Ghalib Kyun Ghalib Hai - Article No. 2122

Ghalib Kyun Ghalib Hai

غالب کیوں غالب ہے۔۔۔تحریر:رب نواز - تحریر نمبر 2122

اردو کے توسن سخن کی عنان غالب کے ہاتھ میں ہے ، اس کی شاعری ایک جام جہاں نما کی طرح ہے جس میں امروز و فردا کے وہ راز نظر ٓاتے ہیں جو دیدہ شعور سے بہت دور تھے ․غالب کے اشعار گل سخن پر اس طرح شبنم افشانی کرتے ہیں کہ نگہت چمن میں نکھار ٓا جاتا ہے

جمعہ 23 اگست 2019

غالب کا غلبہ اردو شاعری پر اس قدر گہرا ھے کہ غالب سے پہلے اردو کے خیابان سخن میں ہر طرح کے پھول کھلے تھے جو اپنی مسحور کن خوشبو سے اپنے گرد و نواح کو معطر کر رھے تھے لیکن غالب کا کمال فن یہ ہے کہ وہ باد صبا بن کر آ یا اور اپنے دوش سخن پہ اس خو شبو کو اٹھا کر عالمی ادب کے گلستانو ں سے ہمکنار کر ٓایا ․غالب نے اردو ادب کے سرا ے رنگ و بو میں حقیقت اور معرفت کے رنگوں سے دیدہ دل کو گرویدہ کیا․غالب کی سحر بیانی جب دامن افشانی کرتی تو نالہ ہآے بلبل میں وہ سوز و گداز پیدا ہوتا ہے کہ سارا چمن نوا پیرا ہو جاتا ہے․ اردو کے توسن سخن کی عنان غالب کے ہاتھ میں ہے ، اس کی شاعری ایک جام جہاں نما کی طرح ہے جس میں امروز و فردا کے وہ راز نظر ٓاتے ہیں جو دیدہ شعور سے بہت دور تھے ․غالب کے اشعار گل سخن پر اس طرح شبنم افشانی کرتے ہیں کہ نگہت چمن میں نکھار ٓا جاتا ہے․غالب کی جنبش قلم کی سیاہی سے وہ طلاطم پیدا ہوتا ہے جو شعور کی سیپی کو کناروں پر لا کر تخیل کا گوہر نایاب بنا تا ہے غالب اس لیے بھی غالب ہے اس سے پہلے جن باتوں پر نظریات کے خول تھے غالب نے ان باتوں کو تخلیقی جامہ پہنایا․ ایک بہت بڑی خوبی جو اسے غالب کرتی ہے وہ ہے معنی کی جمالیاتی تشکیل ․غالب کا ایک بہت بڑا کمال یہ بھی ہے کہ اس نے جمالیاتی شعور کو عقلی اور اخلاقی شعور میں منعکس کر کے دکھایا․غالب کی فردوس نظر،اشعار کی چاشنی،سحر بیانی،ہنگامہ ٓافرینی،نوا پیرای،لطف گویای ذوق نطری،معنی ٓافرینی،اور اس کا نشاط سخن،خوے سوال،رفعت تخیل،لب ا عجاز،عروس سخن،میناے سخن،اور انداز بیان غالب کو غالب بناتا ہے۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال غالب کے بارے میں فرماتے ہیں؛ فکر انسان پر تیری ہستی سے یہ روشن ہوا۔ ہے پر مرغ تخیل کی رسای تا کجا ۔تھا سراپا روح توں بزم سخن پیکر تیرا ؛ زیب محفل بھی راہا محفل سے پنہاں بھی راہا ۔ شاعری میں تخیل کا مقام : تخیل شاعری کی روح ہوتا ہے جتنا عمدہ ،دل ٓا ویز، جلالی اور جمالی تخیل ہو گا اتنا ہی بڑ۱ شاعر ہو گا․ غالب کا تخیل زیر بحت لانے سے پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ تخیل ہو تا کیا ہے۔
ٰتخیل کی سادہ تعریف یہ ہے کہ شاعر اپنی را ے یا تصور کو شکل یا مصوری کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے اور ایک ایسی منظر کشی کرتا ہے جو چشم بینا ،دیدہ دل ، ٓاور چشم باطن کیلے گہر ٓاب دار اور دل دامن کش بن جاتی ہے۔ تخیل کی اقسام میں حسی تخیل سب سے زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے جس میں احساسات کو شبیہ دے کر دیدہ حکمت سے شاعر وہ برگ و بار پیدا کرتا ہے کہ احساسات کی جمالیاتی خوبی نمایاں ہوتی ہے۔
حسی تخیل کی اردو ادب میں نماہندگی میر کے پاس ہے ۔تخیل کی دوسری قسم فکری تخیل ہے جس میں تصور شاعر کے پاس پہلے سے موجود ہو تا اور وہ اس تصور کو جمالیاتی لبادہ پہنا کر اپنے مقاصد حا صل کرتا ہے فکری تخیل میں علامہ اقبال کا نام صف اول میں ہے؛تخیل میں شاعر کے ہاں پہلے تصور جنم لیتا ہے اور پھر وہ اس تصور کی شبیہ کے ساتھ اپنے احساسات،جذبات،محسوسات،تصورات ، اور خیالات کو جوڑ کر ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتا ہے جو ذوق نظری کو تسکین پہنچاتا ہے۔
