Gumshuda Mohabbat - Article No. 2475

Gumshuda Mohabbat

گمشدہ محبت - تحریر نمبر 2475

وہ رات جب چاند اپنے پورے جوبن پر تھا اس کی روشنی چاروں جانب پھیلی ہوئی تھی ا ور اس پہاڑی علاقے میں چاندنی رات کا حسن دو آتشہ ہوگیا تھا

ملائکہ اعوان منگل 15 دسمبر 2020

وہ رات جب چاند اپنے پورے جوبن پر تھا اس کی روشنی چاروں جانب پھیلی ہوئی تھی ا ور اس پہاڑی علاقے میں چاندنی رات کا حسن دو آتشہ ہوگیا تھا وہ رات تو بہت حسین تھی لیکن تنہائی اپنے عروج پر تھی اور چھت پر موجود دو وجود خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید جدا ہونے سے پہلے خاموشی سے ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے بالآخر احد نےاس خاموشی کو توڑنا مناسب جانا ۔

لائحہ کوئی اس طرح بھی رخصت کرتا ہے کیا؟ لائحہ جو سوچوں کے خلا میں کہیں گھوم رہی تھی احد کی آواز پر چونکی۔
ہاں، نہیں وہ کیا مطلب؟ بہت بے ترتیب الفاظ تھے احد سمجھ گیا کہ ابھی وہ کن کیفیات سے گزر رہی ہے۔ آخرمحبت کا رشتہ ہوتا ہی ایسا ہے نہ کہتے ہوئے بھی ساری باتیں سمجھ لی جاتی ہیں، سارے مان رکھ لیے جاتےہیں۔

(جاری ہے)


جی تو لائحہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں یہاں آپ سے ہی ملنے آیا تھا اور اب میری واپسی میں صرف دو گھنٹے رہ گئے ہیں مگر آپ تو کچھ کہہ ہی نہیں رہیں۔

وہ بہت آرام سے آنکھوں میں محبت لیے اس سے پوچھ رہا تھا۔
لائحہ کو بھی محسوس ہو گیا کہ وہ صرف خاموشیوں کے سفر طے کر رہی ہے ۔
اچھا آپ واپس جاکر کال تو کریں گے نا؟ بہت عجیب سوال تھا یا شاید کھونے کا ڈر واضح تھا۔
جی بالکل سب سے پہلے آپ ہی کو کیا کروں گا۔ اس کی بات میں تسلی تھی لائحہ کا دل ذرا ہلکا ہوا جیسے کادن بوجھ دل سے اتر گیا ہو۔
وہ بھی جان گیا تھا کہ لائحہ ابھی کن سوچوں میں گم ہے اس نے موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔
خالہ بتا رہی تھیں آپ کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں؟ وہ جو اسے بغور دیکھ رہی تھی سمجھ گئی کہ موضوع کیوں تبدیل ہوا ہے۔
جی ہونے والے ہیں لیکن ابھی تین مہینے ہیں۔ اس نے سکون سے جواب دیا۔
اچھا چلیں خوب محنت کرنی ہے اور ہمیشہ کی طرح مجھ سے زیادہ نمبرز لینے ہیں۔
وہ ہمیشہ کی طرح اسے تنگ کر رہا تھا وہ بھی مسکرا دی لیکن ذہن میں پھر کوئی خطرہ منڈلایا تو وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
آپ جلدی تو آ جائیں گے ناں مطلب ٹریننگ کے صرف تین مہینے رہ گئے ہیں ناں؟ احد کا دل بھی بوجھل ہو گیا وہ جانتا تھا کہ لائحہ آگے کیا پوچھنے والی ہے۔
جی بس تین مہینے ہیں پھر یونٹ بھی مل جائے گا اور چھٹی بھی۔ وہ ہمیشہ لائحہ کے اسی سوال سے ڈرا کرتا تھا اور خود کو اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار رکھنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور شاید اس نے حتمی فیصلہ بھی کر لیا تھا اور اس کا نتیجہ بھی جانتا تھا۔

آپ نے کیا فیصلہ کیا کون سے یونٹ میں شمولیت اختیار کریں گے؟ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سے تلخ سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔
دیکھیں اب جو آرمی خود ہمیں نوازتی ہے۔ اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
آپ انفینٹری یا ایس ایس جی میں تو شمولیت اختیار نہیں کریں گے نا؟ دل میں بہت سے خدشات تھے وہ شاید تسلی کے کچھ الفاظ سننا چاہ رہی تھی۔

