا یہ موڑ پہلے والے سے نسبتاً ذیادہ اچانک اور خطرناک تھا۔فیروز نے آخری کوشش کرتے ہوئے پوری قوت سے اسٹیئرنگ گھمایا مگر اب دیر ہوچکی تھی ۔ایک دھک سے ٹائر کار سے علیحدہ ہوکر دورجاگراور دیوقامت پہاڑوں کے دامن میں ،ایک باریک سڑک کے خطرناک سے موڑپر، ایک بے قابو سی کار ، قلابازی کھاتی ہوئی ایک کھائی میں جاگری ۔
چند ہی لمحوں میں قہقوں کی جگہ چیخ و پکار نے لے لی ۔
خوش قسمتی سے یہ علاقہ خاصا گنجان تھا۔قریب ہی دکانیں اور گردونواح میں کچے پکے مکانات تھے۔
ایک پرہجوم مگر خاموش علاقے کی فضا میں یہ غیر معمولی سی ہلچل مکینوں میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے کافی تھی۔ قریب کی دکانوں میں دکاندار جو ذیادہ تر محض خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے ۔اس آواز کے بعد حیرت سے ایک دوسرے کوتکتے ہوئے آواز کی جانب دوڑے۔
گھروں میں بچے جوباہم کھیل کود میں بحث ومباحثہ تک جا پہنچے تھے، ٹھِٹھکے اور خوف اور تجسس کی مِلی جُلی کیفیت کے ساتھ گھروں کو اور کچھ اِدھر اُدھر دوڑے۔خواتین جو کچھ چولہے پہ چڑھی ہانڈی کے ساتھ بَرسرِپَیکار تھیں اور نوجوان لڑکیاں ہاتھ میں گُل کاری کا سازوسامان لیے بُنے ہوئے کپڑے پہ کچھ باقاعدہ اور کچھ بے قاعدہ نقش و نِگاربنارہی تھیں ،جو شایدان کے دِلی جذبات کے عکاّس تھے۔
ایک ہی لمحے میں چونک گئیں اور ان کے ہاتھ میں سُوئی چُبھتے چُبھتے بچ گئی۔
جائے وقوعہ پر ایک عدد اُلٹی ہوئی کار،اندر کچھ درد سے بلکتے اورآہ وبُکاکرتے زخمی، بے بس مُسافر اور اِرد گِرد خاموش تماشائیوں کا ایک ہجوم تھا۔
ذیادہ سے ذیادہ ان کے اختیار میں جوتھا وہ کیا۔یعنی بروقت ریسکیو حکام کو اطلاع دی گئی جو دفتر قریب ہونے کے باعث کچھ ہی وقت میں پہنچ گئے۔
قریب سے گُزرتا ہوا پولیس کادستہ، جو کار میں سوار گشت پرتھا ، ہجوم دیکھ کر رُک گیا۔
”لگتا ہے جی کسی بڑے صاحب کی کارہے۔“
کرائے کی جیپ کا ڈرائیور، جو قریب ہی کھڑا جیپ دھورہاتھا،اپنے تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بولا۔
”ہاں جی بالکل! اور صاحب بھی کوئی عام نہیں ، بڑے عہدے کے ․․․․سرکاری“
ایک اور شخص نے کہاجوکار کی پچھلی جانب کھڑاتھا اور اس کی نظرغالباً نمبر پلیٹ پہ پڑ گئی تھی۔

قریب ہی کھڑانواز خان جووہاں چائے اور پکوڑے بیچتاتھااور اپنے ٹھنڈے پکوڑوں کے ساتھ ”گرما گرم“ لکھ کر، اس یخ بستہ، سرد گردونواح کی ہَیبَت کو ٹھوکر پہ رکھتا ہوا اپنے دعوے پر قائم تھا ۔سیگریٹ کاگہرا کش لیتا ہوا بولا: ”بھئی مجھے معاملہ کوئی گڑ بڑ لگ رہاہے۔“ اس کی نظر مہرین پر تھی جو ادھ موئی حالت میں پڑی تھی۔
یہ تبصروں کا دور ابھی شاید اور چلتا رہتا مگر پولیس اور ریسکیو کی ٹیموں نے آکر صورتِ حال پرقابو پایا۔

گارد کے فرنٹ سیٹ پرہونے کے باعث سراور بازو پر شدید چوٹ آ ئی تھی مگر وہ ہوش میں تھا۔ ریسکیو اہلکاروں نے ابتدائی مرہم پٹی کے بعد گارڈ اور تمام سواروں کو قریبی اَسپَتال میں بھیج دیا اور پولیس نے گاڑی کی نمبر پلیٹ اور گارڈ سے تصدیق کرنے کے بعد کرنل جاویدکو اطلاع دی۔
کرنل صاحب جو اس وقت ڈیوٹی سے گھر واپس جا رہے تھے ، فوراً رُخ موڑکر اس جانب دوڑے۔

فوج میں کرنل کے عہدے پر فائز ہونے اور اور ایک اچھی سماجی شخصیت ہونے کی بِناپر کرنل صاحب کے تعلقات کاایک وسیع حلقئہِ احباب تھا اسی لیے کرنل صاحب کے اَسپَتال پہنچنے سے پہلے کئی اعزا و دیگر دوست وہا ں موجود تھے جن میں گزشتہ چیک پوسٹ کا ڈیوٹی افسر ، جو شاید پہلے ہی ذہنی طور پر کسی واقعے کے لیے تیار بیٹھا تھا ،پولیس حکام کی طرف سے حادثے کی خبر پاتے ہی بغیر کسی اَچَنبھے کے کسی ماتحت کو اپنی جگہ تعینات کر کے فوراً جائے وقوعہ پہنچا ۔

ایک پہیے کے بغیر، اُلٹی ہوئی کار کو افسوس بھری نظروں سے دیکھا، منہ میں کچھ بڑبڑایا اور اَسپَتال کی راہ لی ۔
چاروں زخمی جو اب ہوش میں آچکے تھے مگر زخموں کی شدت کے باعث ان کا علاج چل رہاتھا ۔اس سے قبل کہ ڈیوٹی افسر ان سے کوئی بات کرتا ،کرنل جاوید وارڈ میں داخل ہوئے۔
How...? How is that..?یہ، یہ․․․․ کیسے ؟؟کیوں؟؟سب کچھ؟؟
بوکھلاہٹ کے شکار کرنل جاوید خان کے منہ سے بے ترتیب الفاظ پھِسل پھِسل کر گررہے تھے۔

”اللہ کاشکر ہے کہ زیادہ اونچائی سے نہیں گرے اور ریسکیو ٹیموں نے بروقت کاروائی کی ورنہ اس سے زیادہ نقصان ہوسکتاتھا۔ خیراب صورت حال خطرے سے باہر ہے۔ بس کچھ ضروری ادویات دینی ہیں۔“
پاس کھڑے ہوئے ڈاکٹر نے تسلی دی ۔
یوں تو اور بھی لوگ موجودتھے جو کرنل صاحب کے قریبی اور محض واجبی تعلق والے بھی ، مگرڈیوٹی افسر کا اپنے ڈیوٹی کے اوقات میں یہاں موجود ہونا،جب کہ اس کی کرنل صاحب سے محض ایک یا دوملاقاتیں ہوئی تھیں ،باعثِ اِستِعجاب تھا۔

ڈیوٹی افسر ابھی کچھ کہنے کو پرتول ہی رہاتھاکہ کرنل صاحب گارڈ اور فیروز سے مخاطب ہوئے : ”حادثہ کب اور کیسے پیش آیا ؟“
فیروز اور گارڈ نے ایک دوسرے کو دیکھااور تقریباً ہکلاتے ہوئے کہا:
”وہ․․․و ہ ا چانک ٹائر․․․“
”کیاہواتھاٹائر کو ؟اورآپ کو بالکل بھی علم نہ ہوا؟“
”کارچلاتے ہوئے کارسے اس قدر بے خبر کیسے ہوئے ؟“
”تمھیں کسی راہ گیر نے بھی اطلاع نہیں دی؟“ کرنل صاحب نے انجانے میں ایک ہی جست میں کئی سوال کر ڈالے۔

”اور جب معلوم تھا کہ سفر طویل ہے تو ایسی غفلت ۔۔۔“
اب کی بار کرنل صاحب کے مخاطب مہرین اور نجیب تھے جو سر جھُکائے اپنے اپنے بازؤں پر لگے زخم دیکھ رہے تھے۔
ڈیوٹی افسرنے اپنی بات کرنے کے لیے یہی بہتر موقع پایا اور اپنی طرف نظر پڑتے ہی کرنل صاحب کے چہرے پر آمدہ حیرت کو دور کرنے کایہی مناسب وقت تھا۔
مخصوص فوجی انداز میں سیلوٹ کرنے کے بعد بولا : ”سر میں اس بارے میں کچھ عرض کرناچاہوں گا۔

کرنل صاحب نے مُتَعَجّب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اور ہونٹوں کی ایک معمولی سی جُنبش سے اجازت دی۔
”ہوا یوں تھا کہ جناب کی کار جونہی میری چیک پوسٹ سے گُزری،کارکاپچھلا پہیہ ڈگمگارہاتھا۔ میں نے فوراً بآواز بلند مخاطب کیا مگر کار کے شیشے بند ہونے کی وجہ سے آواز نہ پہنچ سکی۔“
”میں نے کار کی نمبر پلیٹ سے اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا کیونکہ کار آن کی آن میں آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔

افسربالکل سیدھا کھڑا ،تواترسے بولتاچلاجارہاتھا۔کرنل ہونٹ دانتوں میں دبائے اس کی بات سُن رہے تھے۔
”میرے پاس آخری انتخاب یہی تھا کہ ان کا پیچھا کرکے ان کو اطلاع دی جائے۔ میں نے اپنے عملے کے دو جوانوں کو ، جو ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھرجارہے تھے ، فوراًموٹرسائیکل پر ان کے تعاقب میں روانہ کیا کہ وہ کار روک کر یا اشارةً ان کو باخبر کردیں۔

”لیکن سر․․․و ہ․․․․ “
ڈیوٹی افسر نے ایک سرد نگاہ ان چاروں زخمیوں پر ڈالی اورمُٹھیاں بھینچ لیں۔
مہرین ، جوقدرے بے اِعتِنائی سے ساری گُفتَگُو سُن رہی تھی، موٹر سائیکل سواروں کانام سُنتے ہی دِیدے پھاڑ پھاڑ کر ڈیوٹی افسر کی طرف متوجہ ہوئی۔
گارڈ، نجیب اور فیروز بھی جوافسر کی باتوں کو اوّل اوّل معمول کی بات چیت سمجھ رہے تھے مگر جب بات پہیے تک پہنچی تو ان کا بھی ماتھا ٹھنکا ۔
اور افسر کی اس قدر قہرآلود نگاہ کا مطلب شاید وہ چاروں سمجھ گئے تھے اسی لیے شِکَست خوردہ نظروں سے ایک دُوسرے کودیکھا اور نظریں جھُکالیں۔
وہ چاہتے تھے کہ افسر کی جانب سے یہ خاموشی کبھی نہ ٹُوٹے۔
لیکن افسر نے اپنی بات جاری کی ”سر، بدقسمتی سے وہ خود ایک حادثے کاشکار ہوگئے تھے ۔اور اب ساتھ والے کمرے میں داخل ہیں۔“

Browse More Urdu Literature Articles