تخیل کے بارے میں کچھ اہل نظر کی یہ بھی راے ہے کہ تخیل میں شبیہ عقل سے نہں بلکہ روح سے ٓاتی ہے یہی تصور بعد میں تخلیقی تخیل کی بنیاد بنا۔ کالریج تخیل کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے پرا ئمری اینڈ سیکینڈری اس کے نزدیک پرائمری تخیل ہر خاص و عام کے پاس ہوتا ہے اس تخیل میں ۱نسان بیرونی دنیا سے اپنے احساسات کے زریعے چیزوں کو محسوس کرتا ہے اور لا شعوری اور غیر رضا کارانہ طور پر اپنے ذہن میں تصویر بناتا ہے یہ شعور سب کے پاس ہوتا ہے جبکہ سیکنڈری تخیل شاعرانہ ہوتا ہے جو صرف شاعروں یا فنکاروں کے پاس ہوتا ہے اس شعور میں شاعر بہت سی ارادی ،عقلی،جذباتی،محسوساتی،اور شعوری چیزوں کو جمع کر تا ہے ۔
کالریج اس تخیل کو جادوئی طاقت کہتا ہے غالب کا تخیل: غالب کے قلم سے تخیل کا وہ دریا بہتا ہے جو اپنے قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ۔غالب فن تخیل پر اس لیے غالب ہے کہ وہ اپنی ندرت تخیل سے ایک ایسی قوس قزاح بناتا ہے جس کو دیکھنے کیلے ہماری چشم دیدہ کو کوئی اور اسلوب دید چاہے ۔غالب کا یہ کمال فن ہے کہ وہ پہلے سے موجود خوبصورت چیزوں کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے ۔
غالب اپنی دور اندیشی،فہم و فراست،استعارات کے حسن،فکر کی نئی جہتوں،اور مشاہدات ااور تصورات کے سمندر میں غوط زن ہو کر انسانی شعور اور فطرت کے جمال کو اور جمیل بنا دیتا ہے ،علامہ اقبال نے شائد غالب کے بارے میں کہا تھا۔ بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت ۔ جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر ۔غالب کے پاس وہ فن ہے جو چمن کو نوائے پیرا چمن بنا دیتا ہے ۔غالب کے تخیل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے تخیل میں پیچیدگی ہے وہ اپنے تخیل سے ایک ایسی تصویر بناتا ہے جو شعور اور ٓانکھ کی وسعتوں سے بڑی ہوتی ہے اس صفت کے بارے میں غالب خود بیان کرتا ہے۔
ٓاگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے؛ مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا۔غالب اپنے فن کمال سے ٓانکھ کی دیدہ وری کو عقلی شعور پر فوقیت دیتا ہے۔ بقول اقبال غالب کا تخیل ۔ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیںََ۔ ٓاہ اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بین ۔غالب کا دکھایا ہوا منظر ذھن میں موجود تمام تصورات سے بڑا ہوتا ہے۔غالب تخیل کو دو طرح سے بروئے کار لاتا ہے پہلی سظح پر وہ اپنے حسن تخیل سے شبیہ کو ٓافاقی بناتا ہے ؛دوسرا بڑا وصف کہ غالب امیج کو متحرک کرتا ہے۔
غالب کا یہ شعر اس کے تخیل کی ترجمانی کرتا ہے ؛نقش فریادی ہے کس کی شوخ تحریر کا؛ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔ غالب کے تخیل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لفظ کے اندر موجود تمام مفاہیم سے زیادہ لفظ کو با معنی بناتا ہے مثال کے طور پر یہ شعر ۔ بس کہ دشوار ہے ہر کام کا ٓاساں ہونا۔ ٓادمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا۔غالب کے تخیل کا حسن اتنا تازہ اور مکمل ہے جو اسے لا زوال کرتا ہے اور و وقت کا گردو غبار اس کی تازگی کو ماند نہیں کر سکتا ہر ٓانے والی صدی غالب کو پہلے سے زیادہ زندہ کرتی ہے بقول علامہ اقبال۔
بقا کو جو دہکھا فنا ہو گی وہ۔قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ۔ غالب کی معنی ٓافرینی: غالب شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ شاعری معنی ٓافرینی ہے قافیہ پیمائی نہیں۔ شاعری کی اس تعریف پر جتنا غالب خود پورا اترتے ہیں کوئی دوسرا اردو شاعر پورا نہیں اترتا۔غالب کی معنی ٓافرینی زیر بحث لانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ معنی ٓافرینی شاعری میں ہوتی کیا ہے۔
شاعر اپنے خیال کے اظہار کیلئے معنی کے اندر موجود مفہوم کو اپنے تخیل، مشاہدے،احساسات،جذبات،دیدہ حکمت،چشم باطن،اور ذوق نظر سے وہ جمالیاتیلباس پہناتا ہے جس کی جلوہ نمائی سے پییر ہن لالہ و گل چاک ہو جاتے ہیں اور موج سخن سے بلبل کی نواہائے طرب ناک ہو جاتی ہے۔لفظ کے اندر نئے معنی پیدا کرنے میں غالب کا کوئی رقیب نہیں ، جیسا کہ فرماتے ہیں۔
سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جو پا ہوں جواہر کے ۔جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھو دیں جا کے معدن کو۔معنی ٓافرینی کی دوسری شکل معنی کے اندر وہ تاثیر پیدا کرنا ہے جس سے دریا میں وہ طلاطم پیدا ہوتا ہے جو صدف میں گوہر کی بازیابی کرتا ہے ۔غالب خود اپنے اشعار کے بارے میں کہتا ہے۔دیدہ تا دل اسد ٓائینہ یک پرتو شوق۔فیض معنی سے خط ساغر راقم سرشار۔معنی ٓا فرینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تاثیر سے روحانی تسکین کرے ۔
نقش معنی ہمہ خمیازہ عرض صورت۔سخن حق ہمہ پیمانہ ذوق تحسین۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔ ٓاتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے۔ غالب اپنی معنی ٓافرینی کا ذکر کر تے ہیں۔گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے۔جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں ٓاوے۔معنی ٓافرینی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ شعور کو معنی پر غالب ہونا چاہیے اور اس فن میں بھی غالب ہی غالب ہے ۔
غالب کی شدت غم کو جب الفاظ بیان نہ کر سکے تو وہ اہیں بن کر لبوں کی بجا ئے گریباں چاک کر کے باہر ٓا گئیں۔ بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے۔میری ٓاہیں بخیہ چاک گریباں ہو گیئں۔غالب کی معنی ٓافرینی میں ایک بڑا فن یہ ہے کہ وہ معنی کے روائیتی تسلسل کو توڑ کر نیے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔دیکھے اس شعر میں شمع کے بجھنے کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔
زبان اہل زبان میں ہے مرگ خامشی۔یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع۔ جیسا کہ علامہ اقبال غا لب کے بارے میں لکھتے ہیں۔زندگی مضمر ہے تیری شوخ تحریر میں۔تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں۔غالب کے نزدیک معنی ٓافرینی عقل سے زیادہ جذبات کے طابع ہوتی ہے جیسے وہ بیان کرتے ہیں ۔حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد۔پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی۔اسی طرح وہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ شاعری میں ٓاتش فشانی ضروری ہے۔
سخن میں خامہ غالب کی ٓاتش فشانی۔غالب کی ادائے خاص ہے جو اس کو سب پر غالب کرتی ہے جیسے خود کہتے ہیں ۔ ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا۔صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کیلئے۔ یہ کمال غالب کی معنی ٓافرینی کا ہے کہ وہ ریختہ کو رشک فارسی کہتے ہیں۔ جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشک فارسی۔گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے سنا کہ یوں۔ غالب کمال سخن میں اتنا کامل ہے کہ وہ عام بات کو بھی عروس سخن بنا دیتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب سب پر غالب ہے ۔اس غلبے کا دعوی خود غالب نے بھی کیا ہے ۔ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے۔کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور حالی نے غالب کے غلبہ کو یوں بیاں کیا ہے طالب و عرفی و نظیر و کلیم لوگ جو چاہیں ان کو ٹھرائیں ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں غالب نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسماں سے کیا نسبت

Browse More Urdu Literature Articles