لائحہ دیکھیں آپ کو پتہ ہے ناں کہ میں ان دونوں میں سے ہی آرمی کی کسی ایک شاخ میں جانا چاہتا ہوں میں نے آرمی میں شمولیت ہی اسی لیے اختیار کی ہے تاکہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر لڑ سکوں میں مرد ہوں بزدل نہیں ہونا چاہتا۔ وہ جو تسلی کے الفاظ سننا چاہتی تھی تڑپ کر رہ گئی اور اس میں مزید کچھ کہنے اور سننے کی ہمت ختم ہو گئی تھی ایک بار پھر ان دونوں کے درمیان خاموشی نے اپنے بسیرے کر لیے تھے اور انہی خاموشیوں میں آخری لمحات بھی گزر گئے وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے جب خالہ کی آواز پرچونکے۔

بیٹا آپ دونوں کی باتیں ختم ہو گئی ہیں تو آجائیں اور احد بیٹا خالو منتظر ہیں آپ کے۔
جی خالہ جان! آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں ایسا کیسے ممکن ہے۔ اس کی اس بات پر خالہ مسکرا کر چلی گئیں۔ مگر ایک معصوم وجود ایسا بھی تھا جو یہ سب سن کر بھی نہیں مسکرایا بلکہ یہ مقام حقیقتا بہت مشکل تھا۔
احد اس کا خالہ زاد تھا، خالہ جو کہ پانچ بیٹوں کی والدہ تھیں، راولپنڈی میں رہائش پذیر تھیں۔

احد نے اپنی خواہش کے مطابق آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی مگر محبت میں اس کی کوئی دسترس نہیں تھی کیونکہ محبت تو صرف ہو جانے کا نام ہے کیوں، کب، کیسے اس طرح کے سوال محبت میں مطلوب نہیں ہوتے۔ لائحہ بھی احد کی خالہ زاد ہونے کے ساتھ اس کی شریک محبت بھی تھی اور احد کو ملٹری اکیڈمی سے جب بھی چھٹی ملتی تھی وہ خالہ کے گھر کچھ دن گزارے بغیر واپس نہیں جاتا تھا اور کیسے ممکن ہے کہ ملٹری اکیڈمی بھی ایبٹ آباد میں ہو اور شریک محبت کا گھر بھی ایبٹ آباد میں ہو تو شریک محبت کا دیدار کیے بغیر وہ اور کسی راستے کا خیال بھی دماغ میں لے آئے؟
لائحہ آپ کو پتہ ہے میں جب اکیڈمی میں ہوتا ہوں اور آپ کی یاد آتی ہے تو میں کیا کرتا ہوں؟ لائحہ نے ناسمجھی سے نہیں میں سر ہلایا۔

میں چاند دیکھتا ہوں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ کا دیدار کر رہا ہوں اور دل میں خیال آتا ہے کہ آپ بھی تو یوں ہی چاند کو دیکھتی ہوں گی اور مجھے یاد کرتی ہوں گی۔ وہ اس کی باتیں سن کر مسکرا دی کیوں کہ وہ یہی کرتی تھی اور اس کی مسکراہٹ سے احد کو اپنا جواب مل گیا تو وہ بھی مسکرا کر جانے کے لیے کھڑا ہوگیا، جاتے جاتے رکا اور پیچھے مڑ کر پھر لائحہ سے مخاطب ہوا۔

میں آپ کو اکیڈمی سے رات کو کال کیا کروں گا اور جب میری یاد آئے تو چاند دیکھ لیا کرنا کیوں کہ میں بھی یہی کروں گا اور ہمیشہ کی طرح میرے جونیئرز مجھے چاند دیکھتا دیکھ کر مجھ پر ہنسا کریں گے۔ پھر وہ مسکرا دیا مگر اس کی مسکراہٹ میں اداسی تھی۔ لائحہ بھی اس کی بات سن کر مسکرائی مگر آنکھوں میں تیرتی نمی احد کو صاف دکھائی دے رہی تھی وہ یہی تو نہیں چاہتا تھا وہ اپنی وجہ سے کبھی اس کو تکلیف
میں نہیں دیکھ سکتا تھا وہ جانتا تھا لائحہ بہت حساس ہے اور اذیت برداشت نہیں کر سکتی۔

احد نے اپنا بیگ اٹھایا اور خالو کے پاس آگیا جو کافی دیر سے اس کے منتظر تھے خالو کے ساتھ خالہ، کسوا اور حماد جو کہ لائحہ کے بڑے بہن بھائی تھے احد کو رخصت کرنے کے لئے کھڑے تھے۔ احد باری باری سب سے ملا اور نکلنے لگا تو دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی شریک محبت پر نظر پڑی جس کی رنگین آنکھیں اس سے رک
جانے کا اصرار کر رہی تھیں۔ مگر رکنا ممکن نہیں تھا وہ اس کے پاس سے نکل کر گاڑی میں جا بیٹھا وہ جانتا تھا یہ رات گزارنا ان دونوں کے لیے بہت مشکل ہے خاص کر تب جب یہ گمان ہو کہ شاید اب دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہو۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے وہ ہمیشہ احد کی واپسی پر یوں ہی رو رو کر اپنی حالت خراب کرلیتی تھی مگر اس دفعہ کچھ اور بھی تھا شاید کسی انہونی واقعہ کے ہونے کا ڈر جس کی وجہ سے وہ حساس لڑکی مزید ڈر گئی تھی یا شاید اپنی زیست کا کل اثاثہ چھن جانے کا ڈر تھا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بھائی آ گیا تو؟ حیدر جو احد کو کمرے میں دیکھ کر خوشی سے گلے ملتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
ہاں ابھی ہی آیا ہوں۔ احد نے بھی اس سے گلے ملتے ہوئے بتایا ۔
کب سے تیرا انتظار کر رہا ہوں۔ حیدر نے گرم جوشی سے بتایا۔
ہاں یار بس ابھی ہی آیا ہوں کمرے میں ہی تھا۔ احد نے تفصیلات بتائیں۔ حیدر نے احد کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ لیا تھا وہ جانتا تھا کوئی بات ضرور ہے جو احد کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے اور وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کیوں کہ وہ دو سال سے احد کو جانتا تھا وہ دونوں اکیڈمی کے پہلے دن سے ہی ایک دوسرے کے روم میٹس تھے اور احد اتنا خاموش اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

کیا ہوا منھ کیوں اترا ہوا ہے؟ حیدر نے تفتیشی انداز میں پوچھا ۔
نہیں کچھ نہیں ہوا شاید تھکن کی وجہ سے تجھے ایسا لگ رہا ہے۔ احد نے اسے تسلی دینا چاہی۔
تھکن؟ تو کس کو بیوقوف بنا رہا ہے میرے دوست خالہ کے گھر سے واپس آ رہا ہے ناں تو؟ حیدر نے بھی تفتیش شروع کردی۔
ہاں وہیں سے آرہا ہوں۔ احد کا چہرہ اور مرجھا گیا ۔
ہاں تو وہاں بھابھی بھی ہوں گی پھر کیوں تیرا چہرہ اترا ہوا ہے؟ حیدر نے اسے چھیڑا۔
۔
کچھ نہیں ہوا یار بس ایسے ہی۔۔ احد چڑ سا گیا ۔
ایسے ہی نہیں۔ کوئی تو وجہ ہے جو اتنا پھولا ہوا بیٹھا ہے۔ حیدر نے بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا آخر کو دوست تھا اور احد کس وقت کسی درد کس تکلیف یا کس خوشی سے گزر رہا ہے یہ اس سے بہتر کون جان سکتا تھا حیدر اور احد کو ملٹری اکیڈمی میں ملے دو سال ہو گئے تھے اور اب تو ان کا ایک دوسرے سے دل کا رشتہ تھا ۔

میں بہت برا کر رہا ہوں مجھے اس معصوم کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ احد بھی بتائے بغیر نہ رہ سکا ۔
کیا مطلب برا کر رہا ہوں؟ تو بھابھی کی بات تو نہیں کر رہا؟ حیدر کو تشویش ہوئی جب سے احد نے اسے لائحہ کا بتایا تھا وہ اسے بھابھی کہہ کر ہی احد کو تنگ کرتا تھا۔
ہاں تجھے پتا ہے ناں میں نے آپریشن ایریا میں جانا ہے یہ میرا خواب ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو لائحہ کو کون سنبھالے گا؟ اب وہ اپنا حال دل سنا رہا تھا۔

یار تو پاگل ہے کیا؟ کچھ نہیں ہوتا تو کیوں بلاوجہ چیزوں کو سر پر اٹھا کر رکھتا ہے۔ حیدر کو اس پر غصہ آیا کیوں کہ دوست کو بھی کھونے کا تصور ناممکنات میں سے ایک ہوتا ہے ۔
میں مذاق نہیں کر رہا میں لائحہ کو پسند کرتا ہوں لیکن میری جان آرمی سے جڑی ہوئی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں لائحہ کی محبت کے سامنے کمزور ہو کر میدان جنگ سے بزدلوں کی طرح بھاگ جاؤں۔
وہ اپنے دل پر گزرنے والے سارے خدشات بتا رہا تھا۔
یار تو واقعی بچوں والی باتیں کر رہا ہے۔ حیدر کو اس پر مزید غصہ آیا۔
میں بچوں والی باتیں نہیں کر رہا لیکن میں لائحہ کی آنکھوں میں مزید آنسو نہیں دیکھ سکتا اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے گی وہ بہت حساس ہے۔ احد نے مزید پریشانی سے بتایا۔
یار بھابی حساس ہوں گی لیکن ساری لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں محبت میں۔
تو کیوں بات کو اتنا لمبا کر رہا ہے اور اگر بزدلی والی بات ہوتی پھر تو ساری آرمی ہی بغیر شادی کے بیٹھی ہوتی کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو بیوی کا کیا ہوگا۔ حیدر نے اسے سمجھانا چاہا۔
لیکن مجھے آپریشن ایریا ہی میں جانا ہے اور میں لائحہ کو مزید تکلیف میں نہیں رکھ سکتا۔ وہ میرے بغیر رہ لے گی کچھ وقت لگے گا لیکن وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ میری زندگی بہت سخت ہے اس کو کوئی مجھ سے بہتر مل جائے گا وہ اس کے ساتھ خوش رہے گی۔
یہ سب کہنا احد کے لئے بھی بہت مشکل تھا لیکن فی الوقت وہ جو چیز جانتا تھا وہ صرف یہی تھا کہ لائحہ کو اس کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
وہ تیرے ساتھ بھی خوش ہی رہیں گی تو فضول باتیں نہ کر۔ حیدر نے اسے مزید سمجھانا چاہا۔
نہیں میں خوش رکھ ہی نہیں سکتا انھیں۔ احد کچھ سننے کو تیار نہ تھا۔
اوہو "انھیں" ۔۔۔ حیدر نے جان بوجھ کر اس کا دھیان ان باتوں سے ہٹانے کے لیے اسے تنگ کیا حالانکہ جانتا تو وہ بھی تھا کہ احد ہمیشہ لائحہ کو آپ کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہے لیکن موضوع تبدیل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔
۔
یار مذاق مت کر۔ احد چڑ سا گیا کیوں کہ اس کے ذہن میں اس وقت جو چیز تھی وہ اس کے ملک کا دفاع تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی ایسا شخص بھی ہو جس کی محبت ملک کی محبت سے بڑھ جائے تو وہ ملک کے دفاع میں کہیں ناکام نہ ہو جائے ۔ حیدر نے بھی چپ کا تالا منھ پر لگانا زیادہ مناسب سمجھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ احد اس کی کوئی بات نہیں مانے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی وہ کھڑکی میں کھڑی چاند کو تک رہی تھی۔ احد کو گئے ہوئے پورا ایک دن گزر گیا تھا لیکن اس کی کوئی کال نہیں آئی تھی وہ اس کی کال کا انتظار کر رہی تھی ساتھ ہی دل کو اس کی مصروفیات کی تسلی دے رہی تھی وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب فون بجنے پر ان سوچوں سے باہر آئی اور جلدی سے کال اٹھائی۔

السلام علیکم ! کیسی ہیں آپ؟ وہ احد ہی تھا اور اس کا پیار بھرا لہجہ ۔
وعلیکم السلام۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ وہی سوال دہرایا گیا۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔ احد نے جواب دیا اور پھر دونوں جانب خاموشی چھا گئی۔
چاند دیکھ رہی ہیں؟ اب کی بار احد کی طرف سے سوال کیا گیا۔
جی دیکھ رہی ہوں۔ لائحہ نے نرمی سے جواب دیا۔
میں بھی۔
الفاظ مختصر تھے لیکن مفہوم واضح تھا۔
کل کال نہیں کی آپ نے؟ یہ سوال لائحہ کی طرف سے تھا۔
کی تھی لیکن آپ نے اٹھائی نہیں۔ احد نے وضاحت دی۔
نہیں فون میرے پاس ہی تھا آپ کی کوئی کال نہیں آئی۔ لائحہ کو تشویش ہوئی۔
اچھا غلط نمبر ملا دیا ہو گا شاید اس لیے نہیں آئی ہو۔ احد نے بات ٹال دی تو لائحہ بھی کچھ نہ بولی۔
کل پتہ ہے کیا دن ہے؟ لائحہ نے محبت سے بھرپور انداز میں پوچھا۔

نہیں۔ کل کیا ہے؟ احد کو واقعی یاد نہیں تھا۔
کل میری سالگرہ ہے ۔ لائحہ نے پھر اسے یاد دلایا۔
چلیں میں کل دوپہر میں کال کروں گا آپ کو۔ احد نے شاید اسے تسلی دی یا کچھ اور جو وہ دونوں نہ سمجھ سکے۔
لائحہ صبح سویرے ہی اٹھ گئی اسے یاد تو تھا کہ احد نے دوپہر کو کال کا کہا ہے لیکن محبت میں انسان وقت سے پہلے ہی اس وقت کا انتظار کرتا ہے جس کی اسے تسلی دی جاتی ہے۔

صبح، دوپہر اور پھر رات بھی گزر گئی لیکن احد کی کوئی کال نہیں آئی اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا تب بھی کوئی کال نہ آئی۔ لائحہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی رہی وہ ہر وقت روتی رہتی تھی اور اکثر تو ایسا ہوتا رات کو سوتے ہوئے بھی وہ احد کا نام پکارتی تھی۔ کسوا اس کی حالت دیکھ چکی تھی آخر کو بہن تھی اور بہن تو آنکھیں بھی پڑھ لیتی ہے۔ کسوا کے پوچھنے پر لائحہ نے اسے سب بتا دیا۔
لائحہ کو لگتا تھا وہ احد کو
کھو چکی ہے اور احد نے اسے سالگرہ کے تحفے میں جدائی دی ہے۔
احد کی پاسنگ آوٹ ہو گئی تھی اور لائحہ کو ایک آس لگی ہوئی تھی کہ شاید پاسنگ آوٹ کے بعد احد ان کے گھر آئے مگر لائحہ کی آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اور احد بغیر ملے ایبٹ آباد سے راولپنڈی چھٹی پر چلا گیا۔
دوسری طرف کسوا نے سوچ لیا تھا وہ احد سے بات کرے گی اس نے احد کو ایک پیغام بھیجا۔

السلام علیکم! اگر آپ کے پاس وقت ہو تو بات کرنی ہے۔ پیغام احد تک پہنچ چکا تھا اور جواب بھی آچکا تھا ۔
وعلیکم السلام۔ جی آپ کر لیں بات۔ احد جانتا تھا کہ اسے کیا بات کرنی ہے۔
آپ نے کیا سوچا پھر لائحہ کے بارے میں؟ سادہ لفظوں میں سوال پوچھا گیا۔
پہلے آپ بتائیں میرا ایک کام کریں گی؟ جواب کے بجائے سوال کیا گیا تھا۔
جی اگر ممکن ہوا تو کر دوں گی۔
کسوا کو بھی خدشہ محسوس ہوا۔
آپ لائحہ کو بتائیں میں بہت برا ہوں میں اس کا خیال نہیں رکھ سکتا ۔ میں اس کے قابل ہوں ہی نہیں۔ احد حتمی فیصلہ کر چکا تھا۔ کسوا کو بھی جھٹکا لگا یہ پڑھ کر۔
میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے میری وزیرستان پوسٹنگ ہو رہی ہے میں نہیں چاہتا میں لائحہ کی وجہ سے میدان جنگ سے واپس پلٹ جاؤں میں اپنی زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں لا سکتا جس کی محبت مجھے بزدل بنا دے اور میں ملک کا دفاع نہ کر سکوں۔
پہلے پیغام کا جواب دینے سے پہلے ہی کسوا کے پاس اس کا ایک اور پیغام آ گیا۔ بات وہی تھی جو اس نے حیدر کو کہی تھی۔ اب کسوا کو کہہ رہا تھا۔
زندگی کا بھروسا تو کسی بھی انسان کو نہیں لیکن یہ کوئی بات نہیں جان چھڑانے کی۔ اگر ایسا ہوتا تو اتنے لوگ اور بھی ہیں آرمی میں۔ کیا وہ بھی یہی سوچ کر اپنے گھر سے، رشتوں سے اور رشتہ داروں سے دور سے بھاگتے ہیں؟ وہ کسی طرح اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئی۔

اور آپ کو معلوم ہے لائحہ کی کیا حالت ہے؟ وہ ہر وقت روتی رہتی ہے وہ سوتی نہیں ہے اگر سو بھی جائے تو آپ کا نام پکارتی ہے۔ کسوا کو اس پر غصہ آ رہا تھا اور یہ بات سن کر شاید احد کو لائحہ پر غصہ آیا کیوں کہ وہ یہی سب نہیں چاہتا تھا۔
مجھے معلوم ہے اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بھائی میری امی کو سنبھال لیں گے لیکن لائحہ کو کون سنبھالے گا؟ اس کو وقت لگے گا وہ ٹھیک ہو جائے گی لیکن میں مزید اب اس کو خود سے وابستہ نہیں رکھ سکتا۔
وہ ابھی بھی اپنی بات پہ اڑا ہوا تھا۔
لیکن یوں حالات سے بھاگنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ پیغام بھیج کر کسوا امی کی آواز پر ان کی بات سننے گئی۔ وہیں بیٹھی لائحہ جو کافی دیر سے بغور کسوا کو دیکھ رہی تھی کسی حد تک سمجھ گئی تھی کہ وہ احد سے ہی بات کر رہی ہے۔ کسوا کے جاتے ہی اس نے کسوا کا فون اٹھایا اور پیغامات پڑھنے شروع کیے۔
وہ ان دونوں کے پیغامات پڑھ رہی تھی اور آنسو اس کی آنکھوں سے لگاتار بہہ رہے تھے لیکن جب ہاتھ چھڑانے والا عہد کر لے کہ اسے ہاتھ چھڑانا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا آپ لاکھ منتیں کر لیں، پاؤں پڑ جائیں وہ کبھی نہیں رکتا سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
میں سارے پیغامات پڑھ چکی ہوں اور آپ نے جو اتنا عرصہ مجھ سے بات نہیں کی یا ملنے نہیں آئے تو میں جان گئی تھی کہ آپ سالگرہ کے تحفے میں مجھے جدائی دے چکے ہیں لیکن مجھے کوئی گلہ نہیں ہے اور اس بات کی خوشی بھی ہے کہ آپ نے میری محبت کے مقابل کسی لڑکی کی محبت لا کر کھڑی نہیں کی بلکہ وطن کی محبت کو میری محبت پر فوقیت دی لیکن شاید ایک توقع تھی آپ کے واپس آنے کی۔
خیر توقعات تو ہوتی ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔ انسان کب توقعات پر پورا اترتے ہیں وہ تو صرف رب پوری کرتا ہے۔ مجھے آپ کی خوشی عزیز ہے اور امید ہے ہم دونوں ایک ساتھ نہ بھی ہوئے تو ہم دونوں کا چاند تو ایک ہی ہو گا۔ یہ پیغام لائحہ کی طرف سے تھا اور وہ یہ پیغام لکھتے ہوئے بھی رو رہی تھی۔ وہ احد کو کھونا نہیں چاہتی تھی بھلا اپنی محبت کون کھونا چاہتا ہے؟ لیکن کبھی کبھی انسان کو ایسے تلخ فیصلے کرنے پڑ جاتے ہیں جن کا وہ شاید تصور بھی نہیں کر سکتا۔

پیغام احد تک پہنچ چکا تھا اور پڑھا بھی جا چکا تھا اور اب دونوں جانب مزید کچھ کہنے یا سننے کی سکت نہیں بچی تھی اب جو رہ گیا تھا وہ رابطہ منقطع کرنا تھا اور وہ احد نے لائحہ کو بلاک کر کے کر دیا تھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو کھو چکے تھے لیکن ان دونوں کی تسلی کے لیے آج بھی چاند موجود تھا جو ان دونوں کے ساتھ مل کر جدائی کا سوگ منا رہا تھا اور ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی چاند انھیں یہ احساس دلا رہا تھا کہ وہ دونوں ساتھ ہیں اور چاند اس ساتھ کا واحد ذریعہ ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles