Farar - Article No. 2374

Farar

فرار - تحریر نمبر 2374

اختر صاحب لائونج میں باورچی خانے کے برابر میں واقع اپنے اکلوتے بیٹے اسلم کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر تقریبا بھاگتے ہوئے وہاں گئے تھے۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انکی سانس رک سی گئی تھی۔ انکی بیوی دروازے سے ٹکی بیہوش پڑی تھیں

ارمان شہریار ہفتہ 20 جون 2020

اختر!!۔۔ اختر!!!
دالان میں بیٹھے اختر صاحب چائے پی رہے تھے جب انکی اہلیہ زلیخہ بیگم کی آوازیں ان تک آئیں تھیں۔ وہ فوری چائے چھوڑ کر گھر کے اندر کی طرف کو بھاگے تھے۔ وہ جلدی میں اپنی چپل پہننا بھی بھول گئے تھے۔ "اختر!!" زلیخہ کی ایک اور آواز آئی تھی۔ "ارے ہو کہاں...؟؟" وہ اپنے کمرے میں زلیخہ کو نا پا کر چیخے تھے۔ اب کوئی آواز نہیں آئی تھی۔
۔
اختر صاحب لائونج میں باورچی خانے کے برابر میں واقع اپنے اکلوتے بیٹے اسلم کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر تقریبا بھاگتے ہوئے وہاں گئے تھے۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انکی سانس رک سی گئی تھی۔ انکی بیوی دروازے سے ٹکی بیہوش پڑی تھیں اور سامنے کے منظر نے انکے تمام الفاظ، خیالات اور جذبات ان سے چھین لیے تھے۔

(جاری ہے)

