Har Zamanay Ka Shair Faiz Ahmed Faiz - Article No. 1816

Har Zamanay Ka Shair Faiz Ahmed Faiz

ہَر زمانے کاشاعرفیض احمد فیض - تحریر نمبر 1816

ہم پَرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے اپنے عہد کے جبرواستقلال کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ترجمانی کی

جمعرات 29 نومبر 2018

غلام زہرا
فیض احمد فیض دور جدید کے ایک نمائندہ شاعر ہیں وہ ان خوش قسمت شعراء میں سے ہیں جن کو اپنی زندگی میں بے پناہ شہرت عزت ومقبولیت ملی ‘فیض کا تمام کلام “نسخہ ہائے وفا “کی صورت میں چھپ چکا ہے ۔جونقش فریادی ‘دست صبا ۔دست تہہ سنگ ‘زنداں نامہ ‘سروادی سینا ‘شام شہریاراں اور میرے دل میرے مسافروغیرہ پر مشتمل ہے ۔

فیض نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے انگریزی اور اردو ادب پرانہیں خاص دسترس حاصل تھی ۔مولوی میر حسن کے شاگر د تھے ۔یہی علامہ اقبال کے استاد تھے لیکن فیض اقبال نہ بن سکے ۔اس کی وجہ دونوں کی سوچ اور زاویہ فکر کا فرق تھا۔اقبال نے اسلام بذریعہ اسلام کا نعرہ لگایا اور اسلام کو انقلابی مذہب جانا جب کہ فیض نے کمیونزم کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا ‘دونوں کی شاعری میں یہ فرق بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے ۔

(جاری ہے)


جس عہد میں فیض کے ادبی شعور نے ہوش سنبھالا اس وت مغربی اسلوب کے ساتھ اقبال کی قومی شاعری اور اختر شیرانی کی گیت نمانظموں کا چرچا تھا۔اس عہد کے نوجوان شعراء کے لئے دو قومی رجحان تھے۔ ایک ”شاعر اسلام“ اور دوسرا” رومان کا شاعر“ مگر فیض نے شعوری طور پر اپنے آپ کو ان دونوں اثرات سے بچائے رکھا۔
فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے اولین کار کنوں میں سے ہیں و ہ لینن اور مار کسزم کے فلسفہ‘ مقاصد اور معتقدات کے پُر خلوص مقلد تھے ۔
فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند تھے جو موجودہ استحصالی نظام کو بدل کر رکھ دے ۔انہوں نے اپنے عہد کے جبرواستقلال کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ترجمانی کی اور دنیا میں جہاں کہیں خیروامن کی صدا بلند ہوئی، اُس کا ساتھ دیا۔اپنے نظریات کی بنا پر فیض کو ہزاروں نصیحتوں اور دارورسن کی منزلوں سے گزرنا پڑا۔مگر انہوں نے اپنے نظریات میں لچک پیدا کی اور نہ اس سے روگردانی کی ۔

انہوں نے اپنی شاعری کی شروعات غزل سے کی ۔اگر چہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو بہت نقصان پہنچا تھا‘ لیکن فیض نے ترقی پسند نظریات کے اظہار کے لئے بھی غزل کا پیرا یہ اختیار کیا اور رومانی رجحانات کی عکاسی کو اپنا شعار بنایا۔فیض کی شاعری کا اصل محور زندگی کی معروضیت اور اس کی جمالیاتی ترجمانی ہے۔ غزل یا نظم دونوں میں ان کے جذبات کی گہرائی وگیرائی کا ذرجہ اتم احساس اپنا اثر دکھاتا ہے ۔

ان کا غم ذاتی بھی ہے اور کائناتی بھی‘ گویا واخلیت طارجیت کا خوبصورت امتزاج ہے ۔ایک بات جوواضح ہے کہ فیض نے ترقی پسند تحریک کا سر گرم رکن ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو پروپیگنڈہ کی بھینٹ نہیں چڑھا یا بلکہ اپنے تاثر ات اور احساسات کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ قاری کے سامنے موجودہ سماج میں روارکھی جانے والی ناانصافیوں کی ایک تصویر سی سامنے آجاتی ہے ۔
فیض کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مقصدی تقاضوں کو بھی پوراکرتے ہیں اور فن کی شان مقصدی تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں اور فن کی شان بھی برقرار رہتی ہے ۔
”دست صبا“ کے ابتدائیہ میں فیض لکھتے ہیں کہ” شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں بلکہ مجاہد ہ بھی اس پر فرض ہے گردو پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے‘ اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر‘ اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا‘ اس کے شوق کی صلاحیت اور لہو کی حرارت پر ۔
اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسب توفیق شرکت زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی نقاضا ہے ‘فن اسی زندگی کا ایک جزو اور فنی جدوجہد اسی جدوجہد کا ایک پہلو ہے ۔“
یہی نظر یہ اور جدوجہد ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے ۔اپنے قلم سے اجتہاد کرنا ہر کس وناکس کا کام نہیں مگر فیض نے یہ ذمہ داری بھی باحسن انجام دی ہے کہتے ہیں ۔

ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے جودل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے انقلاب‘ رومان اور حُسن وعشق کی وارداتیں ان کی شاعری کا جزو ہیں ۔انہوں نے روحانیت و انقلابیت کے ترانے بیک وقت گنگنائے ہیں وہ انقلابیت اور رومانیت میں ایک منفرد لہجہ اور اسلوب اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔فیض کا کمال یہ ہے کہ وہ انقلاب اور رومان کو الگ الگ خانوں میں بانٹنا پسند نہیں کرتے ۔
ناقدین کا یہ کہنا بجا ہے کہ فیض انقلاب سے رومان اور حقیقت کے سنگم کی طرف آیا ہے ۔اگر چہ زندگی کے پہلے عشق میں ناکامی کا غم ساری عمرانہیں رہا جس کا اظہار بار ہا ان کی شاعری میں نظر آتا ہے ‘کہتے ہیں ۔
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حُسن دوعالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
یہ بات طے ہے کہ وہ مایوس نہیں ہوتے ۔محبت کا جذبہ انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی محبت کے راستے میں زنداں کی دیواریں حائل نہیں ہوئیں ۔فیض کی شاعری میں رجائیت کا جو عنصر ہے ۔یہ ایسی محبت کا اعزاز ہے جو انہیں پر امید بنادیتا ہے ۔
عرصہ دہر کی جُُھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
فیض احمد فیض کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے طبقاتی جدوجہد کا اظہار بھی محبت کے نغموں کے ساتھ کیا ہے ۔
ان کے ہاں پرولتاری انقلاب کا بڑا واضح تصور ملتا ہے ۔یہ تصور ایک شاعر کا تصور ہے مستقبل سے بہترین تو قعات وابستہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
فیض عالمی پیغا مبرامن ہیں وہ ہر جگہ امن علمبردار دار بننے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
کہیں بھی کسی بھی جگہ ملک یا قوم پر جنگ مسلط کی جا رہی ہویا کوئی ملک اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہا ہو فیض بھی انقلا بیوں کی آواز میں آواز ملا کر اسے توانائی بخشتے ہیں ۔اس کے ساتھ فیض کو اپنے ملک سے حددرجہ محبت ہے وہ ملک سے جبرواستحصال کے خاتمے کے متمنی تھے ۔اس ملک کی ترقی وخوشحالی اور جمہوریت کے لئے کوشاں تھے لیکن جب وہ اپنے آدرش کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھتے تو بددل ہو کر ملک ہی سے چلے جاتے ہیں مگر اپنی جدوجہد وسعی کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں ۔

مقا م فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یا ر سے نکلے تو سوئے دار چلے
”کوئے یار “اور سوئے دار“ کی اصطلاح سے ہمیں ایک بار پھر فیض کے ہاں انقلابیت اور رومانیت کا امتزاج ملتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس امتزاج نے فیض کی شاعری کو خوب نکھارا ہے اور کمال یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی تغزل کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ان کی غزلیں ان کے مقصدی نظریات سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود سوزوگداز کا مرقع ہیں ۔
اس طرح کے اشعار انہیں کلاسیکل شعراء کی صف میں بھی لے آتے ہیں ۔اس طرح کا انداز ہمیں میر اور غالب کی شاعری میں بھی ملتا ہے ‘مگر فیض نے جو عمدہ کام کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے پرانی علامتوں کو نئے معنی پہنا کر انہیں سیاسی وطبقاتی پس منظر کا حامل بنا دیا‘ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سینکڑوں نئی علامتیں تخلیق کیں ‘مثلاً
یہ داغ داغ اجالا ‘یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
جا بجا ر قص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گرگر کر
فیض کے ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے انقلابی افکار کے باوجود انہوں نے غزل کے کلاسیکی اسلوب کو ترک نہیں کیا‘ بلکہ فارسی تراکیب اور کسی حد تک مفرس ڈکشن کی بنا پروہ غالب کی طرز اداکے خاصے قریب نظر آتے ہیں ۔

بقول ڈاکٹر سلیم اختر” وہ کلاسیکی اسلوب کے اس حد تک رسیا ہیں کہ ان کی نظمیں بھی بعض اوقات غزل اور وہ بھی غالب کی غزل معلوم ہوتی ہیں ۔“
حقیقت یہ ہے کہ فیض کی شاعری اپنے عہد کے دوش بدوش چلتی ہے‘ زمانے کے نقوش اور اس کی رفتار ان کی نظموں اور غزلوں میں یکساں نظر آتے ہیں اور عظیم شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے تقاضوں کو پورا کرے اور ان کی عکاس بنے اور یہی چیز فیض کے ہاں سب سے نمایاں ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے تقاضو کو پیش نظر رکھا اور داخلیت ورخارجیت کے امتزاج سے خوبصورت شاعری تخلیق کی ۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلوب کی جدت‘ لہجے کی نغمگی اور موسیقیت ‘دردوکرب کا اظہار المیہ نگاری‘ اداسی اور تنہائی کا احساس بھی خوبصورت انداز سے پیش کیا۔اگر چہ فیض ایک خاص زمانے کا شاعر ہے لیکن ان کے یہاں جو عمومیت واستقلال کا پہلو ہے وہ انہیں ہر زمانے کا شاعر بنادیتا ہے۔ جب تک دنیا میں ظلم واستحصال مظلومیت اور محکومیت ہے مگرجذبہ انقلاب موجود ہے تو فیض کی شاعری سدا بہار رہے گی ۔

متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہی انگلیاں میں نے
حرف آخر کے طور پر کہنا ہے کہ اپنے اندر فیض کا سا جذبہ پیدا کیجئے ۔ظلم وجبر کے خلاف اگر آواز بلند کرنے میں عارمحسوس ہوتی ہے تو قلم کو اپنا ہتھیار بنا لیجئے کہ دنیا میں بہت سے انقلاب قلم سے ہی برپا ہوئے ہیں ۔کوئی عہد بھی اچھا یا بُرا ہیں ہوتا‘ہماری سوچ اور فکر اسے اچھا یا بُرا بناتی ہے ۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے عہد کو اچھا اور بھروپر بنائیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles