Hain Talkh Buhat Banda E Mazdoor K Okaat - Article No. 2317

Hain Talkh Buhat Banda E Mazdoor K Okaat

"ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات" - تحریر نمبر 2317

جیسے ہی ملک میں کورونا کی وبا پھیلی، لوگوں نے گھروں سے نکلنا کم کر دیا۔ ملک میں شرح اموات بڑھنے کے پیش نظر ہر شخص دہشت کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ ہر روز خبر ملتی کہ فلاں شہر میں اتنے مریض سامنے آئے

صفیہ ہارون اتوار 26 اپریل 2020

جیسے ہی ملک میں کورونا کی وبا پھیلی، لوگوں نے گھروں سے نکلنا کم کر دیا۔ ملک میں شرح اموات بڑھنے کے پیش نظر ہر شخص دہشت کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ ہر روز خبر ملتی کہ فلاں شہر میں اتنے مریض سامنے آئے اور روز بہ روز متاثرہ اشخاص اور اس وبا سے ہوئی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔خوف و ڈر نے ہر جگہ اپنے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔
لوگ سرِ شام گھروں میں بند ہو جاتے۔ایسا لگتا کہ جو ہوائیں چل رہی ہیں، وہ بھی سہمی سہمی سی ہیں۔ ہر شخص دوسرے سے ملنے پر خوف زدہ تھا۔ اپنے لوگ بھی ایک دوسرے سے ملنے سے گریزاں تھے۔ اگر کوئی ملتا بھی تو اخلاص و محبت سے عاری ملاقاتیں ہوتیں۔ یوں لگ رہا تھا پہلے مروت میں، لحاظ میں لوگ جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما کرتے تھے، اب ان کی منافقتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔

(جاری ہے)

ہر چہرہ نقاب میں ضرور تھا لیکن کچھ چہروں سے اچھائی کا جھوٹا نقاب ہٹتا جا رہا تھا۔ سب کی خودغرضیاں کھل کر سامنے آ رہی تھیں۔ کورونا کو ہر جگہ مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔کسی کو طنزیہ یا مذاق میں کورونا کا مریض کہا جاتا تو کوئی اگر کھانستا تو لوگ اس سے دور بھاگتے۔ ایسے میں حال ہی میں ایک قصبے میں جہاں ابھی تک کورونا نے اپنا زہر فضا میں نہیں گھولا تھا۔
اس قصبے میں ایک رات گھر واپس آتے ہوئے ایک ڈرائیور کو شک کی بنیاد پر کورونا کا مریض بنا دیا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک مفلوک الحال پس ماندہ گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص جو کہ رات گئے اپنے کام سے واپس آ رہا تھا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ملک میں لاک ڈاؤن کے سبب اس کے گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا پڑا تھا۔ اس کے بچے کئی دن سے بھوکے تھے۔ وہ اس سوچ میں مبتلا گھر لوٹ رہا تھا کہ گھر جا کر وہ بیوی بچوں کو کیا جواب دے گا کہ اتنے روز کی محنت مشقت کے بعد بھی اس کے ہاتھ اتنے پیسے نہیں آئے تھے کہ وہ گھر واپسی پر اپنے بھوکے بچوں کے لیے راشن لے جاتا۔
گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کی طبیعت کافی خراب ہو چکی تھی۔مسلسل کھانسنے سے اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ نقاہت کے مارے برا حال تھا۔ اس نے گھر جانے کی بجائے ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ڈاکٹر کو دوائی کے پیسے دیے جا سکتے۔ڈیڑھ گھنٹہ ڈاکٹر کی منت سماجت کی تو اس نے دوائی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ دوائی سے پہلے اس نے بیماری کی علامات پوچھیں تو ڈاکٹر کو شک گزرا کہ کہیں اسے کورونا تو نہیں ہے۔
ڈاکٹر کے شک کو تقویت اس بنا پر بھی ملی کہ جب اس نے بتایا کہ وہ مسلسل کئی دن شہر سے باہر دھکے کھانے کے بعد ابھی ابھی قصبے میں واپس آیا ہے۔ ڈاکٹر اس کے ہمراہ اس کے گھر تک آیا۔ اسے کمرہ میں بند کر کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، آرمی اور پولیس کو اطلاع دی کہ یہاں کورونا کا ایک مریض موجود ہے۔ چھوٹے سے قصبے میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
ہر کوئی اس شخص کے بارے میں بات کر رہا تھا اور کچھ یہ سوچ رہے تھے کہ اب قصبہ مکمل طور پر سیل کر دیا جائے گا۔ رات گئے ڈاکٹرز اور آرمی کی ٹیمیں اسے قرنطینہ میں لے گئیں۔ بیوی بچے بھوکے روتے رہ گئے۔ قصبے کا ہر شخص متاثرہ شخص کے خاندان کو اچھوت سمجھ رہا تھا۔ اگلا سارا دن متاثرہ شخص کے خاندان نے بھوکا رہ کر گزارہ۔ بچے جب بھوک سے بلکتے تو ماں انہیں یہ کہ کر تسلی دیتی کہ تمہارے ابو واپس آئیں گے تو کھانے کی بہت ساری چیزیں لے کر آئیں گے۔
لیکن اندر ہی اندر وہ خود بھی ڈری ہوئی تھی کہ اگر واقعی اس کا شوہر کورونا کا مریض ثابت ہو گیا تو قصبے کے لوگ اسے اور اس کے بچوں کو نکال باہر کریں گے اور وہ لوگ تو فاقوں سے مر جائیں گے۔ کچھ دن قرنطینہ میں گزار کر جب متاثرہ شخص کی رپورٹس آئیں تو وہ نیگیٹو تھیں۔ شک کی بنیاد پر اسے قرنطینہ منتقل کیا گیا تھا۔ اب جب کہ اسے ایسی کوئی بیماری نہیں تھی تو اسے گھر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔
وہ مرجھائے ہوئے چہرے اور ٹوٹتے وجود کو لے کر گھر واپس لوٹ آیا تھا لیکن ایک اور آفت منہ کھولے اسے نگلنے کے لیے بےتاب تھی اور وہ تھی بھوک کی آفت۔ وہ جدھر بھی جاتا لوگ اس سے دور بھاگتے۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں سے کہتا رہا کہ مجھے کورونا نہیں ہے، میرے بچے بھوکے ہیں، مجھے کھانے کو کچھ دے دو، لیکن سنگ دل قصبے والوں کو اس کی دہائیوں پر یقین نا آیا۔
کوئی بھی ان کے گھر نا آتا اور سب لوگوں نے اس پر اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے۔ جیسے ہی لوگ اسے یا اس کے خاندان کو دیکھتے تو دروازہ بند کر لیتے اور وہ دروازے پر ہی کھڑا رہ جاتا۔ جب پاس کے گھروں سے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو اس شخص کے بھوکے بچوں تک پہنچتی تو وہ بھی اپنی ماں سے کھانے کی فرمائش کرتے ۔ میاں بیوی دونوں بچوں کو ڈھیروں تسلیاں دے کر سلا دیتے۔
ایک طرف بھوک کا خوف اور دوسری طرف قصبے والوں کی بےاعتنائی اسے مار رہی تھی۔ وہ اپنے روتے ہوئے بھوکے بچوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ بیماری بڑھ گئی تو وہ بالکل چارپائی کا ہو کر رہ گیا۔ اس میں اب اور ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ زندگی ہار رہی تھی اور موت ابھی کچھ فاصلے پر کھڑی اس گھرانے کی بےبسی پر مسکرائے جا رہی تھی۔ وہ شخص سارا سارا دن اور رات کھانستا رہتا لیکن کوئی ان کا حال تک پوچھنے نا آتا۔
بچوں کی ہنسی کہیں کھو گئی تھی۔ بچے سارا دن چہرے پر سنجیدگی طاری کیے خاموش رہتے۔ شاید گھر کے حالات اور مسلسل بھوک نے ان کی معصوم ہنسی اور ان کا خوب صورت بچپن چھین لیا تھا۔ اب پتا نہیں ان کا مستقبل کیا ہونے والا تھا؟ قصبے میں نمبردار کا گھر واحد ایسا گھرانہ تھا جہاں سے انہیں کئی مرتبہ امداد مل جاتی۔ اس کی بیوی نے نمبردار کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔
نمبردار کی بیوی نے ساری کہانی سننے کے بعد اس کی بیوی کو بٹھایا، کھانا کھلایا اور اسے اس کی ضرورت کے پیسے دے کر بھیجا۔ جب نمبردار کی بیوی متاثرہ شخص کی بیوی کے لیے چائے لائی تو وہ نیچے زمین پر بیٹھ گئی کہ کہیں وہ لوگ بھی اس سے پرہیز نا شروع کر دیں لیکن نمبردار کی خداترس بیوی نے اسے زمین سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھایا اور اسے یقین دہانی کرائی کہ اسے جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو، وہ بلاجھجک ان کے گھر آ سکتی ہے، یہاں کوئی اسے اچھوت نہیں سمجھے گا۔
ایک دو مرتبہ تو وہ آئی اور ضرورت کی چیزیں لے کر چلی گئی لیکن پھر کئی دن تک وہ منظر سے غائب رہی۔ اب کوئی بھی ان کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ گھرانہ کس حال میں زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے کہ اس کی بیوی نے مانگ کر اپنے بچوں اور بیمار شوہر کا پیٹ پالنا شروع کر دیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک قصبے کی بستی میں اعلان ہوا کہ وہی متاثرہ شخص اب اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا ہے۔
یہ اعلان سنتے ہی لوگوں نے یہی سمجھا کہ واقعی وہ شخص کورونا کا مریض تھا، جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی ہے لیکن اس کی بیوی بچوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی موت کورونا سے نہیں، بلکہ مسلسل بھوک اور تنہائی کے خوف سے ہوئی تھی۔ یہاں بھی قصبے والوں کی سنگ دلی جاری رہی۔ اس کی موت کا اعلان سن کر بھی کوئی ا س کے گھر نہیں آیا تھا۔
میونسپل کمیٹی کے اراکین نے اس کی تجہیز و تکفین کی۔ اس کی میت پر روتی اس کی بیوی سوچ رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو بھی اس کے خاوند کے ساتھ ہی مرجانا چاہیے تھا۔ اس روز اس گھر سے صرف ایک شخص کا جنازہ ہی نہیں اٹھا تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی اور جنازے بھی اٹھ رہے تھے، جو انسانی آنکھ سے اوجھل تھے اور بےحس ظالم لوگ ان جنازوں کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے، بچوں کی معصوم حسرتوں اور ان کے بچپن کا جنازہ، بیوی کی خود داری اور عزت و عصمت کا جنازہ کیونکہ اب زندگی بھر اسے اور اس کے بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی تھی جہاں بیوی کو لوگوں کے گھروں میں یا کسی فیکٹری میں کام کرنا پڑتا اور بچوں کو کسی ہوٹل یا ورک شاپ کے مالکان کےطعن و تشنیع والے لہجے برداشت کرنا ہوتے۔

Browse More Urdu Literature Articles