۔۔ اسلم پنکھے سے ٹنگا تھا۔

۔۔۔اسکا جسم اکڑ چکا تھا۔۔۔۔ اس نے خودکشی کرلی تھی۔۔۔
"ہائے میرا جوان بچہ۔۔۔ ہائے میرا اسلم۔۔" تین دن بعد قرآن خوانی میں بیٹھی اسلم کی ماں دہائیاں دے رہی تھی، محلے کی دو عورتیں اسے سنبھالا دینے کی کوشش کررہی تھیں جبکہ کچھ عورتیں ہاتھ میں گھٹلیاں یا سپارے لیے اسلم کی موت کی وجہ کیا ہوسکتی ہے اس پر حت الامکان دھیمی آواز میں تبصرہ کررہی تھیں۔
۔۔باہر مردانے میں اختر صاحب بلکل خاموش بیٹھے تھے۔ انہیں شانے سے تھام کر انکے پاس انکے بھائی علیم بھی بیٹھے تھے۔ محلے کے مرد بھی آپس میں اسی معمے پر گفتگو میں مصروف تھے۔۔۔"یقینن کسی لڑکی کا چکر ہے۔۔" سلیم درزی نے یقین سے کہا۔ "اور کیا! ارے کئی بار کولج کے بعد میری دکان پہ آیا کسی لڑکی کے ساتھ" زبیر کریانے والے نے بھی گفتگو میں حصہ ڈالا تو سب اسکی بات پر حیران رہ گئے۔
"لیکن بھائی میں نے تو سنا ہے خودکشی والے کا جنازہ نہیں ہوتا تو مولوی صاحب کیسے مان گئے جنازہ پڑھانے کے لیے۔۔۔؟" کریم احمد نے دھیمی آواز میں سب سے پوچھا۔ "ارے بھائی پیسے سے سب کچھ ہوجاتا ہے۔۔۔دین ایمان تو ہے نہیں کسی کا۔ پیسے دیے ہونگے مولوی صاحب کو۔ اور مولوی صاحب ٹھہرے اللہ والے انسان۔ ہمدردی میں پڑھا دیا ہوگا جنازہ۔۔۔
۔اللہ کے نام پہ" زبیر نے آخری جملے پہ ذرا زور دیا تھا۔ "ہاں بھئی! بیٹا کسی لڑکی کے لیے حرام موت مر گیا تو رشوت دیتے کہاں ہاتھ کانپیں گے ان کے" "بس!" علیم نے سلیم سمیت ہر کسی کو خاموش کروانے کی کوشش کی۔ "اٹھو تم لوگ۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔۔چلو۔۔ہمیں نہیں ہے ضرورت تم لوگوں کی ہمدردی کی۔۔" ان کے اس طرح چلانے پر سب ہی لوگ بڑبڑاتے ہوئے اپنی اپنی بیویوں کو لے کر چل دیے۔
۔
"کیا ضرورت تھی اس طرح نکالنے کی بھائی۔۔۔؟ بیٹھے رہنے دیتے۔" اختر صاحب نے مایوسی بھری آواز میں علیم سے کہا۔ "ہاں بیٹھے رہنے دیتے! ۔۔اس لیے سمجھاتا تھا میں کہ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع نا ملے۔۔۔سنبھال کر رکھ اپنی بیوی اور بیٹے کو۔۔۔لیکن نہیں اس پہ تو آزادی کا بھوت سوار تھا، دیکھ کیا ہوا۔ دیکھ" علیم نے اونچی آواز میں اختر کو ڈانٹنا شروع کردیا تھا۔
۔۔ "اب یہ سوگ کب تک منائے گا ہیں؟ حرام کی موت مرا ہے تیرا بیٹا حرام کی۔ تو کس بات کا سوگ منا رہا ہے؟ جاکے پوچھ اس سے کہ کیا گھول کے پلاتی تھی تیرے بیٹے کو جو یہ خناس بھرگیا تھا اس کے دماغ میں؟" اختر صاحب خاموشی سے سر جھکائے ان کی ساری باتیں سن رہے تھے۔ " ارے کہا تھا کالج نا بھیج اپنی زمینیں کس دن کام آئیں گی؟ لو دیکھو ماڈرن بننے کا نتیجہ کیا نکلا۔
۔"
اختر صاحب اب انکی باتوں کو ان سنا کرکے اندر چلے گئے تھے۔ لائونج میں انکی بیوی زلیخہ اکیلی بیٹھی تھیں انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وجود ساکت تھا۔ وہ یقینن وہ ساری باتیں سن سکی تھیں جو باہر ہورہی تھیں۔ اختر صاحب انکو اکیلا بیٹھا دیکھ کر اپنے آنسو صاف کرکے انکے پاس آکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے زلیخہ کو شانوں سے تھام کر انہیں اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔
زلیخہ نے انکی طرف دیکھا تھا اور بے اختیار انکے سینے میں منہ چھپا کر رونے لگی تھیں۔
"چل پگلی! مجھے اتنا کمزور سمجھتی ہے کہ میں تیرے بڑھاپے کا سہارہ نہیں بن سکتا۔۔؟" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ انکی آنکھوں سےآنسو رواں تھے۔
"اختر! ہمارہ بچہ۔۔۔" زلیخہ نے ہمت کرکے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر ہمت ہار کر وہ پھر انکے سینے سے لگ گئیں تھیں۔
"ہمارا بچہ اب اللہ کے پاس ہے۔ اسی نے دیا تھا نا۔۔۔اسی نے لے بھی لیا۔ تو پریشان مت ہو" انہوں نے اس ماں کو کسی طرح تسلی دینے کی کوشش کی تھی جسے کسی صورت قرار نہیں آرہا تھا۔
"اللہ نے دیا تھا، لیکن اس کم بخت نے اپنی زندگی کے ساتھ خیانت کی ہے۔۔خودکشی کی ہے اس نے۔۔۔تو اب بھی اندھا بنا ہوا ہے؟"
علیم صاحب نے ایک بار پھر زخموں پر نمک چھڑکا تھا۔

اختر صاحب نے زلیخہ کو کس کے تھام لیا۔
"ارے پوچھ اس سے کہ کیا تربیت کررہی تھی یہ اس کی کہ اس نے یہ قدم اٹھا لیا۔۔؟"
"یہی سوال میں آپ سے کیوں نا پوچھوں بھائی صاحب۔۔۔؟" اختر صاحب اب کھڑے ہوچکے تھے۔ انکی آواز میں تلخی تھی اور آنکھوں میں نمی۔
"ارے پگلا وگلا گیا ہے؟ کیا کہنا چاہ رہا ہے کہ میں نے اکسایا ہے تیرے بچے کو یہ قدم اٹھانے کے لیے؟" علیم صاحب چلائے۔

"پاگل تو پہلے تھا بھائی صاحب۔۔۔کاش اس وقت ہوش آجاتا تو آج میرا بیٹا زندہ ہوتا۔۔۔" اختر کی باتیں علیم صاحب خاموشی سے سن رہے تھے۔
"آپ نے اسے دو زندگیوں میں بانٹ رکھا تھا بھائی صاحب۔۔۔ آپ نے۔۔" انہوں نے علیم صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "صرف چند پیسوں اور محبت کے دو بول کی خاطر کیوں قربان کرتا وہ اپنی ساری زندگی آپ پر؟ اگر وہ پڑھ لکھ کر انجینئر بننا چاہتا تھا تو کیا جرم کررہا تھا؟ محض زمین کے کچھ ٹکڑے کے لیے وہ کیوں اپنے خواب توڑتا۔
۔۔
کاش۔۔۔۔کاش" اب وہ اکڑو بیٹھ کر سر پیٹنے لگے تھے۔ زلیخہ بلکل ساکت تھیں اور علیم صاحب صدمہ میں۔ " کاش ہم نے آپ کو انسان ہی رکھا ہوتا بھائی صاحب۔۔۔۔خدا نا بنایا ہوتا۔۔۔کاش کبھی آپکو بتایا ہوتا، کہ صحیح اور غلط آپ کے لیے بھی ویسا ہی ہے جیسا ساری دنیا کیلیے ہے۔۔۔۔" علیم صاحب کی آنکھوں سے اب آنسو گرنے لگے تھے۔ وہ کبھی بھی اس طرح کے کسی ماحول کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

"آپکی عزت، احترام میں ہم اسکو بھول گئے۔ وہ اسی کشمکش میں زندگی گزارتا رہا کہ اسکے خواب زیادہ اہم ہیں یا آپ کی عزت۔۔۔۔ہر خودکشی ایک قتل ہوتا ہے بھائی صاحب، اور میرے بیٹے کے قاتل آپ ہیں۔۔" انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا " بلکہ ہم تینوں اس قتل میں برابر کا شریک ہیں۔۔۔جب جب اس نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اسے ہمیشہ خاندان کی عزت کا مان کیسے رکھنا ہے یہ سکھایا، اور دیکھیں آج نہ عزت رہی، نہ مان رہا اور نہ میرا خاندان رہا.."
"اختر!" علیم صاحب نے بہت کمزور سی آواز میں انہیں پکارا۔
"بھائی صاحب خدا کا واسطہ ہے۔۔۔فی الحال آپ چلے جائیں۔۔۔پلیز" اختر صاحب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی۔
علیم صاحب لڑکھڑاتے وجود کیساتھ گھر سے باہر چلے گئے۔ اختر صاحب نے شانوں سے اپنی بیوی کو تھاما اور کمرے میں چلے گئے۔۔۔
"آجائیں صاحب۔۔۔گڈی ریڈی ہے" علیم صاحب کا ڈرائیور باہر گاڑی پہ کپڑا ماررہا تھا جب اس نے انہیں گھر سے نکلتے دیکھا۔
"نہیں! تم گھر جائو، میں خود آجائوں گا" انہوں نے نہایت ضعیف آواز میں کہا۔ "او صاحب جی! اننی دور کیویں آئیں گے آپ؟" ڈرائیور نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ علیم صاحب کچھ کہے بغیر آگے چل دیے۔ "او صاحب جی! راستہ تو ایتھوں ہے، تسی کتھے۔۔۔۔؟" ڈرائیور اب ذرا پریشان ہوا تھا۔ علیم صاحب ایک اجنبی سمت کی طرف جارہے تھے۔ "عجیب ہیں۔
۔۔" ڈرائیور نے واپس پلٹ کر گاڑی صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
وہاں ریل کا گزر ہوتا تھا جہاں علیم صاحب بیہوش سے جارہے تھے ۔ جس پٹری کو پار کر کے وہ آگے بڑھے تھے وہاں سے ریل گزری تھی، اپنے اتنے قریب سے ریل کو گزرتا دیکھ بھی وہ حواسوں میں نہیں آ سکے تھے۔ آج جس منزل پہ وہ آ پہنچے تھے اسکے بعد یہ خوفناک راستے انہیں کہاں محسوس ہوسکتے تھے۔
"ہر شخص کسی نا کسی چیز سے فرار چاہتا ہے۔۔۔اور ہر خودکشی ایک قتل ہے"
ایک ریل کی گزرنے کی آواز آئی تھی اور شاید انہیں بھی دنیا سے فرار کا رستہ مل گیا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles