Gurbat Main Moott - Article No. 2307

Gurbat Main Moott

"غربت میں موت" - تحریر نمبر 2307

اس کے آس پاس شام کے ملگجی ساۓ پھیل رہے تھے لیکن وہ صبح سے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ کبھی رونے لگتی تو کبھی کسی یاد میں کھو جاتی۔ سارے مناظر ایک ایک کر کے اس کے ذہن کے پردے کی سکرین پر کسی فلم کی طرح چل رہے تھے

صفیہ ہارون جمعرات 16 اپریل 2020

اس کے آس پاس شام کے ملگجی ساۓ پھیل رہے تھے لیکن وہ صبح سے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ کبھی رونے لگتی تو کبھی کسی یاد میں کھو جاتی۔ سارے مناظر ایک ایک کر کے اس کے ذہن کے پردے کی سکرین پر کسی فلم کی طرح چل رہے تھے۔ اس کے آس پاس اب اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ رات کے دھندلکے نے ہر چیز کو سیاہ چادر میں لپیٹنا شروع کردیا تھا۔ عالیہ نے غربت میں آنکھ کھولی تھی اور اپنے آپس پاس بھوک و افلاس کو ہی موجود پایا تھا۔
اس کی بستی کے اکثر لوگ کچھ گھروں یا پھر موٹے کپڑے سے بنے خیموں یا جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ محنت مزدوری کرنے والے لوگوں کے پاس جس دن ضرورت سے زیادہ پیسے ہوتے، وہ دن ان کے لیے عید کا دن ہوتا۔اس کی بستی کے اکثر لوگ ساتھ والے شہر میں کام کرتے تھے۔ عالیہ کی اماں بھی اکثر گھروں میں کام کرتی۔

(جاری ہے)

شہر کے گھروں میں ایک گھر ایسا بھی تھا جس کے مکین خداترس اور رحم دل لوگ تھے۔

ان کی دریا دلی سے بستی کے سارے لوگ واقف تھے اور ان کے گھر کام کرنے کے خواہاں تھے کیونکہ وہ لوگ اپنے نوکروں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ عالیہ کی اماں ان کے گھر کام کرتی اور وہ بدلے میں ان کو کھانے پینے کے سامان کے علاوہ معقول تنخواہ بھی دیتے۔ لیکن مہنگائی کے اس دور میں عالیہ سمیت سات بچوں کا پیٹ پالنا بہت مشکل کام تھا۔ بعض دفعہ فاقوں تک کی نوبت آ جاتی اور کبھی کبھی دن میں صرف ایک وقت کا کھانا ملتا جس سے بچوں کی بھوک بمشکل مٹ پاتی۔
عالیہ کے گھر میں جب بھی کوئی بچہ بیمار پڑتا، خدا تعالٰی کی ذات سے مدد مانگنے کے علاوہ عالیہ کی اماں کی واحد امید "آفندی ولاز" ہی ہوتا جن کے گھر وہ کام کرتی تھی۔ آفندی ولاز میں کل تین نفوس موجود تھے۔ زمان آفندی، وجیہہ بیگم اور ان کا اکلوتا بیٹا، عفان آفندی۔ وجیہہ بیگم اپنے نام کی طرح ہی بہت وجیہہ شخصیت کی مالک تھی۔ زمان آفندی بہت مہربان اور نرم مزاج شخص تھے۔
زمان آفندی بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اب ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا جو ان سے ملنے آتا۔ ہاں البتہ وجیہہ بیگم کا ایک بھائی ضرور تھا، جو اکثر و بیشتر آفندی ولاز آتا رہتا۔ اس کی ایک ہی بیٹی ارفع تھی، بہت خوب صورت اور بہت معصوم۔ وجیہہ بیگم کو اپنی بھتیجی بہت عزیز تھی اور وہ اسے اپنی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔
عالیہ اور عفان کا بچپن ایک ساتھ کھیلتے گزرا تھا۔ جب کبھی ارفع اپنے والدین کے ہمراہ آفندی ولاز میں آتی تو گھر میں چہل پہل ہو جاتی اور ہر کسی کے چہرے پر مسکان بکھر جاتی۔ عفان آفندی نے عالیہ کو کبھی نوکر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ وہ عالیہ کو بھی اپنے ہی گھر کا فرد تصور کرتا۔ کام کرتے کرتے عالیہ کی ماں مسلسل بیمار رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹرز نے ان کو مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
گھر میں فاقے نا شروع ہو جائیں؛ اس لیے اپنی ماں کی جگہ عالیہ نے کام کرنا شروع کر دیا کیونکہ اب گھر کی واحد کفیل وہ تھی۔ عالیہ کے باپ کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا تب سے عالیہ کی ماں محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ عالیہ کی ماں نے اپنے بچوں کو اور کچھ سکھایا ہو یا نا سکھایا ہو؛ ان میں صبر کی عادت ضرور پیدا کی تھی۔
عالیہ بچپن ہی سے چھوٹی چھوٹی خواہشات پر بھی صبر کرتی آئی تھی۔ جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر صبر کرنا آ جاۓ تو بڑی سے بڑی خواہش پر بھی انسان صبر کر لیتا ہے۔ عالیہ کے دن بھر کے کام سے جو پیسے ملتے؛ اس سے ماں کی دوائی اور چھوٹے بہن بھائیوں کے کھانے پینے کا بندوبست ہو جاتا۔عالیہ اب شعور کی منزل پر قدم رکھ چکی تھی۔ وہ نظروں کے تقاضوں کو سمجھنے لگی تھی۔
عفان آفندی بہت رحم دل اور مہربان تھا۔ وہ عالیہ کی ضرورتوں کا خیال رکھتا؛ اسے عالیہ سے ہمدردی تھی لیکن عالیہ اس ہمدردی کو کچھ اور ہی سمجھ بیٹھی تھی۔ عالیہ کے دل پر کسی لطیف جذبے نے دستک دی تھی۔ وہ خود بھی اپنی اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ نا چاہتے ہوۓ بھی رات کی تنہائی میں اس کی آنکھوں کے سامنے عفان آفندی کا سراپا گھوم جاتا۔ وہ گھنٹوں بیٹھی عفان آفندی کے متعلق سوچتی رہتی۔
زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے بات کر کے سکون ملتا ہے۔جن سے ہمارا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہوتا؛ پھر بھی وہ ہمارے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ان کو دیکھے بنا؛ ان سے بات کیے بغیر سکون نہیں ملتا۔ طبیعت بہت بےچین؛ بوجھل بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ عالیہ بھی جب عفان آفندی کو نا دیکھتی تو خود کو اسی کیفیت کا شکار پاتی۔ وہ اپنے اور عفان آفندی کے درمیان طبقاتی فرق سے بخوبی واقف تھی۔
اس لیے اس نے اپنی آنکھوں کی دہلیز پر کوئی خواب نہیں سجایا تھا۔لیکن محبت پر کس کا زور چلتا ہے۔۔۔۔۔ اسے عفان آفندی سے محبت ہو گئی تھی لیکن وہ خود کے سامنے بھی اس محبت کا اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دن گزرتے گۓ اور عفان افندی کی محبت عالیہ کے دل کی سرزمین پر اپنے آہنی پنجے مضبوط کرتی رہی۔ عفان آفندی عالیہ کی محبت سے قطعی انجان تھا۔ عالیہ کی محبت یک طرفہ تھی اور یک طرفہ محبتیں جان لیوا ہوتی ہیں۔
عالیہ کے پاس واحد راستہ دعا کا تھا۔ وہ دعا مانگتی اور اس میں اپنی محبت کی بجاۓ عفان آفندی کی سلامتی و خوشی کی دعائیں مانگتی۔ اسے یہ جذبہ بہت عزیز تھا اور اس جذبے کا اظہار کر کے وہ اپنی محبت کو بےمول نہیں کرنا چاہتی تھی۔ عفان آفندی جب بھی سامنے آتا، عالیہ کی زبان گنگ ہو جاتی اور وہ شدت ِ جذبات سے کچھ کہ نا پاتی۔ ایک دن وہ عفان آفندی کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ اس نے عفان کو ارفع سے بات کرتے سنا۔
عفان نے موبائل کا اسپیکر آن کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ارفع کی آواز کمرے سے باہر تک آ رہی تھی۔ عفان میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔ میں نے بچپن سے ہی اپنے نام کے ساتھ تمہارا نام سنا ہے۔ اگر تم نے میری محبت قبول نا کی تو میں اپنی جان دے دوں گی۔ عالیہ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کے پیروں میں جان باقی نہیں رہی تھی۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی، منظر سے غائب ہونا چاہتی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کسی نادیدہ چیز نے اس کے پاؤں جکڑ دیے ہوں۔
ارفع کی بات سننے کے بعد عفان آفندی نے کیا کہا، یہ عالیہ نے نہیں سنا۔ اسے نا تو کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نا ہی کچھ سنائی دے رہا تھا۔ اپنی رہی سہی ہمت مجتمع کر کے وہ بےجان قدموں سے گھر پہنچی۔ گھر پہنچتے ہی خود کو کمرے میں بند کر کے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ کچھ بھی تھا، عفان آفندی اس کی محبت تھا اور اپنی محبت سے دستبردار ہونا اپنے ہی ہاتھوں شہ رگ کاٹنے جیسا ہوتا ہے۔
وہ دس دن مسلسل بیمار رہنے کے بعد کام پر واپس آئی تھی۔ وجیہہ بیگم کو اس کی فکر ہونے لگی تھی۔ دس دنوں میں ہی وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔ وجیہہ بیگم نے اس کو گھر جا کر آرام کرنے کو کہا اور ساتھ ہی کہا کہ دو دن بعد کام پر آ جاۓ کیونکہ عفان اور ارفع کی شادی طے پا چکی تھی۔ اگلے ہفتے دونوں شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے تھے۔ عالیہ آنکھوں میں نمی لیے گھر واپس آ گئی۔
وہ رات عالیہ کے لیے انگاروں بھری رات تھی۔ کوئی اس کے جسم سے اس کی روح کھینچ رہا تھا۔ وہ ساری رات روتی رہی۔ تہجد کے وقت وضو کر کے وہ جاۓ نماز پر آ بیٹھی۔ سجدے میں جاتے ہی اس کے آنسو جاۓ نماز بھگونے لگے۔ اس نے اپنا ہر دکھ اللّٰہ پاک کی ذات کے سامنے بیان کر دیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تو اس کے دل کو سکون مل چکا تھا۔ دل ایک ٹھہراؤ کی کیفیت میں آ گیا تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی محبت کی بھیک کبھی نہیں مانگے گی۔ اس نے عفان کی ذات سے محبت ہی نہیں، عشق بھی کیا تھا اور عشق میں کیا پانا اور کیا کھونا۔۔۔ عشق تو فنا فی اللّٰہ تک لے جاتا ہے۔ مجازی عشق کبھی عشقِ حقیقی کا روپ دھار لے، کوئی خبر نہیں۔ اور بہت خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کو عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفر نصیب ہوتا ہے۔ اس نے عفان کی شادی کی تیاریوں میں وجیہہ بیگم کی ہر ممکن مدد کی۔
نکاح والے دن اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ شاید وہ صبر کی آخری حد پر کھڑی تھی۔ وہ بےہوش ہو گئی۔ اسے کب ہسپتال پہنچایا گیا، اسے علم نہیں۔ ہسپتال میں دس دن گزار کر وہ واپس گھر آئی تھی لیکن خود کو دل کا مریض بنا لائی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں ماں کا بروقت علاج نا ہونے پر اور کھانا وقت پر نا ملنے پر اس کی ماں راہیِ عدم ہو چکی تھی۔ ڈاکٹرز نے اسے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا لیکن اس کے اندر جینے کی چاہ ختم ہو چکی تھی۔
ایک طرف محبت کا دکھ اور دوسرا غربت کا دکھ جو اس کی جان لے رہا تھا کہ اب اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کا کیا ہو گا۔ بستی والوں نے بھی عالیہ کے گھر میں فاقے ہوتے دیکھ ان سے منہ موڑ لیا تھا کیونکہ وہ بھی روز روز ان کو کھانا نہیں بھیج سکتے تھے۔ عالیہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ بستی والے سمجھ رہے تھے کہ شاید بھوک اور فاقوں سے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے۔
محبت کا مطلب صرف پا لینا ہی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ ٹوٹ گئی تھی۔ اس کا دل مزید صدمے برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ زیادہ دن زندہ نا رہ سکی۔ ایک خاموش شام وہ چپ چاپ زندگی کی بانہوں سے اپنا آپ چھڑا کر موت کی ہم سفر بن گئی۔ بستی والے اس کی موت کو مسلسل بھوک اور فاقوں سے ہوئی موت سمجھ رہے تھے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس رات اس خاموش آنکھوں والی لڑکی کو بھوک نے نہیں، بلکہ محبت نے مار ڈالا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles